ایک ہی راستہ

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ ہماری شہ رگ پر چھری رکھی جا چکی ہے۔ اس نازک ترین مسئلے پر جب ہماری پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا تو وہ بھی سیاسی جماعتوں کی آپس کی رنجشوں کی وجہ سے سوائے ہمارے انتشار میں اضافے کے اور کوئی نتیجہ حاصل نہ کر سکا۔ اس لیے علامہ اقبال کے یہ الفاظ ہماری موجودہ صورت حال کی بالکل صحیح عکاسی کرتے ہیں:

“سیاسی عمل میں تنوع، ایک ایسے موقع پر جبکہ خود قوم کی زندگی بچانے کے لیے اتحادِ عمل کی ضرورت ہے، ہماری موت بن سکتا ہے۔”

خوش قسمتی سے اقبال نے اس مسئلے کا ایک واضح حل بھی تجویز کر رکھا ہے۔ اس حل کا ذکر کرنے سے پہلے سیاق و سباق کے حوالے سے یہ عرض ہے کہ یہ جملہ “خطبۂ الٰہ آباد” سے ہے جو اقبال نے 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا اور جسے  تصوّرِ پاکستان کا پہلا واضح خاکہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جس اقتباس میں یہ جملہ آتا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہے:

“مجھے بلا تکلف کہنے دیجیے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمان دو بُرائیوں میں مبتلا ہیں۔ اوّل، ان میں قحط الرجال ہے۔ سر میلکم ہیلی اور لارڈ ارون کی تشخیص بالکل صحیح تھی جب انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں کہا کہ قوم رہنما پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

“رہنماؤں سے میری مراد ایسے افراد ہیں جو خدا داد صلاحیت یا اپنے وسیع تجربے کی بدولت اسلام کی روح اور تقدیر کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ جدید تاریخ کے رحجانات سے بھی پورے واقف ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں ایک قوم کے روح و رواں ہوتے ہیں  لیکن یہ خدا کی طرف سے عطیہ ہوتے ہیں اور ضرورت کے مطابق بنائے نہیں جا سکتے۔

“دوسری برائی جس میں ہندوستان کے مسلمان مبتلا ہیں وہ یہ ہے کہ ملّت  بڑی تیزی کے ساتھ اُس شے سے محروم ہوتی جا رہی ہے جسے اجتماع کی جبلت  کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے افراد اور گروہوں کے لیے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ ملّت کے فکر و عمل کے عام سرمائے میں  کوئی اضافہ کیے بغیر بے نیازی کے ساتھ اپنے اپنے کیرئیر شروع کرتے جائیں۔

“آج ہم سیاست کے میدان میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم صدیوں سے مذہب کے میدان میں کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن مذہب میں فرقہ وارانہ مناقشت سے ہماری اخوّت کو  کچھ خاص نقصان نہیں پہنچتا۔ وہ کم سے کم  اُس چیز میں دلچسپی تو ظاہر کرتی ہیں جو ایک قوم کے طور پر ہماری  ساخت  کو متعین کرنے  کا اصل اصول ہے [یعنی عقیدہ]۔ اور پھر یہ اصول بھی اس قدر وسیع ہے کہ ایک گروہ کے لیے قریب قریب ناممکن ہے کہ وہ اسلام کے دائرے سے مکمل طور پر باہر نکل جائے۔

“لیکن سیاسی عمل میں تنوع، ایک ایسے موقع پر جبکہ خود قوم کی زندگی بچانے کے لیے اتحادِ عمل کی ضرورت ہے، ہماری موت بن سکتا ہے۔

“پھر ہم ان دونوں برائیوں کا علاج کیسے کریں گے؟  پہلی برائی کو دُور کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جہاں تک دوسری خرابی کا تعلق ہے، میرے خیال میں اس کا علاج ممکن ہے۔ اس موضوع پر میرے پاس  واضح خیالات موجود ہیں  لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اظہار کو اس وقت تک ملتوی رکھنا مناسب ہے جب تک  وہ صورت حال پیدا نہ ہو جائے جس کا خطرہ ہے۔”

رہنماؤں کا انتظار مت کیجیے


سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال نے جس قسم کے رہنماؤں کا ذکر کیا ہے، اُس کی سب سے بڑی مثال اس خطبے کے کچھ عرصے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی صورت میں  قوم کے سامنے آ گئی۔ البتہ ہم میں سے اکثر لوگوں کا خیال یہی ہے کہ اب پھر بہت عرصے سے وہی صورت حال موجود ہے اور ہمیں بہت مدت سے اُس قسم کی قیادت میسر نہیں آئی ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اقبال ہمیں یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اس صورت میں ہمیں یہ  نہیں سمجھنا چاہیے کہ جب ایسی قیادت میسر آئے گی تب ہی ہمارے حالات بدلیں گے۔ ہم ایسی قیادت اپنی مرضی سے نہیں لا سکتے اور یہ صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس  لیے یہ کہنا کہ ہمارے حالات اُسی وقت تبدیل ہوں گے جب ایسی قیادت میسر آئے گی، ایک طرح سے تن بہ تقدیر ہو کر بیٹھ جانا ہے۔

ہم ایسی قیادت  کے بغیر بھی ملک کے حالات بہتر بنا سکتے ہیں اگر ہم اپنی دوسری اور سب سے بڑی خرابی دُور کر لیں۔

ہماری سب سے بڑی خرابی


یہ دوسری خرابی، جو خطبۂ الٰہ آباد کے مطابق وہ واحد برائی ہے جسے دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، “اجتماع کی جبلت” سے محروم ہو جانا ہے۔

“اجتماع کی جبلت” اُس زمانے کی نفسیات کی ایک خاص اصطلاح ہے اور اب متروک ہو چکی ہے۔ اس کے تفصیلی معانی کسی اور موقع پر واضح کرنے کی کوشش کروں گا، فی الحال اتنا جان لینا کافی ہے کہ اُس زمانے میں مولانا غلام رسول مہر نے روزنامہ “انقلاب” میں خطبۂ الٰہ آباد کا ترجمہ کرتے ہوئے اس کے لیے “حسِ اطاعت” کے الفاظ استعمال کیے۔ اس سے اپنی قوم کی اجتماعی رائے کی اطاعت کرنے کا شوق اور جذبہ مراد ہے۔

علامہ اقبال کے مطابق اِس شوق اور جذبے کی کمی ایک بہت بڑی خرابی ہے۔ اُن کے مطابق اسی خرابی کی وجہ سے وہ صورت حال پیش آتی ہے جو آج ہمیں درپیش ہے یعنی “سیاسی عمل میں تنوع، ایک ایسے موقع پر جبکہ خود قوم کی زندگی بچانے کے لیے اتحادِ عمل کی ضرورت ہے، ہماری موت بن سکتا ہے۔”

واحد حل


اقبال کہتے ہیں کہ یہ خرابی دُور کرنا  ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، جس کے لیے ایک واضح حل اُن کے پاس ہے۔ وہ حل انہوں نے “خطبۂ الٰہ آباد” میں نہیں بتایا لیکن دو سال بعد مارچ 1932 میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس لاہور  کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطبے میں اِن الفاظ میں پیش کر دیا:

“اِس برائی کو دُور کرنے کے لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی صرف ایک ہی سیاسی تنظیم ہونی چاہیے جس کی  صوبائی اور ضلعی شاخیں  پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہوں۔ اس کا نام آپ جو بھی رکھ لیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کا آئین ایسا ہو جس کی وجہ سے یہ ممکن ہو سکے کہ کوئی بھی مکتبِ فکر اقتدار میں آ سکے اور اپنے خیالات اور طریقوں کے مطابق ملّت کی رہنمائی کر سکے۔ میری رائے میں یہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم انتشار کا سدِ باب کر سکتے ہیں، اور اپنی بکھری ہوئی قوّتوں کو ہندوستان میں اسلام کے بہترین مفادات کی خاطر دوبارہ مربوط  اور منظم کر سکتے ہیں۔”


ہمیں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ علامہ اقبال یہاں “یک جماعتی نظام” کی بات کر رہے ہیں جیسا کہ کمیونسٹ ممالک میں ہوتا ہے اور غالباً ہمارے یہاں مذہب کا نام لینے والی بعض تنظیمیں بھی چاہتی ہیں۔ اُس نظام میں بھی  پورے ملک میں ایک ہی جماعت ہوتی ہے، لیکن وہ جماعت کسی ایک مکتبِ فکر کی پابند ہوتی ہے اور اُس کی حکومت حقیقت میں اُسی مخصوص مکتبِ فکر کی حکومت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اس کے برعکس ایک ایسی جماعت چاہتے ہیں جو کسی ایک مکتبِ فکر کی پابند نہ ہو بلکہ کوئی بھی مکتبِ فکر اکثریت حاصل کرنے کے بعد اقتدار میں آ سکے۔

حقیقت میں یہ کوئی نئی تجویز نہیں تھی۔ فرانس میں رُوسو نے اٹھارہویں صدی میں حقیقی جمہوریت اسی کو قرار دیا تھا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بانی جارج واشنگٹن نے بھی اپنی قوم کو یہی وصیت کی تھی۔ 1918 میں امریکی مصنفہ میری پارکر فولیٹ نے اِس موضوع پر پوری کتاب لکھی تھی۔ ہندوستان کے ہندوؤں میں سے چت رنجن داس انہی خطوط پر سوچتے تھے۔

جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کا تعلق ہے، آل انڈیا مسلم لیگ پہلے دن سے اسی  نظریے پر قائم ہوئی تھی۔ محمد علی جناح نے بھی اگر شروع سے نہیں تو 1916 تک ضرور یہی مؤقف اختیار کر لیا تھا اور عمر بھر اسی پر قائم رہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب 1930 کے لگ بھگ ہندوستان کے مسلمانوں نے یہ نظریہ ترک کر دیا، اور مسلم لیگ کے ساتھ مسلم کانفرنس کا وجود بھی قوم کے حق میں مفید دکھائی دینے لگا تو جناح نے مسلمانوں کی قیادت چھوڑ دی۔ تین چار سال بعد جب مسلمان دوبارہ اس بات پر آمادہ ہوئے کہ پوری قوم کی ایک ہی سیاسی جماعت ہو تو جناح واپس آ گئے (تفصیل کسی اور موقع پر پیش کروں گا)۔

بہرحال یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ جناح کے نزدیک تمام مسلمانوں پر لازم تھا کہ وہ مسلم لیگ کی اطاعت کریں۔ البتہ ہمیں عام طور پر دو باتوں سے لاعلم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور دونوں کا تعلق اس حل کے ساتھ ہے جو علامہ اقبال نے تجویز کیا تھا اور جس پر جناح بھی کاربند تھے۔


پہلی بات یہ ہے کہ جناح نے ہمیشہ یہی کہا کہ اُن کی اپنی شخصیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور صرف مسلم لیگ ہی کی اہمیت ہے اس لیے ہمیں اُن کی نہیں بلکہ مسلم لیگ کی اطاعت کرنی چاہیے۔


اب اس کی کئی مثالیں کتاب “آزادی” اور اس سلسلے کی پوسٹس میں پیش کر دی گئی ہیں، اُمید ہے کہ ہماری طویل بیخبری آہستہ آہستہ دُور ہوتی جائے گی۔


دوسری بات  جو ہمیں معلوم ہونی چاہیے اور معلوم نہیں ہوتی، وہ یہ ہے کہ قائداعظم پاکستان بننے کے بعد بھی اسی بات پر قائم رہے اور یہی کہا کہ تمام مسلمانوں کو  صرف مسلم لیگ ہی میں شریک ہونا چاہیے۔


فروری 1948 میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایک بحث کے دوران بعض سیاستدانوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد مسلم لیگ کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ 21 مارچ کو قائداعظم نے ڈھاکہ میں عوام سے خطاب  کرتے ہوئے پوچھا:

“کیا آپ پاکستان میں یقین رکھتے ہیں؟”

 عوام نے جواب دیا، “ہاں، ہاں!”

قائد نے  پوچھا، “کیا آپ خوش ہیں کہ آپ نے پاکستان حاصل کر لیا ہے؟”

عوام نے پھر جواب دیا، “ہاں، ہاں!”

قائد نے پوچھا،”کیا آپ چاہتے ہیں کہ مشرقی بنگال، یا پاکستان کا کوئی اور حصہ واپس  انڈین یونین میں چلا جائے؟”

مجمع سے “نہیں، نہیں!” کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اس پر قائد نے کہا:

“اگر آپ پاکستان کی خدمت کرنے والے ہیں، اگر آپ پاکستان  کو مضبوط بنانے والے ہیں، اگر آپ پاکستان  کی تعمیرِ نَو کرنے والے ہیں، تو پھر میں کہتا ہوں کہ ہر مسلمان کے سامنے ایمانداری کا راستہ یہی ہے کہ وہ مسلم لیگ  کی جماعت میں شامل ہو جائے اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق پاکستان کی خدمت کرے۔”

 دو روز بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں بھی انہوں نے یہی بات دہرائی۔


اُن کی وفات کے بعد لیاقت علی خاں بھی یہی کہتے رہے کہ قائداعظم نے اپنے ورثے میں ہمارے لیے دو چیزیں چھوڑی ہیں۔ ان میں سے ایک پاکستان ہے اور دوسری مسلم لیگ ہے۔ مسلم لیگ کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔


چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ  علامہ اقبال، قائداعظم، لیاقت علی خاں اور اُن کے ہم خیال تمام رہنماؤں نے جب بھی قوم  کے “اتحاد” کی بات کی، اُس میں سیاسی اتحاد کے معانی شامل تھے اور قائداعظم کے مشہور ماٹو “ایمان، اتحاد، تنظیم” میں سے “اتحاد” کا مطلب  یہی ہے کہ پوری قوم کی ایک ہی سیاسی جماعت ہو۔

اگر ہم ایک قوم کے طور پر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو علامہ اقبال کے مطابق اُس کی لازمی شرط یہ ہے کہ ہماری  “صرف ایک ہی سیاسی تنظیم ہونی چاہیے جس کی صوبائی اور ضلعی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہوں” لیکن جس کے آئین میں اتنی لچک ہو کہ “کوئی بھی مکتبِ فکر اقتدار میں آ سکے اور اپنے خیالات اور طریقوں کے مطابق ملّت کی رہنمائی کر سکے۔”

عملی صُورت


اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے حالات میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت بن جائے جس کی شاخیں ملک کے ہر صوبے اور ہر ضلعے میں موجود ہوں، اور اُس کا آئین بھی ویسا ہی ہو جیسا اقبال اور قائداعظم چاہتے تھے؟

اس کی واحد عملی صورت یہی دکھائی دیتی ہے کہ ہم  میں سے کچھ لوگ ایک ایک کر کے یہ عہد کرنا شروع کر دیں کہ “میری خواہش ہے کہ میں اُسی طرح قائداعظم محمد علی جناح کی تمام ہدایات کی پیروی کروں جیسے وہ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہماری قیادت کر رہے ہیں۔”

قائداعظم کی قیادت پورے خطّے کے مسلمانوں نے متفقہ طور پر قبول کی۔ تمام پاکستانی خواہ ان کا مذہب جو بھی ہو، اُنہیں بابائے قوم بھی مانتے ہیں۔ اس طرح ہم پہلے ہی سے آمادہ ہیں کہ ہم اُن کی ہدایات پر عمل کریں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فی الحال نہ ہمیں اُن کی ہدایات معلوم ہیں نہ اُن کی نگاہ سے دنیا کو دیکھنا ہمیں آتا ہے۔ بس یہی باتیں ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہم 1947 سے آج تک اپنے ملک میں ہونے والی ہر خرابی  کی وجہ کسی سیاستدان کی شخصیت کی کمزوری، عوام کی جہالت میں، فوج کی دخل اندازی، عدلیہ کے کردار یا کسی اور وجہ میں تلاش کرتے ہیں۔ ان زاویوں سے ملکی حالات کے تجزیوں کے انبار ہم لگا چکے ہیں۔ لیکن ہم نے آج تک اپنے ملک کی کسی بھی خرابی کی وجہ اُس بنیادی سبب میں تلاش نہیں کی ہے جو علامہ اقبال اور قائداعظم کے مطابق تمام خرابیوں کی اصل جڑ ہے یعنی ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا وجود!

1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ اس واقعے پر دنیا کے ہر زاویے سے لکھا جا چکا ہے لیکن کیا آج تک ہم نے اُس بات پر بھی غور کیا ہے جو قائداعظم نے ڈھاکہ ہی میں کھڑے ہو کر قیامِ پاکستان کے چند برس بعد  کہی تھی کہ اگر ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہوئیں تو ملک سلامت نہیں رہ سکے گا؟ کیا ہم نے آج تک اِس امکان پر بھی غور کیا ہے کہ مشرقی پاکستان اس لیے ہم سے علیحدہ ہو گیا کہ ہم نے قائداعظم کی نصیحت کے برعکس اور علامہ اقبال کی بصیرت کے برخلاف ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں بنا لی تھیں؟

اس لیے جب ہم یہ کہیں کہ “میری خواہش ہے کہ میں اُسی طرح قائداعظم محمد علی جناح کی تمام ہدایات کی پیروی کروں جیسے وہ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہماری قیادت کر رہے ہیں” تو ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم ہر سیاسی اور قومی واقعے کا تجزیہ قائداعظم، علامہ اقبال، آل انڈیا مسلم لیگ اور اُس کے معتبر ترین رہنماؤں کے نقطۂ نگاہ سے کریں۔ اس طرح ہم اُس فکری انتشار سے بھی نکلیں گے جس نے اِس وقت ہمارے ذہنوں کو ماؤف کر رکھا ہے، اور دنیا کے ہر مسئلے پر  ہم سب  کی ایک ہی رائے ہو گی خواہ ہم نے دوسرے سے بات بھی نہ کی ہو۔

دوسری طرف ہمارے تمام سیاستدان اور حکمران بھی اپنی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ وہ قائداعظم کی ہدایات کے مطابق اس ملک کو چلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم عوام یہ فیصلہ کر لیں کہ آج سے ہم نے قائداعظم کی ہدایات معلوم کرنی ہیں اور اُن کی پیروی کرنی ہے، تو پھر خواہ حکومت کوئی بھی کرے اور انتخابات میں کوئی بھی کامیاب ہو، آہستہ آہستہ اُن سبھی کو قوم کی وحدت کے تابع ہونا پڑے گا۔

اس طرح ہم اُس قسم کی سیاسی وحدت حاصل کر سکیں گےجو علامہ اقبال کے مطابق ایک قوم کے طور پر ہمارے زندہ رہنے کے لیے لازمی ہے۔

جنوبی ایشیا کی قیادت


کتاب “آزادی”  کے آخری باب میں، اور پوسٹ “اصل داستاں” میں، واضح کیا گیا ہے کہ 1947 سے آج  تک  پورا جنوبی ایشیا آل انڈیا مسلم لیگ کے  مطابق ہی چل رہا ہے اگرچہ وہ جماعت مدتیں پہلے ختم ہو چکی ہے۔ اختصار کے لیے یہاں صرف بنیادی نکات دہرائے جا رہے ہیں:


1947 میں جو آزاد بھارت دنیا کے نقشے پر اُبھرا، وہ مسلم لیگ کی اپریل 1946 کی قرارداد کے مطابق وجود میں آیا تھا اور اُس کا کوئی دھندلا سا تصوّر بھی کانگرس یا ہندو مہاسبھا کی کسی قرارداد میں موجود نہیں تھا۔


1966 میں معاہدۂ تاشقند  کے ذریعے بھارت نے پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اسے علاقے کے امن کے لیے ضروری قرار دیا۔ یہ بھی مسلم لیگ کی اُسی قرارداد کے مطابق تھا ورنہ کانگرس اور مہاسبھا  کی جون 1947 کی قراردادوں میں تو کہا گیا تھا کہ جب تک پاکستان کے علاقے واپس بھارت میں شامل نہ کر لیے جائیں اُس وقت تک خطے میں امن قائم نہ ہو سکے گا۔


1986 میں سارک سیکرٹریٹ کے قیام اور اُس سے ایک برس پہلے ڈھاکہ میں سارک کے چارٹر پر دستخط  کے ذریعے سات ممالک نے وہی اصول تسلیم کر لیا جو مسلم لیگ نے اپریل 1946 کی قرارداد میں پیش کیا تھا۔  


2007 سے افغانستان اور دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک بھی سارک میں شامل ہو کر جنوبی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ  گویا مسلم لیگ کی اپریل 1946 کی قرارداد میں پیش کیے ہوئے اصول کے مطابق ہی تعلقات استوار کر رہے ہیں، اور کانگرس اور ہندو مہاسبھا کی جون 1947 کی قراردادیں بار بار باطل ثابت ہو رہی ہیں۔


اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آج تک  پورے جنوبی ایشیا کی تاریخ ہمارے ہی نقطۂ نگاہ کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے تو پھر ہم کیوں اس بات سے بیخبر رہے ہیں؟

جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اصل مسلم لیگ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ختم کر دی گئی۔ اس کی جگہ مختلف جماعتیں اور حکمراں پاکستان میں اقتدار حاصل کرتے رہے۔ ان کے لیے یہ بات محسوس کرنے یا کروانے میں کوئی فائدہ نہیں تھا کہ تاریخ مسلم لیگ کے متعین کیے ہوئے راستے پر ہی چل رہی ہے۔

اس لیے آج اگر ہم اپنے اپنے دلوں میں اپنے آپ کو اُسی جماعت کی روح سے وابستہ کر لیں جو رُوح آج بھی اِس خطّے کی رہنمائی کر رہی ہے تو پھر یہ بات بھی ممکن ہو سکتی ہے کہ پاکستان اس خطّے کی رہنمائی کر کے یہاں مستقل امن اور انصاف قائم کر دے۔

غربت کا خاتمہ


قائداعظم نے 1936 سے اپنی وفات تک اپنے ہر عام خطاب میں یہی کہا کہ ہمیں سب سے پہلے غربت کا خاتمہ کرنا ہے، اُس کے بعد ہی کسی اور طرف توجہ دینی چاہیے۔ علامہ اقبال اس سے پہلے واضح کر چکے تھے کہ اسلام اور کمیونزم میں یہ فرق ہے کہ اسلام کے نزدیک غربت کے خاتمے کا طریقہ اخوّت میں مضمر ہے۔

پاکستان کے تمام مسلمانوں کے درمیان اس اخوّت کی بنیاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا تعلق ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال کے دونوں خطبات کے اقتباسات سے واضح ہے، مسلمانوں کی اِس اخوّت کو معاشرے میں زندہ قوّت بنانے کے لیے بھی اُس قسم کی سیاسی وحدت ضروری ہے جو قائداعظم کی ہدایات کی پیروی پر متفق ہونے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان اخوّت کی ایک بنیاد بھی یہی ہے کہ ہم سب قائداعظم کی معنوی اولادیں ہیں خواہ ہمارا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔

پہلا قدم


ہم میں سے جو لوگ علامہ اقبال کی اِس بات سے متفق ہوں کہ آج سیاسی عمل میں تنوع “ہماری موت بن سکتا ہے”، اور اِس  ہولناک نتیجے سے بچنے کے لیے اُس حل کو آزمانا چاہتے ہوں جسے علامہ اقبال نے واحد حل قرار دیا تھا، وہ مندرجہ ذیل نصبُ العین کو اختیار کرسکتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس کا اعلان کرسکتے ہیں اور عملی زندگی میں بھی اسے پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں۔ اِسے عملی جامہ پہنانے کے لیے جس معلومات کی ضرورت ہے، اُس کا ایک بہت بڑا حصہ کتاب “آزادی” میں شامل ہے۔ نصبُ العین یہ ہو سکتا ہے:


میری خواہش ہے کہ میں اُسی طرح قائداعظم محمد علی جناح کی تمام ہدایات کی پیروی کروں جیسے وہ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہماری قیادت کر رہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ میرے ایسا کرنے سے یہ باتیں یقینی ہو سکیں گی کہ:

1. ہم  اُس قسم کی سیاسی وحدت حاصل کر سکیں جو علامہ اقبال کے مطابق ایک قوم کے طور پر ہمارے زندہ رہنے کے لیے لازمی ہے۔

2. پاکستان جنوبی ایشیا کی قیادت کر کے یہاں مستقل امن اور انصاف قائم کرے۔

3. پاکستان سے غربت کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔

خدا میری مدد کرے، آمین!


صد شکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں
اور میرِ کارواں ہے محمد علی جناح!