علامہ اقبال اور مسیحی دنیا

 


پچھلا ہفتہ دنیا کی مسیحی برادری کے لیے سخت رنج و الم کا زمانہ ثابت ہوا ہے۔ پیرس میں نوٹرڈیم گرجے کی آتشزدگی اپنی جگہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا اگرچہ اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے بعد ایسٹر سنڈے پر سری لنکا میں دہشت گردی کے المناک واقعات پیش آ گئے جن میں تین سو سے زیادہ افراد جاں بحق اور کم سے کم پانچ سو زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ کے علاوہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت بہت سی اہم شخصیات نے بھی بیانات جاری کیے ہیں اور کہا ہے کہ پاکستان اِس غم انگیز لمحے میں سری لنکا کے ساتھ ہے۔



بدقسمتی سے ہمارے میڈیا کے بعض مشاہیر اپنی کم علمی، ناسمجھی یا کسی اور وجہ سے مذاہب کے درمیان نفرت کے بِیج بو رہے ہیں۔ ایک عرصے سے ہمارے نام نہاد لبرل اور نام نہاد ترقی پسند دانشوروں نے رٹ لگائی ہوئی ہے کہ نظریۂ پاکستان پیش کرنے والے اقلیتوں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ کسی امتیازی سلوک کے حامی تھے اور خاص طور پر علامہ اقبال کے متعلق اس حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں۔

میں تمام مذاہب کے بارے میں علامہ اقبال کی رائے اور تمام اقلیتوں کے بارے میں اُن کے خیالات یہاں پیش نہیں کر سکتا لیکن موجودہ حالات کی مناسبت سے صرف کچھ اہم نکات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ایسٹر سنڈے


جب میں نے علامہ اقبال کی سوانح پر تحقیق شروع کی تو مجھ پر واضح ہوا کہ اس پورے عرصے میں اِیسٹر اور کرسمس مسلمانوں کی قومی زندگی میں بھی ایک خاص وجہ سے اہم ہو گئے تھے۔

برطانوی عہد میں ان دونوں مواقع پر کئی دنوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں۔ اس لیے برصغیر کی اکثر سیاسی، ثقافتی اور مذہبی تنظیمیں بھی اپنے سالانہ اجلاس انہی دنوں میں رکھتی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہو سکیں اور بالخصوص دُور کے شہروں سے آنے والوں کے لیے چھٹیوں کی وجہ سے شرکت ممکن ہو جائے۔ ان تنظیموں میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، آل انڈیا مسلم لیگ اور انجمن حمایت اسلام بھی شامل تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری اُس دَور کی تاریخ کے اہم ترین واقعات کرسمس یا ایسٹر کے دنوں میں پیش آئے۔ مسلم لیگ کا قیام، میثاقِ لکھنؤ، علامہ اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد سب دسمبر میں کرسمس کی چھٹیوں کے دوران ہوئے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ قراردادِ پاکستان 23 مارچ کو کیوں پیش کی گئی؟ وجہ یہ ہے کہ 1940 میں ایسٹر سنڈے 24 مارچ کو تھا۔ 22 سے 24 تاریخ تک ایسٹر وِیک اینڈ تھا۔ انہی تاریخوں میں مسلم لیگ کا اجلاس رکھا گیا۔

اِسی طرح جناح نے اپنے 14 نکات 29 مارچ 1929 کو پیش کیے کیونکہ اس سال ایسٹر سنڈے 31 مارچ کو تھا اور مسلم لیگ کا اجلاس اُسی وِیک اینڈ پر ہوا۔

علامہ اقبال کی مشہور ترین نظمیں انجمن حمایتِ اسلام کے اجلاس میں سنائی گئیں۔ یہ اجلاس تقریباً ہمیشہ ایسٹر والے وِیک اینڈ پر ہوتے تھے۔ چنانچہ علامہ اقبال کی جو مشہور ترین نظمیں ایسٹر ویک اینڈ پر سنائی گئیں، اُن میں “تصویرِ درد”، “شکوہ”، “شمع اور شاعر”، “خضرِ راہ” اور “طلوعِ اسلام” جیسی شاہکار نظمیں بھی شامل ہیں جو نہ صرف ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ ہماری قومی تاریخ کی علامتیں بن چکی ہیں۔

اس دفعہ علامہ اقبال کی برسی اِیسٹر سنڈے کو آئی۔ میں اِس اتفاق پر غور کیے بغیر نہ رہ سکا لیکن بدقسمتی سے اسی دن سری لنکا میں قیامت ٹوٹ پڑی۔ سری لنکا کی اپنی تاریخ میں یہ دوسرا موقع تھا کہ اِیسٹر سنڈے کے موقع پر اس ملک کو حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتوار 5 اپریل 1942 کو جاپان نے اس ملک پر حملہ کیا تھا جس کا نام اس وقت سیلون تھا اور یہ برطانوی تحویل میں تھا۔

اقبال اور نوٹرڈیم


مارسیلز کا نوٹرڈیم گرجا۔ تصویر بشکریہ ویکی میڈیا کامنز


نوٹر ڈیم نام کے کئی گرجے دنیا میں موجود ہیں۔ یہ بی بی مریم کی یاد میں تعمیر کیے گئے (فرانسیسی زبان میں “نوٹر ڈیم” کا مطلب “ہماری محترم خاتون” یا “Our Lady” ہے)۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور پیرس کا نوٹرڈیم گرجا ہے جو 15 اپریل 2019 کو حادثاتی طور پر آتشزدگی کی لپیٹ میں آیا۔

فرانس ہی کے ایک اور شہر مارسیلز کا نوٹرڈیم گرجا بھی بہت مشہور ہے۔ 1905 میں علامہ اقبال یورپ جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تو اپنے سفرنامے میں لکھا:

“مارسیلز کا نوٹرڈیم گرجا نہایت اونچی جگہ پر تعمیر ہوا ہے اور اس عمارت کو دیکھ کر دل پر یہ بات منقوش ہو جاتی ہے کہ دنیا میں مذہبی تاثیر ہی حقیقت میں تمام علوم و فنون کی محرّک ہوئی ہے۔” (دیکھیے “مقالاتِ اقبال”، صفحہ 121)

یہاں اقبال نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے، اُن کا گہرا رشتہ اُن جذبات کے ساتھ بالکل ظاہر ہے جو اُنہوں نے کئی برس بعد اپنی مشہور نظم میں مسجدِ قرطبہ کے حوالے سے ظاہر کیے:

قطرۂ خونِ جگر سِل کو بناتا ہے دل
خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود!
عرشِ معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہرِ کبود

اقبال کے تصوّرِ جنّت میں غیرمسلم


یہ ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی شعری تصانیف میں جہاں جنّت کی منظرکشی کی ہے، وہاں مسلمانوں کے ساتھ بعض غیرمسلم شخصیات کو بھی دکھایا ہے:

کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے!

“پیامِ مشرق” (1923) کی ایک نظم میں جرمن مفکر گوئٹے جنّت میں مولانا روم کے ساتھ محوِ گفتگو ہے۔ “جاویدنامہ” (1932) کے ایک حصے میں قدیم ہندو شاعر بھرتری ہری جنّت الفردوس میں  اپنے اشلوک سنا رہا ہے۔

علامہ اقبال کی شاعری کے ہر دَور میں ہمیں غیرمسلموں کی مقدس شخصیات کی تعریف میں نظمیں ملتی ہیں۔ “بانگِ درا” (1924) میں رام اور گرونانک کی مدح میں نظمیں موجود ہیں۔ “جاویدنامہ” (1932) میں فلکِ قمر پر نہ صرف قدیم ہندو سادھو وشوامتر کو عقیدت مندانہ رنگ میں پیش کیا گیا ہے بلکہ وہاں جن “چار پیغمبروں” کی الواح پیش کی گئی ہیں، وہ گوتم بدھ، زرتشت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ گویا اقبال نے گوتم بدھ اور زرتشت کو بھی خدا کے سچے پیغمبروں میں شمار کیا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی لوح پر روسی ناول نگار ٹالسٹائی کا خواب پیش کیا گیا ہے۔

اسی طرح علامہ اقبال کی شاعری کے ہر دَور میں ہمیں دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں سے اقتباسات کے تراجم بھی دکھائی دیتے ہیں۔

ہندوؤں کے مشہور منتر “گایتری” کا ترجمہ انہوں نے “آفتاب” کے عنوان سے کیا۔

سکھوں کے دسویں گُرو گوبند سنگھ کا مشہور قول ہے کہ میں چڑیوں سے باز کو شکار کرواؤں، تب گوبند سنگھ کہلاؤں:

چڑیوں سے میں باز تڑاؤں
تبئے گوبند سگھ نام کہاؤں

اس قول کی بازگشت علامہ اقبال کے اِس مشہور شعر میں دیکھی جا سکتی ہے:

اٹھا ساقیا پردہ اِس راز سے
لڑا دے ممُولے کو شہباز سے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ایک اور “دانشور” حسن نثار نے اپنی ایک ویڈیو میں علامہ اقبال کے اِس شعر پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ممولے کو شہباز سے لڑانے کا تصوّر ہی غلط ہے۔ لیکن وہ یہ بات نظرانداز کر گئے کہ یہ خیال اقبال کا اپنا نہیں بلکہ گرو گوبند سنگھ کے مشہور قول سے ماخوذ ہے۔



اسی طرح بھرتری ہری کے ایک اشلوک کا جو ترجمہ اقبال نے کیا وہ اتنا مشہور ہوا ہے کہ اُردو زبان کا محاورہ بن چکا ہے:

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

دسمبر 1930 میں یعنی جس مہینے علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں مشہور خطبۂ صدارت میں مسلم ریاست کا تصوّر پیش کیا، لاہور کے پنجابی رسالے “سارنگ” میں اُن کا ایک انٹرویو شائع ہوا جو رسالے کے ہندو مدیر ایس ایل پراشر نے لیا۔ اس کا ترجمہ یونس جاوید کی مرتب کی ہوئی “صحیفۂ اقبال” میں صفحات 28 سے 33 پر موجود ہے۔ یہ علامہ سے گفتگو پر مبنی تھا جو اُن کی کوٹھی پر پنجابی میں ہوئی تھی۔

گفتگو کے دوران اُنہوں نے سورۂ آلِ عمران کی آیت پڑھی اور مطلب یوں سمجھایا، ’’ہم سب خدا کو مانتے ہیں۔ ہمیں مل جل کر رہنا چاہیے۔ اس لحاظ سے جو بھی خدا کو مانتا ہے، وہ مسلمان ہے۔‘‘

پراشر نے پوچھا، ’’تو پھر آپ کی شاعری میں خطاب ایسے ہی مسلمانوں سے ہوتا ہے؟‘‘ علامہ اقبال کا جواب تھا:

“ہاں آپ نے ٹھیک بوجھ لیا ہے … میں اپنے ہندو اور سِکھ دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ آپ [میرے اشعار میں] مسلمان ہادیوں اور پیغمبروں کے ناموں کی جگہ شوق سے ہندو اور سِکھ بزرگوں کے نام استعمال کر لیا کیجیے۔‘‘

اقلیتوں کا معاہدہ



دوسری گول میز کانفرنس کے دوران مسلمانوں اور ہندوستان کی بعض اقلیتوں نے آپس میں ایک معاہدہ کیا جسے مسلمانوں کے تمام نمایندوں کی تائید حاصل تھی۔ ان نمایندوں میں علامہ اقبال اور محمد علی جناح بھی شامل تھے۔

معاہدہ کرنے والوں میں مسلمان، اچھوت، عیسائی، اینگلو انڈین اور یورپین شامل تھے۔ معاہدے کے گیارہ بنیادی نکات تھے اور ہر فرقے کے خصوصی مطالبات الگ الگ بھی درج تھے۔ بعض دفعات اس طرح تھیں:

      • کسی شخص سے اُس کی پیدائش، مذہب، ذات یا عقیدے کی وجہ سے سرکاری ملازمت، اعلیٰ عہدے، اعزاز، شہری حقوق، تجارت یا پیشے  کے معاملات میں تعصب نہیں برتا جائے گا۔
      • کسی ملّت کے خلاف امتیازی قوانین بنانے کی اجازت نہ ہو گی۔
      • مکمل مذہبی آزادی ہو گی۔ عقیدے، عبادات، تبلیغ، اجتماع اور تعلیم پر سوائے امنِ عامہ اور اخلاقی ضابطوں کے کوئی اور پابندی نہ ہو گی۔ مذہب بدلنے کی وجہ سے کسی کو   شہری حقوق اور مراعات سے محروم نہ کیا جائے گا اور نہ ہی سزا ملے گی۔
      • ہر ملّت کو اپنے خرچ پر خیراتی، مذہبی، سماجی اور تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے، اور وہاں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کا حق ہو گا۔
      • اقلیتوں کے مذہب، ثقافت اور شخصی قانون کی سلامتی؛ ان کی تعلیم، زبان، خیراتی اداروں کی ترویج؛ اور ریاست یا خوداختیاری اداروں سے امداد کے لیے آئینی تحفظات ہوں گے۔
      • جان بوجھ کر یا انجانے میں کسی کو شہری حقوق سے محروم کرنا جرم ہو گا اور سزا دی جائے گی۔
      • یہ رواج قائم کیا جائے گا کہ جہاں تک ہو سکے مرکزی اور صوبائی وزارتوں میں اقلیتوں کے افراد ضرور شامل کیے جائیں۔
      • چھوت چھات کی بنیاد پر کوئی پابندی لگانا جرم ہو گا۔
      • اچھوتوں کو فراخ دلی کے ساتھ ملازمتوں، پولیس اور فوج میں بھرتی کیا جائے گا۔
      • اینگلو انڈین کمیونٹی کی خصوصی حیثیت کا لحاظ کرنے میں فراخ دلی سے کام لیا جائے گا، مثلاً ایک خاص معیارِ زندگی برقرار رکھنے کی ضرورت، مقدمے کی صورت میں یورپین جیوری طلب کرنے کا حق وغیرہ۔
      • ملک میں رہنے والے یورپیوں کو صنعت و تجارت میں مقامی شہریوں کے برابر حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے۔

علامہ اقبال اس معاہدے کو خاص اہمیت دیتے تھے، جس کی کچھ تفصیلات میری پوسٹ “اقلیتوں کا معاہدہ” میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ہماری ذمہ داری



سری لنکا میں آج 23 اپریل 2019 قومی سوگ کا دن ہے۔ دنیا اِس دُکھ میں شریک ہے۔ یہ اس سانحے کا سب سے اہم پہلو ہے اور سب سے پہلے ہمیں اُن خاندانوں کا دُکھ محسوس کرنا چاہیے جن کے پیارے ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے ہیں یا زخمی حالت میں ہیں۔

اس کے بعد ہمیں یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ دہشت گردی کا ایک واقعہ ہے۔ فی الحال اس کی ذمہ داری سری لنکا کی ایک نام نہاد “اسلامی” انتہاپسند تنظیم پر ڈالی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُن سب کا تعلق سری لنکا سے ہی ہے لیکن یہ امکان بھی نظرانداز نہیں کیا گیا کہ اس میں دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد بھی ملوّث ہوں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اور بھارت نے حادثے سے کم از کم دس دن پہلے سری لنکا کی حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ کچھ دہشت گردوں کی طرف سے اس قسم کے کسی اقدام کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

ان حالات میں ہمیں یہ بھی یاد کر لینا چاہیے کہ جمعہ 5 اپریل کو پاکستان کے دفترِ خارجہ نے چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ کے نمایندوں کو آگاہ کیا تھا کہ بھارتی قیادت خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کے لیے کسی جارحانہ اقدام کی تیاری کر رہی ہے۔ اتوار 7 اپریل کو وزیرِ خارجہ نے پریس کانفرنس کے ذریعے قوم کو بھی اطلاع دی کہ بھارت کی طرف سے “16 سے 20اپریل تک یہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔”



فی الحال ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ 21 اپریل کا سانحہ اسی بھارتی منصوبے کی کڑی ہے یا نہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں غیرضروری قیاس آرائی کرنی بھی نہیں چاہیے۔ اس کی بجائے ہمیں اپنے ذمہ دار اداروں بالخصوص دفترِ خارجہ کی طرف سے مناسب معلومات کا انتظار کرنا چاہیے۔

ہماری اپنی توجہ کی زیادہ مستحق ایک اور بات ہے، وہ بات جس کی ایک مثال پچھلے سال سامنے آئی تھی جب امریکی ٹیلی وژن پر جاسوسی ڈرامہ سیریز “کوانٹیکو” (Quantico) کی ایک قسط “بلڈ آف رومیو” میں دکھایا گیا کہ کچھ ہندُو مذہبی جنونیوں نے نیو یارک مِیں دہشت گردی کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ الزام پاکستان پر ڈال دیں۔ پروگرام نشر ہوتے ہی بھارتی جیالوں نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کر دیا۔ نہ صرف پروگرام میں کام کرنے والی بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا نے اپنی قوم سے معافی مانگی بلکہ حد یہ ہے کہ پروگرام تخلیق کرنے والے ادارے اے بی سی نے بھی باقاعدہ معافی مانگی۔

حالانکہ یہ محض ایک فرضی کہانی تھی اور یہ دنیا بھری کی جاسوسی فلموں اور کہانیوں میں کثرت سے استعمال ہونے والا ایک عام پلاٹ ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے ایسی امریکی فلمیں بھی دیکھی ہوں گی جن میں امریکہ ہی کے کسی حساس ادارے مثلاً سی آئی اے یا صدرِ امریکہ کے اسٹاف کے کسی رُکن کو انفرادی طور پر اِس قسم کے کسی جرم کا منصوبہ بناتے ہوئے دکھایا گیا۔

ان تمام فلموں پر عام طور پر کوئی اعتراض نہیں ہوا اور نہ ہی معافی مانگنے کی نوبت آئی۔ لیکن جب بھارت کے بارے میں ایک ایسی فرضی کہانی صرف ایک ٹی وی پروگرام کی ایک قسط میں پیش کی گئی تو نہ صرف اداکارہ بلکہ خود پڑودکشن ہاؤس نے معافی مانگی۔



ذرا سوچیے کہ جب امریکی ٹیلی وژن اس بات کی ہمت نہیں رکھتا کہ ایک ٹی وی ڈرامے میں فرضی بھارتی کرداروں پر بھی یہ الزام لگائے کہ وہ دہشت گردی کی کوئی کاروائی کر کے اس کا الزام پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیںں، تو پھر خدانخواستہ اگر کبھی سچ مچ اس قسم کی کسی کاروائی کی تحقیق کرنے کی نوبت آ گئی تو کیا اس میڈیا میں غیرجانبداری کے ساتھ حقائق کو پیش کرنے کی ہمت ہو گی؟

جواب واضح ہے اور تشویشناک ہے۔ اس لیے ہم میں سے ہر پاکستانی کی انفرادی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنے ملک کی تاریخ کے بارے میں وہ درست معلومات حاصل کریں جو ہمیں اپنی نگاہوں میں بھی اور دنیا کی نگاہوں میں بھی معتبر بنا سکے۔ اس کے بعد وہ معلومات ہم دوسروں تک پہنچا کر پاکستان کا ایک بہتر امیج بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ میں نے آج کی پوسٹ میں علامہ اقبال کے حوالے سے جو تھوڑے سے بنیادی حوالے پیش کیے ہیں وہ کتنے اہم ہیں، اُن کا موجودہ زمانے کے حالات سے کتنا گہرا تعلق ہے اور کتنا ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر شخص ان سے واقف ہو۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بنیادی حوالے بھی ہم میں سے اکثر لوگوں کے علم میں نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ بعض لوگ جو دانشور بھی کہلاتے ہیں، روشن خیال اور ترقی پسند بھی سمجھے جاتے ہیں، وہ جھوٹی اور غلط معلومات پیش کر کے ہمارے درمیان غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔

میری درخواست ہے کہ ایک امن پسند، فرض شناس اور ذمہ دار شہری کے طور پر اپنا کردار ادا کیجیے۔ شاید میری کتاب “آزادی” اس سلسلے میں آپ کی معاون ہو۔