شہناز بیگم سے ایک مختصر ملاقات

یہ 2007 یا 2008 کی بات ہے۔ اسلام آباد ٹیلی وژن کے ایک دوست کا فون آیا کہ وہ کراچی آئے پوئے ہیں اس لیے اگر میں ان سے ملاقات کرنا چاہوں تو ٹی وی اسٹیشن آ جاؤں جہاں وہ کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کر رہے ہیں۔ ریکارڈنگ ختم ہونے کے بعد اکٹھے ڈنر پر چلیں گے۔

اُن دنوں میں نے تصوّرِ پاکستان اور وحید مراد گروپ کے درمیان وہ تعلق نیا نیا دریافت کیا تھا جس سے اب میرے پڑھنے والے کافی واقف ہو چکے ہیں۔ کئی دنوں سے میں ہر روز کئی کئی گھنٹے “سوہنی دھرتی” سن رہتا تھا کیونکہ اس کے کچھ خاص معانی سمجھ میں آنے لگے تھے۔

اُس شام کراچی ٹی وی اسٹیشن پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ میرے دوست اسٹوڈیو ڈی میں ریکارڈنگ کر رہے ہیں، میں بھی وہیں بیٹھ کر ریکارڈنگ ختم ہونے کا انتظار کر لوں۔ جیسے ہی میں نے اسٹوڈیو میں قدم رکھا، سوہنی دھرتی کے ابتدائی سُر بجنا شروع ہو گئے۔ پہلے میں یہی سمجھا کہ ذہن دھوکہ دے رہا ہے کیونکہ اُن دنوں ویسے ہی ہر وقت یہ نغمہ ذہن میں گونجتا رہتا تھا۔ لیکن چند قدم آگے بڑھا تو سامنے شہناز بیگم بیٹھی ہوئی سازندوں کے ساتھ یہ نغمہ سنا رہی تھیں۔ انہوں نے صرف پہلا مصرعہ پڑھ کر ہی نغمہ ختم کر دیا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ جب اُن سے اس نغمے کی فرمایش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ سہیل رعنا کے آرکسٹرا کے ساتھ یہ نغمہ جس طرح ریکارڈ کیا ہوا موجود ہے اُس کی ایک تاریخی حیثیت ہے اور وہ نہیں چاہتیں کہ کسی اور قسم کے سازوں کے ساتھ ایک نئی ریکارڈنگ کروا کے وہ اصل نغمے کی حیثیت کو مجروح کریں۔ بہت اصرار کے بعد بھی وہ اپنی ضد سے بالکل نہ ہٹیں اور صرف تبرک کے طور پر پہلا مصرعہ ہی ریکارڈ کروایا۔ یہ ریکارڈنگ یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے (جی نہیں، میں اِس ویڈیو میں نہیں ہوں، میں کیمرے کے برابر میں کھڑا تھا کیونکہ میں پروگرام میں شامل نہیں تھا اور محض اتفاقاً وہاں پہنچا تھا)۔



ٹی وی اسٹیشن جاتے ہوئے میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شہناز بیگم سے ملاقات ہو جائے گی بلکہ مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ پاکستان تشریف لائی ہیں۔ پروگرام کے بعد میں نے اُن سے چند سوالات پوچھنا چاہے لیکن وہ خاصی تھک چکی تھیں۔ البتہ اُن کے شوہر بالکل ہشاش بشاش تھے اور اُنہوں نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ میری معلومات میں اضافہ کیا۔

یہ ایک انتہائی مختصر ملاقات تھی اور مجھے نہ اس سے پہلے اور نہ بعد میں کبھی شہناز بیگم سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ تاثر جو میں نے اس مختصر ملاقات میں قائم کیا، اُس کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس حد تک یہ اُن کے بارے میں عمومی طور پر بھی درست ہو گا لیکن اس موقع پر مجھے یہی محسوس ہو ا کہ ایک مجذوب طبیعت رکھنے والی خاتون ہیں۔ بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ انہیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ جس ملک میں کھڑی ہیں، اس میں وہ اتنی بڑی سلبرٹی (celebrity) ہیں اور لگتا تھا جیسے انہیں اس بات کی کوئی پروا اور شوق بھی نہیں ہے۔ انہیں صرف اپنا کام کرنے سے مطلب ہے، جس میں وہ کوئی کمی نہیں رہنے دیتیں۔

بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی پر شُکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں کہ مجھے اپنی زندگی میں یہ موقع ملا کہ میں نے صرف چند گز کے فاصلے پر شہناز بیگم کو لائیو سوہنی دھرتی گاتے ہوئے سُنا اور دیکھا۔

آج صبح یہ خبر ملی کہ شہناز بیگم اب اِس دنیا میں نہیں ہیں (یا کم سے کم ہمارے شعور کے مطابق نہیں ہیں)۔ جب اس خبر کی تفصیل معلوم کی تو سامنے آیا کہ ان کا انتقال آج نہیں بلکہ کل ہوا ہے۔ یعنی یومِ پاکستان 23 مارچ پر۔

یعنی ہر سال ان کی برسی پر خواہ اُن کی برسی منانے کا اہتمام کیا جائے یا نہ کیا جائے، اُنہیں خودبخود یاد کیا جائے گا اور اُن کے دونوں لازوال گیت گائے جائیں گے، سوہنی دھرتی اور جیوے پاکستان۔

اللہ تعالیٰ انہیں اُن کی قومی خدمات کا اجر عطا فرمائے، جنّت الفردوس میں جگہ دے اور “جب تک ہے یہ دنیا باقی، ہم دیکھیں آباد تجھے”۔