سیمرغ: علامہ اقبال کے لیکچرز کا تعارف


پچھلے ایک ہفتے میں جو واقعات ہیش آئے ہیں، مجھے یقین ہے کہ اُن کے بارے میں ہم سب کے تاثرات ایک جیسے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کہنا درست ہو گا کہ اس وقت ہم سب پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آج کی قسط سے یہ بھی واضح ہو سکے کہ یہ سب کچھ غیرمتوقع نہیں ہے۔

ویسے آج کی قسط کا اصل مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ علامہ اقبال کے “فلسفے” کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ میرے نزدیک یہ اہم ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان اقبال کا خواب ہے۔ بلکہ قائداعظم کے مطابق تو ’’وہ عہدِ جدید میں اسلام کے سب سے بڑے شارح تھے‘‘، جیسا کہ پچھلی قسط میں ہم نے دیکھا۔ اس لیے اگر ہم یہ کہیں کہ صرف کچھ ہی لوگ اقبال کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو مطلب یہ ہو گا کہ باقی لوگ قومی معاملات میں رائے دینے کے اہل نہیں۔ علم اور عقل پر غرور کرنے کی یہ قابلِ مذمت عادت میرے خیال میں ہمارے اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ہمارے لیے سامری کا  وہ سنہری بچھڑا ثابت ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم مرغدین میں رہتے ہوئے بھی ایسی مشکلات میں مبتلا ہیں جو مرغدین میں نہیں ہونی چاہئیں:

علم کی حد سے پرے بندۂ مومن کے لیے
لذّتِ شوق بھی ہے نعمتِ دیدار بھی ہے!

علامہ اقبال کے ’’فلسفے‘‘ کی سب سے اہم کتاب وہ سمجھی جاتی ہے جس کا نام The Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے، یعنی اسلامی مذہبی فکر کی نئی تشکیل۔ اسے ’’خطباتِ اقبال‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سات لیکچروں پر مبنی ہے (لیکچر کو اُس زمانے میں خطبہ کہا جاتا تھا)۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن 1930 اور دوسرا 1934 میں شائع ہوا۔ اس میں شامل لیکچرز مختلف مواقع پر پیش کیے گئے تھے، جن میں سے اپریل 1928 کے ایک جلسے کا حوالہ پچھلی قسط میں بھی تھا (اور مکمل تفصیلات ’’اقبال کی منزل‘‘ میں پہلی بار پیش کی جا رہی ہیں)۔


ان میں سے اکثر لیکچرز مدراس کی مسلم ایسوسی ایشن کے کہنے پر لکھے گئے۔ چنانچہ پہلا لیکچر اپنی مکمل صورت میں 5 جنوری 1929 کی شام کو مدراس کے گوکھلے ہال میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُس تقریب کی صدارت صوبے کے چیف منسٹر ڈاکٹر پی سبرائن نے کی اور صدارتی کلمات میں کہا:

’’میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ یہ ہندوؤں کا فرض ہے کہ مسلم اقلیت کو اطمینان دلائیں کہ وہ اس سرزمین میں بھائیوں کی طرح زندگیاں بسر کریں گے…میرے لیے باعثِ عزت ہے کہ میں اگرچہ ہندُو ہوں لیکن اسلامی فلسفہ پر لیکچر کی صدارت کے لیے منتخب کیا گیا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ اِس صوبے کے مسلمانوں کا زاویۂ نگاہ صحیح ہے۔ اسلام نے مشرق کو بلکہ ساری دنیا کو اخوت کا سبق دیا ہے۔ ہم ہندو ذات پات اور قومی امتیازات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں ابھی اسلامی تہذیب اور اسلامی کلچر سے اخوت کا سبق سیکھنا ہے۔ میں یہاں غیربرہمن کی حیثیت میں تقریر نہیں کر رہا اور نہ اس نقطۂ خیال سے ذات پات کے خلاف کہہ رہا ہوں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو یکجا کرنے اور تمام ہندوستانی اقوام میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ہمیں اسلامی اخوت کو دلیلِ راہ بنانا ہے۔‘‘

اِن الفاظ سے واضح ہے کہ علامہ اقبال نے یہ خطبات اصل میں جن لوگوں کے سامنے پیش کیے وہ اپنے معاشرے کے ارتقأ کے عمل کو سمجھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ آج کی قسط میں ہم بھی یہی کریں گے۔

پچھلی چار قسطوں میں ہم نے اپنی تاریخ کے جو پہلو دیکھے ہیں اُن میں کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جو ہمیں بہت عجیب و غریب محسوس ہو سکتی ہیں، خاص طور پر یہ بات کہ علامہ اقبال اور قائداعظم نے اپنے نظریات قوم کو پیش نہیں کیے بلکہ قوم کے نظریات قبول کیے، اور یہ امکان کہ مرغدین محض ایک خیالی دنیا نہیں ہے۔ آج ہم ان باتوں کو اِس کتاب کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

مذہبی تجربہ


کتاب کے دیباچے میں علامہ اقبال نے لکھا ہے:

“اس میں شبہ نہیں کہ تصوّف کے زیادہ صحیح مکاتب نے اسلام میں مذہبی تجربے کے ارتقأ کو تشکیل دینے اور سمت فراہم کرنے میں ڈھنگ کا کام کیا ہے۔ لیکن بعد میں آنے والے ان کے نمایندے بالکل اس قابل نہیں رہے کہ نئی سوچ اور تجربے سے کوئی تازہ الہام حاصل کر سکیں۔ اس کی وجہ جدید ذہن سے ان کی بیخبری ہے۔ وہ ایسے طریقوں کو فروغ دئیے جا رہے ہیں جو  ہم سے پہلے کی نسلوں کے لیے بنائے گئے تھے جن کا ثقافتی نقطۂ نگاہ بعض اہم معاملات میں ہم سے مختلف تھا۔ ’’تمہارا پیدا کیا جانا اور دوبارہ اُٹھایا جانا،‘‘ قرآن ہمیں بتاتا ہے، ’’ایک نفسِ واحد کے پیدا کیے جانے اور دوبارہ اٹھائے جانے کی طرح ہے۔‘‘ اِس آیت میں جس قسم کی بیالوجیکل وحدت پیش کی جا رہی ہے، جیتے جاگتے میں اُس کا تجربہ کرنے کے لیے آج ایک ایسے طریقے کی ضرورت ہے جو جسمانی اعتبار سے کم شدّت رکھتا ہو اور نفسیاتی اعتبار سے ایک ٹھوس ذہن کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہو۔”

 میں نے اس اقتباس کا ترجمہ کرتے ہوئے چھ نکات کے نیچے لکیر کھینچی ہے۔ ان میں سے’’مذہبی تجربہ‘‘ اور ’’بیالوجیکل وحدت‘‘ ایک ہی چیز کے دو نام ثابت ہوتے ہیں کیونکہ  اقبال  ’’مذہبی تجربہ‘‘ اس بات کو کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یہ تجربہ ہو جائے کہ تمام انسانوں کا  پیدا  ہونا اور مر کر دوبارہ جی اُٹھنا ایک انسان کے مرنے اور جینے کی طرح ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے عطار نے سیمرغ کی کہانی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے (خلاصہ قسط 2 میں پیش کیا جا چکا ہے)۔ اقبال نے اس کے لیے ’’بیالوجیکل‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اُن کے مطابق اسے سائنٹفک طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔

ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال کے مطابق ’’جدید ذہن‘‘ بھی ’’جیتے جاگتے میں اُس کا تجربہ‘‘ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ وہ پرانے طریقے ترک کر  دئیے جائیں جنہیں تصوّف کے نام لیوا  آج بھی ’’فروغ دئیے جا رہے ہیں۔‘‘ آج ایک نئے ’’طریقے کی ضرورت ہے۔‘‘

اُس نئے طریقے کے لیے علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کا وہ اقتباس دوبارہ ملاحظہ کیجیے جو قسط 2 میں بھی ہماری نطر سے گزرا تھا۔ آج میں نے اس کے بعض الفاظ کے نیچے بھی لکیر کھینچی ہے (یہ وہ الفاظ ہیں جن سے میرے خیال مذہبی تجربہ حاصل کرنے کے نئے طریقے پر روشنی پڑتی ہے):

’’قرآن مجید کی ایک نہایت معنی خیز آیت یہ ہے کہ پوری انسانیت کی موت و حیات بھی فردِ واحد کی موت و حیات کی طرح ہے۔ آپ جو بجا طور پر دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ ایک قوم کے طور پر انسانیت کے اِس بہترین تصوّر کی پہلی عملی مثال ہیں، کیوں نہیں آپ سب کا جینا اور حرکت کرنا، اور آپ کا پورا وجود ایک فردِ واحدکی طرح ہو سکتا؟‘‘

’’اِس بہترین تصوّر کی پہلی  عملی مثال‘‘ سے مراد وہ معاشرہ ہے جسے آنحضورؐ نے مدینہ میں مواخات کے ذریعے قائم کیا تھا  اور جس  کی ظاہری صورت خلفائے راشدین کے عہدِ حکومت تک برقرار رہی۔ اُس عہد میں جینا ہر لمحے اُس بیالوجیکل وحدت کا تجربہ کرنا تھا:

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

پھر  بادشاہوں کا زمانہ آیا۔ علامہ اقبال اسے پوری طرح مسترد نہیں کرتے لیکن بہرحال ریاست کی ظاہری صورت تبدیل ہو گئی اور یہی وجہ تھی کہ اس بیالوجیکل وحدت کا تجربہ کرنے کے لیےکچھ خاص طریقوں کی ضرورت پڑی جنہیں صحیح قسم کے صوفیوں نے فراہم کیا۔

1906 سے اسلامی تاریخ میں ایک تیسرے دَور کا آغاز ہوتا ہے۔ مسلم ممالک میں بادشاہتیں کسی نہ کسی وجہ سے ختم ہو گئیں اور اُن کی جگہ ایک ایسی جمہوریت بیدار ہونے لگی جسے علامہ اقبال نے کئی موقعوں پر سچی اسلامی جمہوریت کہا (یہ آج کی جمہوریت سے مختلف تھی، جس کی وضاحت میں کسی آیندہ قسط میں کروں گا)۔ اِس دَور کے آغاز پر  ہی انہوں نے اپنی ایک بیحد مشہور نظم، ’’مارچ 1907‘‘ کے ذریعے اعلان  کر دیا تھا کہ انسان کی وحدت کا وہ تجربہ جو حقیقت میں مذہبی تجربہ ہے، اور جو گزشتہ صدیوں میں صوفیائے کرام اپنی خانقاہوں کی محدود فضا میں دیا کرتے تھے، اب معاشرے میں پھر  عام ہو جائے گا جیسے اسلام کے ابتدائی زمانے میں تھا:

گزر گیا اب وہ دَور ساقی کہ چھُپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان میخانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
کبھی جو آوارۂ جُنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا
سُنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

مجھے اُمید ہے کہ اس کے بعد یہ کہنا کچھ زیادہ عجیب نہیں لگے گا کہ پاکستان ایک ریاست ہی نہیں بلکہ وہ نیا طریقہ بھی ہے جس کی طرف خطبات کے دیباچے میں اشارہ کیا گیا  تھا (میں بنگلہ دیش اور  موجودہ ہندوستان کو بھی اس زمرے سے خارج نہیں کرتا  لیکن اُس کی وضاحت کسی اور موقع پر کرنا بہتر ہو گی)۔ کیونکہ اگر خطبۂ الٰہ آباد کو خطباتِ اقبال کی روشنی میں پڑھا جائے تو سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ موجودہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے کہ جہاں ایک عام شہری کی طرح زندگی گزارنا بھی ہر لمحے اُس بیالوجیکل وحدت کا تجربہ کرنا ہے جس کی بات ہم پہلے کر چکے ہیں۔

1946 کے بعد کے واقعات ’’اقبال کی منزل‘‘ سے باہر ہیں اس لیے میں اُن کی تفصیلات میں نہیں جا سکتا۔ صرف ایک اشارے کے طور پر دورِ حاضر کے ایک صوفی، واصف علی واصف کے یہ الفاظ پیش کر سکتا ہوں:

“جس طرح ہمارے ہاں طریقت کے سلاسل ہیں، چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی وغیرہ اور ہر سلسلہ کا کوئی بانی ہے، اُسی طرح قائداعظم سے ایک نئی طریقت کا آغاز ہوتا ہے اور وہ طریقت ہے ’پاکستانی‘۔ اِس میں تمام سلاسل اور تمام فرقے شامل ہیں۔”

جیسا کہ میں نے اپنی بعض دوسری تحریروں میں تفصیل کے ساتھ دکھانے کی کوشش کی ہے، اِس ’’بیالوجیکل وحدت‘‘ کا تجربہ اُن تمام  پاکستانی فنکاروں کے تخلیقی وجدان میں مسلسل ظاہر ہوا ہے جنہوں نے قائداعظم کے اُس مقام کو تسلیم کیا جس کی طرف واصف  کے اِس قول میں اشارہ کیا جا رہا ہے، جن  میں سے دو بڑے نام ابن صفی اور وحید مراد ہیں۔

ایک خیال کی سرگزشت



خطباتِ اقبال ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کسی کو پاکستان میں رہتے ہوئے یہ تجربہ حاصل نہیں ہو رہا ہے تو ہماری سمجھ میں کیا خرابی ہے اور ہم اُسے کیسے دُور کر سکتے ہیں۔

تیسرے خطبے میں علامہ اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک خیال کئی جنریشنز کے ذریعے آہستہ آہستہ بھی ظاہر ہو سکتا ہے:

’’کبھی کبھی انسانی فکر کی تاریخ میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ  آپ کے شعور کی سطح پر ایک بہت بڑا خیال ظاہر ہوتا ہے جس میں عملی فوائد کی ایک دنیا چھپی ہوئی ہے۔ آپ اس پورے خیال کو جس میں بڑی پیچیدگیاں بھی ہیں، ایک دم محسوس کر لیتے ہیں۔ لیکن اس کے مختلف  پہلوؤں کو  ذہنی طور پر حل کرنے کے لیے طویل مدّت درکار ہے۔ اس کے تمام امکانات وجدانی طور پر آپ کے ذہن میں حاضر ہیں۔ ان میں سے کوئی مخصوص امکان اگر کسی خاص لمحے میں آپ کو معلوم نہیں ہے تو مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کے علم میں کوئی کمی ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اُس وقت تک وہ امکان پیدا ہی نہیں ہوا۔ وہ خیال تجربے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے اپنے اطلاق کے امکانات ظاہر کرتا چلا جاتا ہے، اور بعض اوقات ایک سے زیادہ جنریشنز کے مفکر کام کرتے ہیں تب کہیں جا کر تمام امکانات پورے ہوتے ہیں۔‘‘

میرے نزدیک ہماری ایک بہت بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کون سا واحد خیال سر سید کے زمانے سے آج تک جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں ’’تجربے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے‘‘ آہستہ آہستہ ظاہر ہو رہا ہے؟

1860 میں ہندوستان کے بعض حصوں میں ایک خوفناک قحط پڑا۔ سید احمد خاں (جنہیں اُس وقت تک سر کا خطاب نہیں ملا تھا) اُس وقت مراد آباد میں ملازم تھے۔ مولانا حالی نے اُن کی سوانح ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ ایک دردناک واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح قحط میں مرنے والے بیشمار مسلمانوں اور ہندوؤں کے یتیم بچے عیسائی پادریوں کے حوالے کر دئیے گئے کہ وہ اُنہیں عیسائی بنا کر اُن کی پرورش کریں۔ سر سید شدید مخالفت کرتے رہے لیکن علاقے کے بعض بڑے بڑے مسلمانوں اور ہندوؤں نے انگریزوں کے خوف سے پادریوں کی تائید کر دی اس لیے آخر میں سر سید کچھ بھی نہ کر سکے۔

حالی نے اُن کے کرب کی جو کیفیات بیان کی ہیں اُنہیں پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اُس دن ایک سر سید مر گیا اور دوسرا پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد حالی نے لکھا ہے:

 ’’سر سید کہتے تھے کہ اُس وقت میرا مصمم ارادہ ہو گیا تھا کہ جب کبھی موقع ملے تمام ہندو مسلمانوں سے چندہ کر کے صدرمقام میں ایک بہت بڑا یتیم خانہ قائم کیا جائے جہاں ہندوستان کے لاوارث بچوں کی پرورش ہو اور اُن کو تعلیم دی جائے۔ لیکن آخر کو یقین ہو گیا کہ جب تک ہندوستان میں تعلیم عام نہ ہو گی اِن خرابیوں کا کُلی انسداد کسی طرح نہیں ہو سکتا۔‘‘

یعنی جدید تعلیم اور علیگڑھ کالج وغیرہ بجائے خود کوئی مقصد نہیں تھے بلکہ اسی خیال کی تکمیل کے ذرائع تھے۔ مجھے اُمید ہے کہ مرغدین والی قسط کی روشنی میں یہ بات کسی حد تک واضح ہوتی ہے کہ کس طرح اس خیال نے علامہ اقبال کی فکر کے ذریعے مزید ترقی کی۔ ایک آیندہ قسط میں دکھاؤں گا کہ قائداعظم کی تمام تقاریر کا مرکزی خیال بھی یہی ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اوپر جن پاکستانی فنکاروں کا حوالہ دیا اُن کے شہکاروں کے ذریعے بھی یہ خیال نہ صرف مسلسل ظاہر ہوتا رہا ہے بلکہ ’’تجربے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے اپنے اطلاق کے امکانات ظاہر کرتا‘‘ ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔



اخوّت


ہمیں علامہ اقبال کے اِن الفاظ سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ’’آپ کے شعور کی سطح پر ایک بہت بڑا خیال ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ خیال اگر کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی ظاہر ہو تب بھی وہ “ایک بہت بڑا خیال” اُسی صورت میں ہوتا ہے جب اُس شخص کے دل نے وہ خیال پورے معاشرے کی اجتماعی سوچ سے لے کر اُس کے ذہن کو دیا ہو۔ اِس نکتے کی مکمل وضاحت اقبال نے اپنی فارسی تصنیف “اسرار و رموز” میں کی ہے لیکن اُن کا اُردو کا ایک مشہور شعر بھی حسبِ موقع ہے:

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے چھٹے خطبے کے یہ الفاظ ملاحظہ کیجیے (ایک دفعہ پھر میں نے اپنی طرف سے کچھ لفظوں کے نیچے لکیر کھینچی ہے):

’’یورپ کا آئیڈیلزم کبھی اُس کی زندگی کا ایک جاندار حصہ نہیں بنا … اس کے برعکس ایک مسلمان کے پاس یہ اساسی خیالات ایک وحی کی بدولت موجود ہیں جو زندگی کی باطنی گہرائیوں سے برآمد ہونے کی وجہ سے اپنے ظاہر کو بھی اپنے باطن میں سموئے ہوئے ہے۔ ایک مسلمان کے لیے زندگی کی روحانی اساس ایمان کا معاملہ ہے جس کے لیے ہم میں سے سب سے کم علم شخص بھی بڑی آسانی سے اپنی زندگی قربان کر سکتا ہے۔‘‘

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں ’’ہم میں سے سب سے کم علم شخص‘‘ کا ذکر ہے لیکن علامہ اقبال یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ شخص عقل اور سمجھ میں کسی سے پیچھے ہے یا اُس میں اہم ترین خیالات کو ترقی دینے کی صلاحیت کسی پڑھے لکھے انسان سے کم ہے (اقبال نے اور جگہوں پر واضح کیا ہے کہ اُن کے نزدیک انسان کی اصل فطرت ارادے میں مضمر ہے نہ کہ عقل یا سمجھ میں)۔

میں نے پہلی قسط میں لکھا تھا، ’’خیالات معاشرے میں اجتماعی طور پر پیدا ہوئے اور مفکر یا لیڈر نے صرف ان خیالات کو جمع کر کے ان کے درمیان وحدت دریافت کرنے کی کوشش کی۔ اقبال نے اس طریقے کی ایک علمی وضاحت بھی پیش کر رکھی ہے لیکن وہ وضاحت ہماری سمجھ میں کیسے آ سکتی ہے جب تک ہمیں کچھ مثالیں معلوم نہ ہوں؟‘‘ اُمید ہے کہ میں آج کی قسط میں وہ علمی وضاحت پیش کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہوں۔ اور اسے سمجھنے میں ہمیں اُن مثالوں سے مدد مل سکتی ہے جو گزشتہ اقساط میں پیش کی گئی ہیں، مثلاً 14 نکات قائداعظم نے قوم کو نہیں بلکہ قوم نے انہیں پیش کیے تھے، پاکستان کا تصوّر  علامہ اقبال نے قوم کے ذہن سے اخذ کیا تھا نیز جب قائداعظم سے پوچھا گیا کہ تصوّرِ پاکستان کا خالق کون ہے تو اُنہوں نے جواب دیا، ’’ہر مسلمان!‘‘ یا آل انڈیا مسلم کانفرنس کے  افتتاحی اجلاس میں آغا خاں کے خطبۂ صدارت کے یہ الفاظ:

’’دورِ جدید کی تاریخ کا اہم سبق، میرے نزدیک، یہ ہے کہ صرف وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں اور صرف وہی پالیسیاں قوموں کی عظمت کا باعث بنتی ہیں جو چند رہنماؤں یا مفکروں کے افکار و تصوّرات پر مبنی نہ ہوں، خواہ وہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں، بلکہ جو سب کے اتفاقِ رائے اور عوام  کی آرأ پر مبنی ہوں … وقت آ گیا ہے کہ ہمارے رہنما زمین سے کان لگا کر عوام کے خیالات اور خواہشات کا صحیح اندازہ لگایا کریں۔‘‘

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ 1860 میں جو خیال سر سید کے شعور کی سطح پر اُبھرا اور تب سے آج تک ہمارے معاشرے میں مسلسل ترقی کر رہا ہے، اُس کے بڑے بڑے نمایندے وہی لوگ ہیں جنہوں نے ’’زمین سے کان لگا کر عوام کے خیالات اور خواہشات کا صحیح اندازہ لگایا‘‘، چاہے علامہ اقبال اور قائداعظم ہوں یا ابن صفی اور وحید مراد ہوں۔

یہاں میں اس بات کا تذکرہ بھی کرنا چاہوں گا کہ یہ نظریہ خواہ کہیں سے بھی شروع ہوا ہو، بہرحال اُس زمانے میں دنیا کے بعض دوسرے معاشروں میں بھی پیش کیا جا رہا تھا۔ امریکی مصنفہ میری پارکر فولیٹ کی تصنیف ’’نئی ریاست‘‘ (1918) اِس موضوع پر سب سے زیادہ جامع کتاب ہے کہ کس طرح خیالات معاشرے میں اجتماعی طور پر جنم لیتے ہیں۔ یہ مصنفہ نہ صرف مینجمنٹ سائیس کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں بلکہ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان نے انہی کے افکار کی روشنی میں اپنا بزنس ماڈل تیار کیا جو جاپان کی موجودہ ترقی کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ 1922 میں بنگال کے عظیم ہندو رہنما چت رنجن داس (سی آر داس) نے کانگرس کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطبے میں فولیٹ کی کتاب  کے کئی اقتباسات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی باتیں ہیں جو وہ خود بھی 1907 سے کہہ رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے وہ خطبۂ صدارت پڑھنے کے بعد لکھا کہ انہوں نے خودی کا جو روحانی اصول پیش کیا تھا، داس  کے خطبے میں اُس کا سیاسی رُوپ دیکھا جا سکتا ہے (داس 1925 میں انتقال فرما گئے اور کم سے کم اقبال اور محمد علی جوہر کا خیال یہی تھا کہ اگر وہ زندہ رہتے تو  کبھی ہندو قیادت کے اُس طرزِ عمل کا ساتھ نہ دیتے جو بعد میں سامنے آنے لگا)۔

اشرافی انقلابیت


علامہ اقبال کے مطابق اس نظریے کی مخالفت میں ایک اور نظریہ بھی موجود ہے۔ آخری خطبے میں انہوں نے لکھا:

’’نیٹشے ناکام رہا … ایک روحانی حکومت کی خواہش کرنے کے بجائے جو ایک ادنیٰ ترین فرد میں بھی خدائی صفات پیدا کر دے اور اس طرح اُس کے سامنے ابدیت کا دروازہ کھول دے، نیٹشے اپنے تصوّر کو حقیقت بنانے کے لیے اشرافی انقلابیت (aristocratic radicalism) جیسے منصوبے تشکیل دینے لگا۔ ‘‘

اشرافی انقلابیت ایک خاص نظریے کا نام ہے جو جرمن مفکر فریڈرک نیٹشے سے منسوب ہے۔ میرے لحاظ سے اس کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ نئے اور بلند خیالات کچھ لوگ تخلیق کرتے ہیں اور پھر وہ خیالات عوام تک پہنچتے ہیں۔ غالباً آج ہم سبھی ایسا سمجھنے لگے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں علامہ اقبال 1934 میں جس رجحان کی مخالفت کر رہے تھے، جلد ہی وہ اِس قدر عام ہو گیا کہ ہم اقبال کو بھی اُسی کی روشنی میں دیکھنے لگے! (میرے لحاظ سے یہ رجحان ساری دنیا میں  1923سے 1953کے درمیان بتدریج غالب آیا ہے)۔

اگر میں یہ کہوں کہ ہم یکایک اقبال، قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے بنیادی نکات کو سمجھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو گئے اور تب سے ان پر جو کچھ بھی لکھا گیا اُس میں مشکل ہی سے کہیں کوئی کام کی چیز ہو، تو شاید میری بات غیرحقیقت پسندانہ لگے۔ لیکن میں نے گزشتہ قسطوں میں جو شواہد پیش کیے ہیں کیا اُن کے بعد کیا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ شاید ہم ایک غیرحقیقی دنیا میں ہی جی رہے ہیں؟ قائداعظم کے سب سے بڑے سوانح نگار اسٹینلے والپورٹ کو قائداعظم کی زندگی کے بعض اہم ترین سیاسی واقعات کی خبر نہیں، علامہ اقبال کے جلیل القدر صاحبزاے کی معلومات خطبۂ الٰہ آباد کے بارے میں غلط نکلتی ہیں اور چوہدری رحمت علی پچھلے ساٹھ سال سے ہمارے قومی ہیرو بنے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور جن کے بارے میں قائداعظم نے بھی صاف صاف کہا تھا کہ اُن کا تحریکِ پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے!

ظاہر ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی بہت ہی بڑی غلطی بہت بڑے پیمانے پر ضرور ہوئی ہے۔ میرے لحاظ سے وہ یہی ہے کہ  تعلیم یافتہ لوگ ’’اشرافی انقلابیت‘‘ پر ایمان لے آئے، بالکل اُسی طرح جیسے بنی اسرائیل غلامی سے نکلتے ہی سامری کے بچھڑے کے چکر میں پڑ گئے تھے:

تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سِحرِ قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم
عقل عیّار ہے، سَو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا ہے نہ زاہد نہ حکیم!

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح 1860 میں ایک خیال سر سید کے شعور کی سطح پر اُبھرا کہ معاشرے کے ہر یتیم اور بے سہارا شخص کا دُکھ دُور کر دیا جائے، ویسے ہی اُس کا مخالف خیال بھی کچھ دوسرے ذہنوں میں پیدا ہوا تھا جس کے بارے میں آگے چل کر پہلی گول میز کانفرنس کے موقع پر مولانا محمد علی جوہر نے کہا:

’’سارا سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہم ہندوستان میں اکثریت کی حکومت متعارف کروانے کا ارادہ کر رہے ہیں، اور وہ طبقہ جو ہزاروں سال سے ہندوؤں کی تقدیرکا مالک بنا بیٹھا ہے نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ایسی اکثریت وجود میں آئے، خواہ ہندو یا ہندوستانی، جسے وہ بالکل  اُسی طرح کنٹرول نہ کر سکے جس طرح اُس نے ہندوؤں کو ہزاروں سال تک کنٹرول کیا ہے۔ لیکن اب ایک فرق بھی آ گیا ہے۔ وہ اونچی ذات جو آج ہندوستان کی تقدیر کی مالک بنی رہنا چاہتی ہے [وہ پہلے کی طرح برہمن نہیں ہے بلکہ] آج وہ بنیا ہے۔‘‘

جنوبی ایشیا میں ذات پات کا ایک نیا نظام قائم کرنا جس میں برہمن کی جگہ بنیے سب سے اوپر ہوں اور عوام کی بہت بڑی اکثریت شودرہو، اور ذات پات کے اِس نظام پر جمہوریت کا لیبل لگانا، یہ’’اشرافی انقلابیت‘‘ کی وہ قسم تھی جو ہندوستان میں رائج ہو رہی تھی اور نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ چیز اُس نصبُ العین کے بالکل برعکس ہے جو یہاں کے مسلمانوں کی تاریخ میں سر سید کے زمانے سے آج تک مسلسل ترقی پا رہا ہے یعنی غربت اور خوف سے آزاد معاشرے کا قیام۔ اُمید ہے کہ پچھلی قسط، ’’اقلیتوں کا معاہدہ‘‘  سے یہ بھی واضح ہو گیا ہو گا کہ اگرچہ مسلمانوں کی جدوجہد کی بنیاد مذہبی تھی لیکن یہ جدوجہد کسی دوسرے مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ذات پات کے اِسی نظام کے خلاف تھی (’’کیا آپ نے اُس شخص کو نہیں دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو پرے ہٹاتا ہے اور اِس بات کی ترغیب نہیں دیتا کہ مسکین کو کھانا کھلایا جائے!‘‘)۔

پارلیمنٹ بطور شخصیت



چھٹے خطبے میں علامہ اقبال نے کہا ہے:

’’کیا یہ ضروری ہے کہ خلافت ایک فردِ واحد کے سپرد کی جائے؟ ترکی کا اجتہاد یہ ہے کہ اسلام کی روح کے مطابق خلافت یا امامت افراد کے ایک گروہ یا ایک منتخب اسمبلی کو بھی تفویض کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، مصر اور ہندوستان کے علمائے دین نے ابھی تک اس کے بارے میں اپنی رائے ظاہر  نہیں کی ہے۔ ذاتی طور پر میں یہ مانتا ہوں کہ ترکی کا نقطۂ نظر بالکل درست ہے۔‘‘

یہاں دو باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایک پارلیمنٹ ایک اجتماعی شخصیت قرار دی جا سکتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کے مطابق یہ بات اسلام کی روح کے عین مطابق ہے کہ خلیفہ ایک فردِ واحد نہ ہو بلکہ پوری پارلیمنٹ اجتماعی طور پر خلیفہ کے منصب پر فائز سمجھی جائے۔

پارلیمنٹ کے اس تصوّر کے ساتھ خطبۂ الٰہ آباد کے اُن الفاظ کا تعلق بالکل واضح ہے جو اوپر بھی درج کیے گئے:

’’قرآن مجید کی ایک نہایت معنی خیز آیت یہ ہے کہ پوری انسانیت کی موت و حیات بھی فردِ واحد کی موت و حیات کی طرح ہے۔ آپ جو بجا طور پر دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ ایک قوم کے طور پر انسانیت کے اِس بہترین تصوّر کی پہلی عملی مثال ہیں، کیوں نہیں آپ سب کا جینا اور حرکت کرنا، اور آپ کا پورا وجود ایک فردِ واحدکی طرح ہو سکتا؟‘‘

اس کے علاوہ تحریکِ پاکستان کے زمانے میں مسلمانوں کی تمامتر جدوجہد حقیقت میں ایک ایسی ہی پارلیمنٹ کے قیام کے لیے تھی جیسا کہ قراردادِ پاکستان اور عہدنامۂ پاکستان سے بھی ظاہر ہے، اور مزید تفصیل بعض آیندہ اقساط میں آئے گی۔ اس طرح پارلیمنٹ کا یہ تصوّر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے محض ایک تصوّر نہیں رہا ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے تاریخی عمل میں مسلسل ارتقأ پذیر ہوتی رہی ہے (خواہ ہم میں سے پڑھے لکھے لوگوں کو خبر نہ ہوئی ہو)۔

گویا غربت اور خوف سے آزاد معاشرے کا جو خیال سر سید کے زمانے سے آج  تک ہمارے ضمیر میں مسلسل ترقی پاتا رہا ہے، پارلیمنٹ کا یہ تصوّر حقیقت میں اُسی کا ایک پہلو ہے۔

اِس لحاظ سے یہ بھی قابلِ غور ہے کہ چند روز پہلے، 28 فروری 2019 کو، جب جنوبی ایشیا ایک نیوکلئر جنگ کے دہانے پر کھڑا تھا اور ساری دنیا کی نگاہیں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی طرف اٹھی ہوئی تھیں، دنیا نے اُس پارلیمنٹ سےیہ آواز سنی کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا اور “وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں دنیا کی سب سے زیادہ غربت ہے‘‘ اور ’’یہ میرا وژن ہے کہ کبھی بھی کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جدھر تھوڑے سے لوگ امیر ہوں اور باقی غریبوں کا سمندر ہو۔‘‘



“اقبال کی منزل” کی اشاعت میں شاید ایک آدھ مہینے کی تاخیر ہو جائے۔ اس لیے مجھے مناسب لگتا ہے کہ اس سیریز کی اقساط مسلسل پیش کرنے کی بجائے درمیان میں کچھ اور چیزیں بھی پیش کرتا رہوں، خاص طور پر جو حالات اس وقت جنوبی ایشیا میں پیدا ہو رہے ہیں، اُن پر ہماری تاریخ سے جو روشنی پڑتی ہے، وہ شاید سب کے لیے دلچسپ ہو۔ جمعہ 8 مارچ کو اِسی حوالے سے کچھ پیش کروں گا۔


اضافہ، 10 مارچ: ایک مصروفیت کی وجہ سے جمعے کو نئی پوسٹ پیش نہیں کر سکا ہوں۔ انشأ اللہ اگلے جمعے 15 مارچ تک پیش کر دی جائے گی۔