آزادی کے بعد


آزادی” شائع ہو گئی ہے۔ اُن تمام پڑھنے والوں کا شکریہ جنہوں نے اپنے آرڈر بھجوائے ہیں۔

ان شأاللّٰہ آج سے ترسیل شروع کی جا رہی ہے، جیسا کہ پہلے کہا گیا تھا کہ یہ کتاب 26 جولائی کو شائع ہو گی۔ خدا کی مہربانی ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔


1947 میں جو فسادات ہوئے اُن کے بارے میں ہم سب کو معلوم ہے۔ چونکہ اُن فسادات کا اصل زور یومِ آزادی کے ایک آدھ روز بعد شروع ہوا اس لیے کتاب “آزادی” میں اُن کا احاطہ نہیں کیا گیا لیکن آئیے، اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان لرزہ خیز واقعات پر جو مختلف ردِ عمل ظاہر ہوئے، اُن میں سے کس رویے کو ہم صحیح معنوں میں مسلم ردِ عمل اور گزشتہ اسلامی تاریخ کا تسلسل قرار دے سکتے ہیں؟



اگر ہم اس موضوع پر تخلیق کیے گئے افسانوی ادب پر نظر ڈالیں تو دلچسپ اور عجیب بات ہے کہ جن معماروں کو ادبِ عالیہ میں سب سے اونچے درجات حاصل ہیں، اُن میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مسلم نقطۂ نگاہ پیش کر رہے ہیں۔

ان میں سعادت حسن منٹو کے افسانوں کا مجموعہ “سیاہ حاشیے” اور اُن کے بعض دوسرے افسانے، اور اُن پر محمد حسن عسکری کا تبصرہ، قرۃ العین حیدر کا ناول “آگ کا دریا”، قدرت اللّٰہ شہاب کا ناولٹ “یاخدا” اور دوسری کئی تحریریں شامل ہیں۔ شاید بعض لوگ سیف الدین سیف کی بنائی ہوئی پنجابی فلم “کرتار سنگھ” کو بھی اِسی زمرے میں شامل کریں، جسے اب ایک کلاسیک کا درجہ مل چکا ہے۔

ان معزز ہستیوں کا ادب میں جو بھی مقام ہے، اُس سے فی الحال کوئی بحث نہیں۔ لیکن اگر ہم 1947 کے فسادات کے بارے میں مسلم نقطۂ نظر کی تلاش میں نکلیں تو ظاہر ہے کہ نہ یہ مصنفین خود دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اِنہوں نے پیش کیا ہے، اور نہ ہی اُس زمانے کے مسلمان عوام ان سے یہ توقع وابستہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


اس کے بعد ہم اُن تحریروں کی طرف دیکھتے ہیں جن میں بہت کُھل کر مسلمانوں کی طرفداری کی گئی۔ اس فہرست میں شاید سب سے اوپر نسیم حجازی کا ناول “خاک اور خون” ہے، جس پر فلم بھی بن چکی ہے۔ اُس کے بعد ایم اسلم کا “رقصِ ابلیس” رکھا جا سکتا ہے۔ اُن کے علاوہ عنایت اللّٰہ، رضیہ بٹ اور بہت سے دوسرے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔

ان تمام مصنفوں نے ایک مشکل وقت میں جس طرح مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے، اُس کی اہمیت، ضرورت اور افادیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔

البتہ ہم ان تحریروں کو ان بزرگوں کی ذاتی رائے ہی سمجھنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ اس رائے کی اہمیت کچھ کم نہیں ہے، لیکن یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ یہ تحریریں اس موضوع پر خالص مسلم نقطۂ نظر پیش کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر “خاک اور خون” میں نسیم حجازی کے بہت سے دوسرے ناولوں (مثلاً “انسان اور دیوتا”) کی طرح ہمیں ہندو سیاست کی برائیاں اور ذات پات کے ہندوانہ نظام کی خرابیاں تو بہت تفصیل کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں، اور یقیناً ان برائیوں اور خرابیوں پر اعتراضات اپریل 1946 کی اُس قرارداد میں بھی شامل تھے جسے مسلمانوں کی متفقہ رائے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن علامہ اقبال کی شاعری، نثر اور فکر شروع سے آخر تک ہندو تہذیب کے جن مثبت پہلوؤں کو بھی نمایاں کرنے کی کوششوں سے بھری ہوئی ہے، وہ مثبت پہلو ہمیں نسیم حجازی کے یہاں کہیں نظر نہیں آتے۔

یہی بات اُن کے بہت سے ہم خیال مصنفین کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ ایم اسلم نے “رقصِ ابلیس” میں سکھ قوم کو بالکل ہی وحشی قرار دیا ہے جو مہذب ہونے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ یہ علامہ اقبال اور قائداعظم کی رائے ہے، اور نہ ہی یہ مسملمانوں کی وہ عام رائے ہے جس پر وہ پورے انگریزی عہدِ حکومت میں کاربند رہے۔ یہ وہ رویہ بھی نہیں ہے جو مسلمانوں نے ان ہنگاموں کے بیس تیس برس بعد سکھوں کے بارے میں دوبارہ اپنا لیا اور جو آج سکھوں کے بارے میں ہمارا رویہ ہے (اِس موضوع پر زیادہ تفصیل کے ساتھ میں “مہاراجہ رنجیت سنگھ اور علامہ اقبال” میں لکھ چکا ہوں)۔

میں ان مصنفین کی اہمیت کم کرنے کے حق میں نہیں ہوں بلکہ میں انہیں آیندہ نسلوں سے متعارف کروانے کی عملی کوششوں میں بھی شریک ہوں۔ میری مرتب کی ہوئی “کتابِ اردو” میں، جو بہت سے اسکولوں میں پڑھائی جا رہی ہے، نسیم حجازی اور ایم اسلم کے ناولوں کے اقتباسات شامل ہیں۔


یہ پس منظر بیان کرنے کے بعد میں وہ آواز پیش کر سکتا ہوں جسے ہم 1947 کے فسادات کے بارے میں خالص مسلم نقطۂ نظر قرار دے سکتے ہیں کیونکہ نہ اس میں کسی ایسے رویے کی تنسیخ ہو رہی ہے جو پوری مسلم قوم نے ماضی میں اختیار کیے رکھا تھا اور نہ ہی اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم کا کوئی ایک بھی قول نظرانداز ہو رہا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ آواز صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو ٹھیک اُسی سمت میں بڑھنے کی دعوت دے رہی ہے جو سمت مسلم لیگ کی اپریل 1947 کی قرارداد میں متعین کی گئی تھی۔

علامہ اقبال نے جس شہر الٰہ آباد میں جا کر آزادی کا تصوّر پیش کیا تھا، وہیں سے آزادی کے کچھ عرصے بعد یہ آواز بلند ہوئی، اور یہ اسرار احمد ناروی کی آواز ہے، جنہیں دنیا ابن صفی کے قلمی نام سے جانتی ہے:

“1947 میں جو کچھ ہوا اُس نے میری پوری شخصیت کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ سڑکوں پر خوں بہہ رہا تھا اور عالمی بھائی چارے کی باتیں کرنے والے سوکھے سہمے اپنی پناہ گاہوں میں دُبکے ہوئے تھے۔ ہنگامہ فرو ہوتے ہی پھر پناہ گاہوں سے باہر آ گئے اور چیخنا شروع کر دیا، “یہ نہ ہونا چاہیے تھا، یہ بہت برا ہوا۔” لیکن ہوا کیوں؟ تم تو بہت پہلے سے یہی چیختے رہے تھے۔ تمہارے گیت دیوانگی کے اِس طوفان کو کیوں نہ روک سکے؟

“میں سوچتا – سوچتا رہا۔ آخرکار اِس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی میں جب تک قانون کے احترام کا سلیقہ نہیں پیدا ہو گا یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام کرنا سیکھے۔ جاسوسی ناول کی راہ میں نے اسی لیے منتخب کی تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کے لیے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں اور اُنہیں قانون کا احترام کرنا بھی سکھاتا ہوں۔ فریدی میرا آئیڈیل ہے جو خود بھی قانون کا احترام کرتا ہے۔ اور دوسروں سے قانون کا احترام کرانے کے لیے اپنی زندگی تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔”


میرے خیال میں “آزادی” پڑھنے والوں کو ضرور مجھ سے اتفاق ہو گا کہ یہ نقطۂ نظر جو ابن صفی یہاں پیش کر رہے ہیں، 1947 کے بعد ہمارے قومی ارتقأ کا اگلا مرحلہ تھا کیونکہ جب ہمارے ہی مطالبے پر برصغیر کو خودمختار ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تھا تو ہمارے ارتقأ کا اگلا مرحلہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ اب اُن ریاستوں کو مستحکم کیا جائے؟

چنانچہ میں نے جب 2011 میں ابن صفی کی تحریروں کا ایک انتخاب اپنے تبصروں کے ساتھ شائع کیا تو دیباچے میں لکھا:

ابن صفی کی تحریروں کا انتخاب آپ کے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ یہ وہ خواب ہیں جو برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے آزادی کے فوراً بعد دیکھے تھے۔

یہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان اُس آزادانہ فیصلے کی بدولت وجود میں آیا جو 1945-1946 کے انتخابات میں پورے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اِس بات کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی کہ جس نسل نے پاکستان کے حق میں یہ فیصلہ دیا تھا، اُسی نے پاکستان کے قیام کے صرف پانچ برس بعد اسرار احمد ناروی کو اپنا نمایندہ ادیب قرار دیا۔

“سائیکو مینشن” کے بعد “رانا پیلس” (2011) اور “دانش منزل” (2017) میں بھی میں نے ابن صفی کی تحریروں کا انتخاب اپنے تبصروں کے ساتھ پیش کیا ہے اور یہ تینوں مجموعے ابن صفی کے قانونی ورثأ کی خصوصی اجازت کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں۔


یہ درست ہے کہ ابن صفی نے جو نقطۂ نظر پیش کیا اُسے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کی کوئی بھی قوم اپنا سکتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اُن کے ناول ہر مذہب کے پڑھنے والوں میں مقبول تھے۔ لیکن جن مسلمانوں نے پاکستان بنایا تھا، اُن کا ارمان بھی تو یہی تھا!

سر سید، علی برادران، علامہ اقبال، قائداعظم اور لیاقت علی خاں میں سے ہر ایک نے یہی کہا تھا کہ اسلام صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ سب کو رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔

“آزادی” میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ آزادی کی طرف سفر میں راجہ جے کشن داس، دادا بھائی نوروجی اور چت رنجن داس جیسے غیرمسلم بھی ہمارے ساتھ تھے اورمسلمان انہیں بھی اپنے بزرگوں جیسی عزت دیتے تھے۔

چنانچہ یہ تقاضا کرنا ہی درست نہیں ہو گا کہ “مسلم نقطۂ نظر” اتنا محدود ہو کہ مسلمانوں کے سوا کسی اور کے کام نہ آ سکے۔ ایسا نقطۂ نظر کسی مسلمان کا وقتی اور جذباتی ردِ عمل تو ہو سکتا ہے لیکن اُسے اُس شخص کا انفرادی نقطۂ نظر ہی کہنا پڑے گا۔

“مسلم نقطۂ نظر” سے ہمیں اس بات کی توقع ضرور رکھنی چاہیے کہ اُس میں اُن رہنماؤں کی وسعتِ نظری بھی جھلک رہی ہو جنہوں نے 1858 سے 1947 تک قوم کی رہنمائی کی، اور وہ نقطۂ نظر انہی رہنماؤں کی فکر کا تسلسل ہو۔ 1947 کے فسادات کے بارے میں یہ نقطۂ نگاہ جہاں تک ہمیں علم ہے، افسانوی ادب کے میدان میں تنہا ابن صفی نے ہی پیش کیا۔

ابن صفی نے خود بھی بالکل واضح الفاظ میں اپنی ناول نگاری کو 1947 کے فسادات کے بارے میں ایک مسلمان کا ردِ عمل اور مسلم قوم کے ارتقأ کا ایک قدرتی مرحلہ قرار دیا تھا:

“ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

“جب بھی یہ مصرعہ ذہن میں گونجتا ہے، ایک بھاری سی آواز اُس پر حاوی ہو جاتی ہے، ‘میاں کس کھیت کی مُولی ہو۔ تم نہ ہوتے تب بھی اُردو کو سرّی ادب کے اِس دور سے ضرور گزرنا پڑتا۔ 1947 کے فسادات کے بعد خواب دیکھنے والا کوئی مسلمان، ایک کرنل فریدی ضرور پیدا کرتا۔ کرنل فریدی جو ساری دنیا پر صرف قانون کی حکمرانی کا خواہاں ہے۔'”


ابن صفی کا انتقال کراچی میں 26 جولائی 1980 کو ہوا۔ آج اُن کی برسی ہے۔ کتاب “آزادی” کی تاریخِ اشاعت اِسی مناسبت سے مقرر کی گئی تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ابن صفی کے درجات بلند فرمائے، آمین!


مزید معلومات کے لیے ابن صفی کی آفیشل ویب سائٹ:
ibnesafi.info