فیاض ہاشمی سے ایک انٹرویو


فیاض ہاشمی 1920 ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے اور 29 نومبر 2011 ء کو کراچی میں فوت ہوئے، جہاں ایک مسجد کے سائے میں اُن کا مزار ہے۔ اُن سے یہ انٹرویو شہنشاہ حسین نے لیا تھا اور “اخبارِ جہاں” کے شمارہ برائے 19 تا 25 جولائی 2004ء میں شائع ہوا۔ عقیل عباس جعفری کے کتب خانے سے حاصل کر کے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔


فیاض ہاشمی معروف نغمہ نگار سے خصوصی انٹرویو

ملاقات شہنشاہ حسین

ایک شاعر کی زندگی اس کے اشعار کے ہر انداز میں جھلکتی ہے۔ تمام عمر ایک خاص اندازِ خیال میں بسر ہو تو سوچ کا ایک ہمہ گیر مگر پختہ اور یکساں انداز نصیب ہوتا ہے۔ کسی صاحبِ خیال نے خوب کہا ہے کہ ہر اچھے آدمی کے گرد ایک ہالہ ہوتا ہے، اُس کے نزدیک جائیں تو دل خود بخود منور ہو جاتا ہے۔ جب ہم روشنی کے کسی حلقے میں داخل ہوتے ہیں تو اندھیرے خود بخود چھَٹنے لگتے ہیں۔

ادب و شعر و سخن کی نامور ہستی فیاض ہاشمی کا تعلق بھی علم و ادب کے ایسے ہی روشن حلقے سے ہے۔ جن کا علم و ہنر نہ صرف ہماری فلمی تاریخ بلکہ ہماری ادبی و علمی تاریخ کو بھی روشن کئے ہوئے ہے۔

آج بھی ان کی گفتگو اور کلام میں وہی تازگی و دلبری شامل ہے، جو جوانی میں اُن کی شاعری میں ملتی ہے۔ عمر کے آج اس حصے میں جہاں انسان کی اپنی ہمت جواب دے دیتی ہے۔ اس کے باوجود ان میں جواں ہمتی چھلکتی ہے، اُن کے سخن میں ہمیشہ جو موضوع رہا ہے۔ مگر اُن کے فلمی نغمات میں اِس موضوع و فکر کی ادائیگی کے سَو رنگ نظر آتے ہیں۔

فیاض ہاشمی صاحب سے ملاقات کی خواہش کئی سالوں سے تھی جو کہ دو سال کی بھاگ دوڑ کے بعد پوری ہوئی۔ انہوں نے اپنی مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت ہمیں دیا لیکن جیسے جیسے ہماری اُن سے فلمی شاعری پر باتیں ہوتی رہیں، فیاض ہاشمی صاحب کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی اور ہم ان کے پاس کئی دن تک گئے اور کئی نشستوں میں اُن سے طویل گفتگو ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے ابتدائی اور پھر اپنے فلمی دنیا کے ماضی اور حال کے کئی دلچسپ پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

فیاض ہاشمی نے اپنی پہلی پاکستانی فلم “دوپٹہ” سے لے کر اب تک کی آخری فلم “دیوانے تیرے پیار کے” تک کُل 120 فلموں میں تقریباً 478 گانے لکھے جس میں بیشتر مشہور ہوئے۔


اپنی ابتدائی شاعری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا تو اپنی پہلی غزل کہی جس کا شعر یہ تھا:

چمن میں غنچہ و گل کا تبسیم دیکھنے والو
کبھی تم نے حسیں کلیوں کا مرجھانا بھی دیکھا ہے

یہ شعر اِس قدر مقبول ہوا کہ اُس زمانے میں بچوں کی کاپیوں پر طبع ہونے لگا۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے والد سید محمد حسین ہاشمی، آغا حشر کاشمیری کے شاگرد تھے جو کہ آٹھ زبانیں لکھ اور بول سکتے تھے۔ جب اُن کے شعور نے آنکھ کھولی تو انہیں اپنے والد کے پاس ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی محفلیں نظر آئیں۔ علم و ادب کی ان محفلوں نے فیاض ہاشمی کے اندر چھُپے ہوئے فنکار کو اُبھارا۔ اِسی دوران اُس زمانے کے گلوکار فدا حُسین نے میری یہ غزل ایک مشاعرے میں سُنی اور خود گانے کے لئے مجھ سے لے لی۔ یہ میرے لیے بہت خوشی کی بات تھی کہ ایک بہت مشہور گلوکار میری یہ غزل گانا چاہ رہا ہے۔ یہ غزل پورے ہندوستان میں ہِٹ ہو گئی۔


ہمارے ایک سوال کے جواب میں کہ آپ کا ہِٹ گانا انڈیا میں طلعت محمود کی آواز میں ریکارڈ ہوا جس کے بول تھے “تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی۔” اس گانے کا پس منظر بتائیں؟ فیاض ہاشمی نے کہا کہ معروف گلوکار طلعت محمود کانپور سے گانے کے شوق میں ان کے پاس آئے۔ میرے ساتھ کمل داس گپتا بھی تھے، اُنہوں نے طلعت محمود کا ٹیسٹ لیا۔ کامیابی کی صورت میں اُنہوں نے تین ماہ تک طلعت محمود کو ریاض کروایا۔

اُس زمانے کی ساری شاعری میں اگر دیکھیں تو شاعر زیادہ تر اپنے محبوب سے تصویر کا مطالبہ کرتے تھے۔ گیت، غزل سب میں یہی ہوتا تھا کہ “تصویر مجھے دو” میں تمہاری تصویر کو پیار کروں گا، تمہاری تصویر کو کلیجے سے لگاؤں گا۔ مجھ میں قدرت نے ایک عجیب سی اُچھال دی تھی جو زمانہ کہہ ہے اُس سے ہٹ کر کچھ سوچوں، تو یہ خیال ہوا کہ تصویر سے کچھ بات ہی نہیں بنتی، محبوب ہے تو بات بنتی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے لکھا:

تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی
یہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی

میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی
سینے سے لگا لوں گا تو یہ کچھ نہ کہے گی
آرام وہ کیا دے گی جو تڑپا نہ سکے گی

مجھ سے کمل داس گپتا نے کہا کہ یہ گانا سُپرہِٹ ہے، تم طلعت محمود کو دے دو۔ طلعت محمود کو میں نے یہ غزل دی اور کمل داس گپتا نے اُس وقت کے لحاظ سے بہترین طرز بنائی جو آج تک جوان ہے۔ یہ گانا طلعت محمود کو بھی پورے ہندوستان میں بیحد مقبول کر گیا اور مجھے بھی ہمہ گیر شہرت ملی۔



سوال: اپنے عہد کے کن کن شاعروں سے متاثر ہوئے؟

جواب: متاثر انسان کئی طریقوں سے ہوتا ہے اور اس رنگ کو اپناتا ہے۔

مثلاً میں علامہ اقبال کی اعلیٰ شاعری سے متاثر ہوں۔ میں نے مزاح میں اکبر الٰہ آبادی کو پڑھا ہے تو میرے اندر کی ذات مجھے اُن سے متاثر کرتی ہے۔ اِس طرح اگر میں نے حافظ شیرازی کو پڑھا، رُومی کو پڑھا ہے۔ مجھے مطالعے کا شوق ہمیشہ رہا اور میں سمجھتا ہوں کہ مطالعے کے بغیر انسان مکمل نہیں ہو سکتا۔ میں نے ہندی اور سنسکرت کی بہترین شاعری پڑھی ہے اور اُن میں شعر بھی کہے ہیں۔


سوال: آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے پاکستان میں پہلا فلمی گانا فلم “کنواری بیوہ” کے لیے لکھا تھا لیکن ہماری ریسرچ کے مطابق آپ نے پہلا فلمی گانا فلم “دوپٹہ” میں لکھا؟

جواب: آپ نے یہ بات اچھی کہی ہے کہ فلم “دوپٹہ” میں ہی پہلی بار میں نے ایک گانا لکھا تھا جس کے بول تھے:

مصیبت ہے، بلا ہے اور میں ہوں
محبت کی سزا ہے اور میں ہوں

یہ گانا میں بھی بھولا ہوا تھا۔ یہ میرا ہی رنگ ہے۔ اس کے بارے میں مختصر عرض کروں کہ نغمہ نگار مشیر کاظمی رات دن اسٹوڈیو میں رہتے تھے۔ ہدایتکار فضلی کی یہ فلم تھی۔

میں اُس زمانے میں پاکستان میں گراموفون کمپنی کا پورے ویسٹ اور ایسٹ پاکستان جو اُس وقت ہمارے ملک کے ساتھ تھا، جنرل مینجر تھا۔ یہ اُس زمانے کی بہت بڑی پوسٹ ہوتی تھی۔ میری عمر کم تھی اور مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں بڑی پوسٹ پر فائز ہوں۔ نغمہ نگاری مَیں بالکل ختم کر چکا تھا۔

فضلی صاحب کو میری شاعری کا انڈیا سے معلوم تھا۔ اُنہوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں اُن کی فلم کے لیے ایک گانا ضرور لکھوں۔ اُن کی سچویشن پر میں نے یہ نغمہ لکھا لیکن یہ گانا کسی مجبوری کی وجہ سے فلم میں شامل نہ ہو سکا۔

میری چار پانچ سال سروس رہی اور اس میں بہت سے کام کئے۔ بہت بڑے بڑے آرٹسٹ میں نے گراموفون کمپنی کے ذریعے متعارف کروائے۔ سائیں اختر کو ریکارڈنگ کی دنیا میں لایا۔

پاکستانی گلوکاروں کو گانوں کی رائلٹی نہیں ملتی تھی جبکہ میں ہندوستان میں کافی رائلٹی لیتا تھا۔ جب میں نے یہ سمجھا کہ یہ ظلم ہو رہا ہے تو اُن کی خاطر میں نے اپنے ہیڈ آفس سے جھگڑا مول لے لیا۔ ایک گورے نے بہت سمجھایا کہ میں ایسا نہ کروں لیکن میں نے یہ سروس چھوڑ دی۔

الگ ہونے کے بعد – میں ہومیوپیتھی کا ڈاکٹر بھی تھا اس لیے – ہومیوہیتھی کالج میں پروفیسر ہو گیا۔ چار پانچ سال لیکچرار رہا اور بعد میں وہاں کا وائس پرنسپل ہو گیا۔

اُسی زمانے میں ہدایتکار نجم نقوی بھارت سے آئے تھے، وہ میرے نام سے واقف تھے۔ انہوں نے مجھے فلم “کنواری بیوہ” کے گانوں میں شامل کر لیا۔ فلم کے گانے مقبول نہ ہو سکے۔

پھر ہدایتکار ایس ایم یوسف بھی بھارت سے آ گئے اور اپنی پہلی فلم “سہیلی” شروع کی۔ وہ موسیقار اے حمید کے ساتھ میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کہا کہ فیاض بھائی، ایک ایک ہی ہوتا ہے لیکن دُوسرا ایک اُس میں مِل جائے تو گیارہ ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ اِتنے بڑے ہدایتکار ہمارے پاس آئے ہیں۔ یہ لوگ مجھے کراچی سے لاہور لے گئے۔ فلم “سہیلی” کے گانے سپرہٹ ہو گئے۔ اس کے بعد فلم “اولاد” کی کہانی، اسکرین پلے، مکالمے اور گانے سب میں نے لکھے۔ یہ فلم بھی سپرہٹ ہو گئی۔ میری ایس ایم یوسف کے ہمراہ کئی فلمیں آئیں اور کامیاب رہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت سے بہت نوازا۔ شہرت پر شہرت، کامیابی پر کامیابی ملتی چلی گئی۔



سوال: کراچی میں کون کون سی فلموں میں گیت لکھے، چند مقبول گیت بتائیں؟

جواب: میں نے “انوکھی”، “بیداری”، “واہ رے زمانے”، “فیصلہ”، “سویرا”، “اپنا پرایا”، “دو اُستاد”، “انصاف”، “انسان بدلتا ہے”، “رات کے راہی”، “بنجارن” وغیرہ میں ابتدأ میں گیت لکھے۔ فلم “سویرا” کا مقبول گیت:

تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے

ایس بی جون نے گایا جس کی موسیقی ماسٹر منظور نے دی تھی۔



پھر جب لاہور گیا تو “سہیلی” کے گیت “ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھُولے”، “کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا” اور “ہم نے جو پھُول چُنے دل میں چُبھے جاتے ہیں” بہت مقبول ہوئے اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں میری مانگ بڑھ گئی۔



یوسف صاحب کے ساتھ مزید فلمیں “آشیانہ”، “سہاگن”، “عید مبارک”، “سرتاج”، “دل کے ٹکڑے”، “شریکِ حیات” اور “زمانہ کیا کہے گا”، وغیرہ کے گیت لکھے جو بیحد مقبول ہوئے اور آج بھی سُنے جاتے ہیں۔



سوال: نغمہ نگاری کرتے کرتے آپ فلم کی ہدایتکاری کی طرف کیسے گئے؟

جواب: فلم “ہم ایک ہیں” بنا کر ایک نیا تجربہ کیا تھا۔ فلم کے پروڈیوسر رزاق بہت مشہور بزنس مین اور اُن کی بیٹی جمیلہ رزاق مشہور اداکارہ تھیں جو اس فلم کی ہیروئین تھیں۔ میں اس زمانے میں کہانی، اسکرین پلے، مکالمہ نگاری اور نغمہ نگاری میں بیحد مصروف تھا۔ رزاق صاحب کو یہ معلوم تھا کہ میں بھارت میں ہدایتکاروں کے ہمراہ کام بھی کر چکا ہوں۔ اُنہوں نے مجھ پر زور دیا کہ میں فلم کی ہدایتکاری کروں۔

جب فلم بن رہی تھی تو اُس کی شہرت بھی ہو گئی اور مخالفت بھی بہت ہونے لگی۔ پریس نے اِس بات کو بہت اچھالا کہ میں سرمایہ داروں کے خلاف فلم بنا رہا ہوں۔

اس وقت ایک فیسٹول ہوتا تھا جہاں ساری دنیا کی فلمیں آتی تھیں اور اُن کو ایوارڈز ملتے تھے۔ میری یہ فلم جو ابھی مکمل ہونے کے قریب تھی، فیسٹول کے ججوں نے یہ فلم دیکھی اور منتخب ہو گئی۔ اُس وقت اس کے ساتھ بھارت سے راج کپور کی فلم “بوٹ پالش” منتخب ہوئی تھی۔

یہ بات مشہور ہو گئی کہ میری فلم میں کمیونزم بہت ہے جبکہ میں خود اُس کا مخالف تھا اور اس فلم میں قرآن کی تعلیمات تھیں، اور ان تعلیمات کو ہی بیس بنا کر میں نے یہ فلم بنائی۔ لیکن یہ ساری باتیں جدید انداز سے تھیں۔ وہ ظلم جو دولت، غربت پر ہر دَور میں کرتی ہے اور اسلام جس کے خلاف ہے، اس میں وہ سب مسائل تھے۔

اس وقت کے بڑے بڑے سیٹھوں نے پیسہ خرچ کر کے اس فلم کو باقاعدہ ناکام کروایا۔ شاید یہ میرے لیے بہت اچھا ہو گیا۔ اگر میں اُس وقت ہدایتکار کامیاب ہو جاتا تو پھر ہدایتکار ہی رہتا، ایک نغمہ نگار نہ بن پاتا۔

سوال: فلم “بیداری” کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ فلم بھارتی فلم “جاگرتی” کا چربہ تھی اور اس کے گانے بھی چربہ تھے۔ اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: یہ بات ضرور ہے کہ فلم “بیداری” چربہ فلم تھی اور لوگ اسی چربہ سازی میں میرا نام بھی شام کرتے ہیں۔ اس فلم کی کہانی چربہ ہے، کردار سارے چربہ ہیں، مکالمے چربہ ہیں لیکن نغمے چربہ نہیں۔ طرز چربہ ہے، اس کی وجہ سے دھوکا ہوتا ہے۔ اُس وقت وہ ایک بڑے میوزک ڈائرکٹر جو بیروزگار تھے، وہ مجبور ہو گئے اور اس فلم کی موسیقی اُنہوں نے دی۔ فلم کے گانے قومی نغمات میں شامل ہیں:

یوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران
اے قائداعظم تیرا احسان ہے، احسان

یہ بھلا بھارتی گانے کا چربہ کیسے ہو سکتا ہے! اس نغمے کا قومی نغموں میں بڑا درجہ ہے۔



سوال: آپ نے پنجابی فلموں کے لیے نغمہ نگاری کیوں نہیں کی جبکہ آپ کے دَور کے تمام شاعر اُردو کے ساتھ پنجابی شاعری بھی کر رہے تھے؟

جواب: ایک محاورہ ہے کہ جس کا دُودھ زیادہ بکتا ہے وہ دہی نہیں جماتا۔ مجھے فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ پنجابی شاعری کی طرف آؤں۔ میں نے ایک پنجابی زبان میں ماہیا لکھا جو بہت مشہور ہوا:

جے میں ہوندی سویا دا جوڑا

(اگر میں شادی کا جوڑا ہوتی تو ساری عمر تجھ سے لپٹی رہتی)

سوال: آپ کی فلمی شاعری میں نعتوں اور قوالیوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے۔ اس بارے میں بتائیں۔

جواب: فلم “توبہ” کی جو قوالی ہٹ ہوئی وہ میری تھی:

نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے!



اس کے علاوہ فلم “اولاد” کی نعت:

حق لااِلہ الااللہ فرما دیا کملی والے نے



بیحد مقبول ہوئی تھی۔ ایس ایم یوسف اور نذیر اجمیری کے ساتھ میں جو کام کیا اُس میں نعتیں بہت مقبول ہوئیں۔

سوال: فلمی شاعری میں مزاحیہ شاعری کا کتنا حصہ ہے؟

جواب: میرے لیے جتنی المیہ شاعری لکھنا آسان تھا، اُتنا ہی طربیہ شاعری آسان رہی۔ جب فلمساز و ہدایتکار نے سچویشن کے مطابق کوئی نغمہ دیا تو وہ سپرہٹ ہو گیا۔ فلم “انوکھی” کا مزاحیہ گانا،

ماری لیلیٰ نے ایسی کٹار مجنوں کو آیا بخار

بہت ہٹ ہوا۔

سوال: اسکرین پلے اور مکالموں میں کامیابیوں کے باوجود آپ نے بہت کم اسکرپٹ تحریر کیے؟

جواب: سچی بات تو یہ ہے کہ فلم کا اسکرپٹ لکھنے میں مجھے بہت وقت لگتا تھا۔ اگر میں نے ایک اسکرپٹ لکھا اُس زمانے میں کم سے کم 80 سین یا زیادہ سے زیادہ 95 سین ہوتے تھے۔ مجھے ایک اسکرپٹ لکھنے میں تین سے چار ماہ لگ جایا کرتے تھے اور پیسے بھی زیادہ نہیں ملتے تھے۔ اس لیے میں نے یہ سوچا کہ نغمے تو اِتنے دنوں میں بہت لکھ لیا کرتا ہوں پھر اسکرپٹ لکھنے میں نقصان ہے۔

سوال: موجودہ فلمی شاعری کے حوالے سے بتائیں۔

جواب: اب فلموں میں شاعری کی حیثیت واجبی سی رہ گئی ہے۔ جب سے فلموں کی کہانیوں میں تشدد آ گیا ہے، موسیقی بھی زوال کا شکار ہو گئی ہے۔ اب صرف بھرتی کے لیے ہی گانے لکھے جا رہے ہیں۔

میں اب بھی شاعری کر سکتا ہوں۔ پچھلے دنوں چند لوگوں نے یہ خبر اُڑا دی تھی کہ میں نے دنیاوی زندگی کو ترک کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ میں اب بھی شاعری کر رہا ہوں بس محفلوں میں شریک نہیں ہوتا ہوں۔ مجھے جب بھی فلم انڈسٹری نے کام کے لیے بلایا میں ضرور جاؤں گا اور مجھے اچھا کام کر کے خوشی محسوس ہو گی۔


فیاض ہاشمی سے بات چیت کے دوران ان کی اہلیہ انیلا ہاشمی بھی موجود رہیں جو خود ایک اچھی شاعرہ ہیں۔ ان کے بارے میں فیاض ہاشمی کا کہنا ہے کہ یہ میری تیسری بیوی بڑی خدمت گزار اور فرمانبردار ہیں اور میرا بڑا خیال رکھتی ہیں۔ جبکہ انیلا ہاشمی کا فیاض صاحب کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ میں ان کی شاعری سے بیحد متاثر تھی لیکن میرا ان سے جو سامنا ہوا وہ دین کے راستے سے ہوا۔ جو دنیا میں متاثر کرنے والی چیز ہے وہ سچائی اور خدا کا راستہ ہے اور یہی بات مجھے ان میں نظر آئی۔ یہ ایک نامور شاعر بھی ہیں اور فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ لیکن اب یہ دین کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان سے بیحد متاثر ہوئی اور میرے گھر والوں نے شادی کی اجازت دے دی، اور جب انسان پسند ہو تو اُس کا ہر انداز اچھا لگتا ہے۔