محبت کی راہیں

بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج کی خبریں آپ کی نظر سے گزری ہوں گی۔ اتفاق سے اِس قسط کا اختتام بھی ایک ایسے انتخاب پر ہو رہا ہے جس کے نتائج کچھ اسی قسم کے تھے۔ 


آج کی قسط پڑھنے کے بعد یہ ضرور بتائیے گا کہ کیا آپ کے خیال میں اِس سے جنوبی ایشیا کے موجودہ حالات کو سمجھنے میں کچھ مدد ملتی ہے؟


پہلی قسط کے شروع میں ایک نغمے کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ وہ خوشی کا ہے یا غم کا، اور جواب یہ نکلا تھا کہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ آج کی قسط سے پہلے بھی فیاض ہاشمی کا ایک بیحد مقبول نغمہ پیش کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں عام طور پر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اسے خوشی کا نغمہ قرار دیا جائے یا غم کا۔ لہٰذا میری تجویز ہے کہ آج کی قسط شروع کرنے سے پہلے اسے سن کر یہ ضرور غور کیجیے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے؟ یہ نغمہ فلم “سویرا” (1959) کے لیے لکھا گیا۔ منظور حسین کی موسیقی میں ایس بی جَون نے گایا اور مقبول ترین نغمات میں شمار ہوتا ہے۔




 20 اگست 1917 کو وزیرِ ہند ایڈوِن مانٹیگو نے برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز (دارالعوام) میں کہا:

ملک معظم کی حکومت کی پالیسی، جس پر حکومتِ ہند بھی پوری طرح  کاربند ہے، انتظامیہ کی ہر شاخ میں ہندوستانیوں کی شمولیت کو مسلسل بڑھانے اور حکومتِ خوداختیاری کے اداروں کو مرحلہ وار ترقی دینے کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ  سلطنتِ برطانیہ کے ایک لازمی حصے کے طور  پر ہندوستان میں نمایندہ حکومت کو بتدریج ایک حقیقت بنادیا جائے۔

ابھی تک انگریز سیاستدانوں نے دولتِ مشترکہ کی بات صرف سفیدفام  نسلوں کے حوالے سے کی تھی۔ اِس اعلان  میں بھی اگرچہ صاف الفاظ میں ہندوستان کو کینیڈا یا آسٹریلیا کے برابر درجہ دینے کی بات نہیں کی گئی لیکن امکان ضرور پیدا ہو گیا۔


1918 میں  امریکی مصنفہ میری پارکر فولیٹ کی کتاب نئی ریاست شائع ہوئی جس نے کچھ عرصہ کے لیے سیاسی افکار کی دنیا میں ایک ہلچل مچا دی۔

فولیٹ نے ایک ’’نئی جمہوریت‘‘ کا تصوّر پیش کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں سیاسی جماعت کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ عوام  اپنے رہنماؤں کی بدعنوانی کی وجہ رہنماؤں کے ذاتی کردار میں تلاش کر رہے ہیں لیکن جہاں بھی سیاسی جماعت کا وجود ہو گا وہاں بدعنوانی ضرور ہو گی۔ سیاسی جماعت کی بجائے ہر محلے کے عوام کو متفقہ رائے کے ذریعے اپنے مسائل کرنے چاہئیں اور جب اس قسم کی محلہ کمیٹیوں کا جال پورے ملک میں بِچھ جائے تو وہ مل کر قومی سطح پر فیصلہ کرنے کے لیے ایک قومی تنظیم بنائے۔

فولیٹ نے جس مثالی تنظیم کا تصوّر پیش کیا، وہ مسلم لیگ کی صورت میں برصغیر میں پہلے ہی سے موجود تھی  اگرچہ فولیٹ کو علم نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی نئی جمہوریت کے جواز میں انسانی نفسیات کے بارے میں جو نکات پیش کیے وہ بھی وہی تھے جو علامہ اقبال 1907 سے پیش کرتے آ رہے تھے اور جن کی تکمیل اسی برس اُن کی مثنوی ’رموزِ بیخودی‘ میں ہوئی تھی۔


جولائی 1918میں ہندوستان کے آیندہ آئین کے لیے وزیرِ ہند لارڈ مونٹیگو اور وائسرائے چیمسفورڈ کی تیار کی ہوئی اسکیم شائع ہوئی۔ یہی اسکیم اگلے برس برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہو کر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 کے نام سے نافذ ہو گئی جسے ہندوستان کی تاریخ میں ’’1919 کا آئین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں میثاقِ لکھنؤ والی اسکیم  کے کچھ اصول یہ کہہ کر شامل کیے گئے کہ چونکہ کانگرس اور مسلم لیگ متفق ہیں اس لیے شامل کیے جا رہے ہیں۔ لیکن سیلف گورنمنٹ نہیں دی گئی۔


کانگرس میں شروع سے اعتدال پسند رہنماؤں کی اکثریت رہی تھی جن کی واضح پالیسی یہی تھی کہ سیلف گورنمنٹ فوری طور پر حاصل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ آہستہ آہستہ بھی مل سکتی ہے۔ ان رہنماؤں نے مونٹیگو چیمسفورڈ اسکیم کا خیرمقدم کیا لیکن اب کانگرس پر سیاسی’’انتہاپسند‘‘ حاوی ہو چکے تھے۔ اس لیے پرانے رہنماؤں کو کانگرس چھوڑ کر نئی جماعت بنانا پڑی جس کا نام نیشنل لبرل فیڈریشن تھا۔ یہ لبرل پارٹی، ماڈریٹ پارٹی اور معتدل یا اعتدال پسند طبقہ بھی کہلانے لگی۔


کانگرس اب سیاسی انتہاپسندوں کے تصرف میں آ گئی ۔ ان کا مطالبہ بھی برطانوی سلطنت میں رہتے ہوئے سیلف گورنمنٹ حاصل کرنا ہی تھا لیکن مرحلہ وار کی بجائے فوری طور پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس نئی کانگرس نے مونٹیگو چیمسفورڈ اسکیم کو ناکافی قرار دیا۔ مسلم لیگ نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا، اور کافی عرصے تک کانگرس اور مسلم لیگ کے اجلاس ساتھ ساتھ ہوتے رہے۔


ہندوؤں میں تیسرا طبقہ مذہبی انتہاپسندوں کا تھا جن کی نمایندہ تنظیم ہندو مہاسبھا تھی لیکن یہ لوگ عام طور پر کانگرس میں بھی شریک ہوتے تھے۔



چوتھا طبقہ دہشت گردوں پر مشتمل تھا جو سازشیں کر کے ہندوستان سے انگریزی حکومت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ 1917 میں رُوس میں ایک خونریز انقلاب کے بعد کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو یہ طبقہ بھی کمیونزم کی طرف جھکنے لگا (اس زمانے میں ہندوؤں کے باقی تینوں طبقے ان کی مذمت کرتے تھے لیکن آزادی کے بعد یہ لوگ بھی بھارت کے ہیرو قرار پائے ہیں)۔


1918 میں پہلی جنگِ عظیم ختم ہوئی۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ اس وقت برطانیہ میں ایسے لوگ اقتدار میں تھے جنہوں نے وعدہ خلافی کی حیرت انگیز مثالیں قائم کیں۔

جنگ کے دوران عربوں کو ساتھ ملانے کے لیے ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جنگ کے بعد عرب اور فلسطین انہیں دے دیا جائے گا۔ یہ علاقے اس وقت ترکی کی عثمانی سلطنت کے ماتحت تھے۔ عربوں نے انہیں ’’آزاد‘‘ کروانے کی خاطر ترکوں کے خلاف اتحادی طاقتوں کا ساتھ دیا (جن میں انگریز بھی شامل تھے)۔ عین اسی وقت برطانوی وزیر آرتھر بالفور صیہونی تنظیم سے وعدہ کر رہے تھے کہ جنگ کے بعد فلسطین میں یہودی ریاست قائم کی جائے گی۔



ہندوستانی مسلمانوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ جنگ کے بعد ترکی پر قبضہ نہیں کیا جائے گا (ترکی اس جنگ میں اتحادیوں کے خلاف محوری طاقتوں کا ساتھ دے رہا تھا جن میں جرمنی بھی شامل تھا)۔ جنگ کے بعد  نہ صرف جرمنی کے خلاف سخت ترین اقدامات کیئے گئے بلکہ ترکی کے بھی حصے بخرے کر کے اسے اتحادی طاقتوں  کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ہندوستان میں ایسے قوانین نافذ کیے گئے جن کے رُو سے لوگوں کو وجہ بتائے بغیر گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ یہ قوانین رولیٹ بِل کہلائے۔  


ان حالات میں موہنداس کرم چند گاندھی ہندوستان  کے اُفق پر چھا گئے۔ وہ ایک نوجوان بیرسٹر کی حیثیت میں 1893 میں جنوبی افریقہ گئے تھے اور 1915 تک زیادہ تر وہیں رہے۔ اس دوران انہوں نے وہاں کی انگریز حکومت سے مطالبہ کیا کہ چونکہ اونچی ذات کے ہندوستانی بھی یورپی اقوام کی طرح آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انہیں وہاں انگریزی حکومت کے نائب  اور مددگار کی حیثیت ملنی چاہیئے،  اور مقامی سیاہ فام باشندوں اور نچلی ذات کے ہندوستانی مہاجرین پر برتری حاصل ہونی چاہیئے۔ چونکہ اس زمانے میں نسلی امتیازات کی بات کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اس لیے اس تحریک کو جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں کے حقوق کی جدوجہد کہا گیا۔ ہندوستان واپس آنے تک گاندھی کافی مشہور ہو چکے تھے۔ واپسی کے بعد مہاتما کہلانے لگے۔

جلد ہی انہیں سیاسی انتہاپسندوں کے قائد کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ 1919 میں انہوں نے یہ پروگرام پیش کیا کہ عدالتوں اور سرکاری اداروں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ تشدد سے گریز کرتے ہوئے صرف قوانین کی خلاف ورزی کی جائے۔ ساتھ ہی روحانی قوّت میں اضافہ کیا جائے۔ اس پروگرام کے ساتھ جو مختلف الفاظ وابستہ ہوئے وہ ستیہ گرہ، عدم تشدد، خاموش مقابلہ، عدم تعان اور ترکِ موالات تھے (موالات کا مطلب تعاون اور ترکِ موالات کا مطلب عدم تعاون  ہے)۔

عمل  درآمد کے پہلے دن ہی دہلی میں فسادات ہوئے  کیونکہ گاندھی نے روزہ رکھنے کا حکم دیا اور اُن کے کارکنوں نے کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے والوں پر حملہ کر دیا۔ نتیجے میں کئی لوگ مارے گئے۔ اس  کے بعد اس قسم کے واقعات معمول بن گئے۔ اسی دوران اپریل 1919 میں امرتسر میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آیا جہاں جنرل ڈائر کے حکم پرفوج نے ایک سیاسی جلسے پر گولیاں چلا کر سیکڑوں لوگوں کو ہلاک کر دیا۔


1920 میں  گاندھی کے کہنے پر کانگرس کے منشور میں تبدیلی کی گئی۔ اس وقت تک کانگرس کا مقصد برطانوی سلطنت کے اندر سیلف گورنمنٹ  حاصل کرنا تھا۔ اب’’برطانوی سلطنت کے اندر‘‘ رہنے کی شرط ہٹا دی گئی۔ اس کی وضاحت  یوں کی گئی کہ یہ بات حالات پر منحصر ہے کہ سوراج یعنی سیلف گورنمنٹ برطانوی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے حاصل ہو یا اس سےعلیحدہ ہو کر۔


اس زمانے میں مسلم لیگ کا ایک مستقل صدر ہوتا تھا جو تین برس کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔ سالانہ اجلاس کا صدر علیحدہ ہوتا تھا جو صرف ایک سال کے لیے ہوتا تھا۔ 1916 میں جناح نے صرف سالانہ اجلاس کی صدارت کی تھی لیکن 1919کے اواخر میں میں وہ مستقل صدر منتخب کیے گئے اور پھر کئی دفعہ منتخب ہو کر 1930 تک اس عہدے پر رہے۔

مسلمانوں کی دو نئی سیاسی جماعتیں خلافت کانفرنس اور جمعیت العلمأکے نام سے وجود میں آئیں اور مسلم لیگ پر دباؤ ڈالنے لگیں کہ عدم تعاون  کا پروگرام اپنایا جائے۔ جناح اس حد تک مخالف تھےکہ کچھ مہینے بعد جب  کانگرس  نے یہ پروگرام اپنایا تو انہوں نے کانگرس سے استعفا دے دیا۔ لیکن جب یہی پروگرام مسلم لیگ کی کونسل کے سامنے رکھا جا رہا تھا تو اُنہوں نے کہا:

فیصلہ آپ پر منحصر ہے … کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اپنی طاقت کا اور سوالات کے اچھے برے پہلوؤں کا اندازہ لگائیے۔ لیکن جب آپ ایک دفعہ آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیں تو پھر کسی بھی قسم کے حالات میں پیچھے  نہیں ہٹنا ہے۔

مسلم لیگ کی کونسل نے اس شرط کے ساتھ عدم تعاون کے پروگرام  کی حمایت کر دی کہ اس پر عمل کرنے کے لیے عام مسلمانوں پر صرف انہی علاقوں میں زور ڈالا جائے گا جہاں خلافت کانفرنس اس پروگرام کو کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے کے وسائل رکھتی ہو۔



1920 سے 1922 کا عرصہ ہندوستانی سیاست میں واحد موقع  تھا جب ہندوؤں اور مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر کسی تحریک میں اکٹھے حصہ لیا۔ یہ عدم تعاون کی تحریک تھی۔ ہندوؤں کا مطالبہ تھا کہ 1919 کا آئین  منسوخ کر کے فوری طور پر ’’سوراج‘‘ دیا جائے (یعنی سیلف گورنمنٹ یا آزادی)۔

مسلمان بھی یہ مطالبہ کر رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے تین مطالبات اور بھی تھے۔ یہ مسلم لیگ کی ایک قرارداد میں بھی بیان کیے گئے تھے۔ اور علی برادران (مولانا محمد علی جوہر اور اُن کے بھائی شوکت علی) نے بھی  اپنی تقاریر میں انہیں واضح کیا:

  1. اسلام کے مطابق یہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ جزیرۃ العرب کا علاقہ جس میں فلسطین بھی شامل ہے، اُن کے قبضے میں رہے۔ اس لیے اس علاقے پر غیرمسلموں کی حکومت قائم نہ کی جائے۔
  2. ترکی پر یورپی اقوام نے قبضہ کر لیا تھا اور عثمانی خلیفہ نے بھی اپنا ملک ان کے حوالے کر کے صرف مسلمانوں کا روحانی پیشوا بننا قبول کر لیا تھا۔ ترکی میں فوج نے اس  کے خلاف بغاوت کی تھی جس کی قیادت غازی مصطفےٰ کمال پاشا کر رہے تھے (بعد میں اُن کا لقب اتاترک ہو گیا)۔ مسلم لیگ، خلافت کانفرنس اور جمعیت العلمأنے کہا کہ ’’خلافت ‘‘ مسلمانوں کا مرکزِ شخصی (پرسنل سنٹر) ہے۔ اِسے صرف روحانیت تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے پاس اِتنا دنیاوی اقتدار ہونا چاہیے کہ جزیرۃ العرب کا انتظام سنبھال سکے۔
  3.  ترکی کی آزادی برقرار رہنی چا ہیئے۔

برصغیر کے مسلمانوں کے ان مطالبات کو تحریکِ خلافت کا نام دیا گیا۔ انہوں نے ترکوں کی مدد کرنے کے لیے دل کھول کر چندہ دیا ۔ پورے پورے خاندانوں نے فاقے کیے تاکہ رقم بچا کر ترکی بھیجی جائے اور بہت سے لوگوں نے گھربار بیچ ڈالے۔ اِس ایثار کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ چونکہ ہندو مسلمانوں کا ساتھ دے رہے تھے اس لیے مسلم لیگ نے بھی قرارداد منظور کی کہ مسلمان کوشش کریں کہ بقرعید پر گائے کی بجائے دوسرے جانوروں کی قربانی دے دیں تاکہ ہندوؤں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔

عام مسلمانوں نے ہندوؤں سے جس محبت کا اظہار کیا اور جس کی بہت سے علمائے کرام نے تائید کی، اُس کی  کیفیت اُس عہد کے نوجوان امین زبیری نےاس طرح بیان کی ہے:

ہزاروں مسلمانوں نے قربانیٔ گاؤ [گائے] سے احتراز کیا، مسلمانوں نے مسلمانوں سے گائیں چھین کر ہندوؤں کو دے دیں۔ قصابوں کو ذبیحہ گاؤ سے روکا گیا، رضاکاروں نے چھری کے نیچے سے قربانی کی گایوں کو چھڑایا اور اگر ہو چکی تو اُس کو بیکار کر دیا۔ مسلمانوں نے ماتھوں پر تِلک اور قشقے لگائے، گنگاجی پر پھول اور بتاشے چڑھائے … رامائن کی پُوجا میں شریک ہوئے ، جامع مسجد  دہلی کے ممبر پر شردھانند [آریہ سماج کے ایک سخت اسلام دشمن واعظ] سے تقریر کروائی  … مندروں میں دعائیں مانگیں … ستیاگرہی روزے رکھے … وید کو اِلہامی کتاب اور حضرت موسیٰ کا لقب کرشن تسلیم کیا … رام لچھمن کو تاج پہنایا … گاندھی جی مثل امام مہدی کہے گئے۔

 علی برادران اس تحریک کے سب سے روشن چہرے تھے۔ انہوں نے انگریز فوج کی نوکری کو حرام قرار دیا اور بغاوت کے جرم میں قید کی سزا  پائی۔ اس زمانے میں اقبال سہارنپوری کا لکھا ہوا نغمہ بچے بچے کی زبان پر تھا:

بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہیں شوکت علی بھی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو


پھر بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ جہاں تک ہندوؤں کے اِس مطالبے کا تعلق تھا کہ 1919 کے آئین کی بجائے فوراً سوراج دے دیا جائے،  نہ صرف وہ آئین رائج ہوا بلکہ اس کے تحت ہندوستان میں پہلی دفعہ عام انتخاب  کا رواج  بھی ہوا (اگرچہ تمام لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا)۔ یہ اتخابات  1920، 1923، 1926، 1930 اور 1934 میں ہوئے۔ چونکہ  کانگرس اور مسلم لیگ عدم تعاون کے  حق میں فیصلے دے چکی تھیں، اس لیے دونوں میں سے  کوئی بھی بحیثیت جماعت حصہ نہ لے سکی۔ ان کے بعض رہنماؤں نے آزاد اُمیدواروں کے طور پرحصہ لیا (ان میں جناح بھی تھے)۔

مسلم لیگ کا مؤقف یہ رہا کہ ان انتخابات کے ذریعے اصل اختیارات بیوروکریسی اور اُس بااثر طبقے کے سپرد  کیے  گئے ہیں جو ہندوستان کے مفاد کو چھوڑ کر صرف انگریز حکمرانوں کا  خیال رکھے۔



اسی زمانے سے اقبال نے بھی ’’مغربی جمہوریت‘‘ کی مخالفت شروع کی ورنہ اس سے پہلے انہوں نے جمہوریت کو ہمیشہ اسلام کا نصبُ العین کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ برطانیہ ایشیا میں جمہوریت کو فروغ دے کر بہت بڑی خدمت انجام دے رہا ہے۔ وہ آیندہ بھی جمہوریت ہی کے قائل رہے، لیکن آیندہ انہیں حقیقی جمہوریت اور ’’مغربی جمہوریت‘‘ میں فرق  کرنا پڑا (وہی فرق جو ہندوستان میں چت رنجن داس اور جناح، امریکہ میں فولیٹ اور برطانیہ میں لارڈ ہالڈین بھی کر رہے تھے)۔


1921 کے اواخر تک ہندوؤں  کی حد تک عدم تعاون کی  تحریک دم توڑ چکی تھی۔ فروری 1922 میں گاندھی کے کارکنوں نے چوری چورا کے قصبے میں پولیس کے سپاہیوں کو تھانے میں بند کر کے زندہ جلا دیا تو گاندھی نے ’’متاثر‘‘ ہو کر فوراً تحریک بند کر دی۔


خلافت  کے تحفظ کا بندوبست اس طرح ہوا کہ ستمبر 1922 تک غازی مصطفےٰ کمال پاشا نے دشمنوں کے خلاف ایسی زبردست فتوحات حاصل کر لیں کہ یورپی طاقتیں اُن سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ جلد ہی حملہ آور ترکی سے نکل گئے اور وہاں قومی پارلیمنٹ قائم ہو گئی۔ اس نے اقتدار عثمانی خلیفہ کو واپس کرنے کی بجائے کچھ عرصہ انہیں صرف روحانی پیشوا کے عہدے پر رکھا۔ پھر 3 مارچ 1924 کو بالکل ہی منسوخ کر دیا۔



اقبال نے پرزور تائید کی اور کچھ عرصہ بعد لکھا:

کیا یہ ضروری ہے کہ خلافت ایک فردِ واحد کے سپرد کی جائے؟ ترکی کا اجتہاد یہ ہے کہ اسلام کی روح کے مطابق خلافت یا امامت افراد کے ایک گروہ یا ایک منتخب اسمبلی کو بھی تفویض کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، مصر اور ہندوستان کے علمائے دین نے ابھی تک اس کے بارے میں اپنی رائے ظاہر  نہیں کی ہے۔ ذاتی طور پر میں یہ مانتا ہوں کہ ترکی کا نقطۂ نظر بالکل درست ہے۔

ترک  حکومت نے یہ بھی واضح کیا کہ تمام مسلمان ممالک کا ایک مرکزی حکومت کے ماتحت ہونا لازمی نہیں ہے بلکہ اسلام  کا  اصل مقصد آزاد ریاستوں کا ایک خاندان قائم کرنا ہے۔ اس طرح قدرت نے ترکوں کی زبانی اُس بات کی تصدیق کروائی جو اقبال 1908 سے کہتے آ رہے تھے۔ اب انہوں نے لکھا:

ان زاویوں سے جدیداسلام کا رجحان صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے۔ فی الحال ہر مسلمان قوم اپنے وجود کی گہرائی میں ڈوب جائے، عارضی طور پر اپنی نگاہ صرف اپنے آپ پر مرکوز کر دے یہاں تک کہ سب اتنی  مضبوط  اور طاقتور ہو جائیں کہ زندہ جمہوریتوں کا ایک خاندان بنا سکیں… مجھے لگتا ہے کہ خدا آہستہ آہستہ ہم پر یہ حقیقت ظاہر کر رہا ہے کہ اسلام نہ نیشنلزم ہے [یعنی ہر ریاست کا ایک دوسرے سے بالکل ہی لاتعلق ہونا] اور نہ ہی استعمار ہے [یعنی مختلف ممالک کا ایک مرکزی حکومت کے ماتحت ہونا] بلکہ اقوام کی ایک جمعیت ہے۔


Ataturk addresses the United States

یہ بات خود بخود ظاہر ہے کہ ایک ریاست ایک سے زیادہ خاندانوں  میں بھی شامل ہو سکتی ہے۔ مثلاً برطانوی دولتِ مشترکہ کا تصوّر بھی یہی ہے کہ ریاستوں کا ایک خاندان ہو۔ اُس زمانے میں ہندوستانی رہنمااسی کی تمنا کر رہے تھے اور اقبال نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ آزادی کے موقع پر جناح نے دولتِ  مشترکہ کو ایک ’’عظیم آئیڈیل‘‘ بھی قرار دیا۔ چنانچہ اقبال اور جناح  نے اپنی مسلم ریاست کے بارے میں یہی سوچا تھا کہ وہ بیک وقت مسلم خاندان اور برطانوی خاندان کا حصہ ہو گی (پاکستان اور بنگلہ دیش آج بھی دولتِ مشترکہ میں شامل ہیں)۔


فیاض ہاشمی، جن کے نغموں سے اس سیریز کی اکثر پوسٹس شروع ہو رہی ہیں، 1920 میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ اس لیے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے اس ماحول میں آنکھ کھولی جس کی ہم اس وقت بات کر رہے ہیں۔ میں یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ انہوں نے کس حد تک اس ماحول کا اثر قبول کیا اور کس حد تک یہ اُن کی تخلیقات میں ظاہر ہوا۔ اس حوالے سے ایک اقتباس ضرور پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اُن کی لکھی ہوئی ایک فلم “خدا اور محبت” (1978) سے ہے:


https://www.facebook.com/Khurram.Ali.Shafique/videos/492361754238730/

دسمبر 1922 میں چِت رنجن داس نے صوبہ بہار کے شہر گَیا میں کانگرس کے اجلاس کی صدارت کی۔ خطبۂ صدارت میں انہوں نے میری پارکر فولیٹ کی کتاب نئی ریاست کے اقتباسات  بھی پیش کیئے اور کہا کہ یہ وہی خیالات ہیں جو وہ خود بھی 1907 سے ہندوستان میں پیش کر رہے ہیں۔ چند روز بعد اقبال نے کسی کو خط میں لکھا کہ انہوں نے اسرارِ خودی میں جو روحانی اصول پیش کیا تھا، داس نے اپنے خطبۂ صدارت میں ’’اُسی رُوحانی اصول کو سیاسی رنگ میں پیش کیا ہے۔‘‘


کانگرس کی جلسہ گاہ، 1922

اگر داس کے خطبۂ صدارت کے ساتھ اُس پروگرام کو شامل کر لیا جائے جس پر انہوں نے اس خطبے کے فوراً بعد عمل شروع کر دیا تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بتایا کہ ہندوستان کو آزادی دلوانے کا طریقہ یہ ہے کہ:

  1. اقلیتوں کو ضمانت دی جائے کہ جہاں تک ممکن ہوا اُن کے حقوق اُن کی مرضی کے مطابق  طے کیے جائیں گے۔
  2. انتخاب میں حصہ لیا جائے۔ یہ انتخاب صرف ایک نکاتی ایجنڈا کی بنیاد پر ہو کہ ہندوستانیوں کو اپنے ملک کا آئین خود بنانے کا حق چاہیے۔
  3. پوری قوم متفق ہو کر ایک ہی جماعت کو ووٹ دے تاکہ یہ جماعت اسمبلی کی تقریباً تمام سیٹیں حاصل کر لے۔
  4. انتخاب کے بعد یہ جماعت اسمبلی میں بیٹھنے سے انکار کر دے۔
  5. اس طرح انگریزوں پر ظاہر ہو جائے گا کہ جب تک وہ ہندوستان کو اپنی مرضی سے آئین بنانے کا حق نہیں دیتے، اُس وقت تک کوئی منتخب اسمبلی کام نہیں کر سکے گی۔ برطانوی پارلیمنٹ مجبور ہو گی کہ وہ ہندوستان کو خود آئین بنانے کا حق دے دے۔

داس اس پروگرام پر پوری طرح عمل نہ کر سکے کیونکہ کانگرس نے انکار کر دیا۔ البتہ جناح سے جہاں تک ہو سکا انہوں نے داس کا ساتھ دیا۔

دسمبر 1923 میں داس نے کلکتہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان سمجھوتہ کروایا جسے میثاقِ بنگال کا نام دیا گیا۔ نہ صرف اس میں مسلمانوں کے پرانے مطالبات تسلیم کیے گئے بلکہ بعض نئی مراعات کا اضافہ بھی کر دیا۔  سب سے اہم بات یہ تھی  کہ بنگال میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے صوبائی اسمبلی، لوکل باڈیز اور سرکاری ملازمتوں  وغیرہ میں مسلمانوں کا ساٹھ فیصد حصہ تسلیم کیا گیا۔ چونکہ وہ اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ تھے اس لیے انہیں آگے لانے کے لیے مزید مراعات کا اضافہ کیا گیا۔

اس میثاق پر عمل نہ ہو سکا جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ صرف ڈیڑھ برس بعد جون 1925 میں داس انتقال کر گئے۔ پھر بھی اس میثاق کی اہمیت نظرانداز نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے پہلے  میثاقِ لکھنؤ  کے وقت مسلمانوں کو یہ اُمید ہی ترک کرنی پڑی تھی کہ جہاں اُن کی اکثریت ہے وہاں  بھی جمہوری حکومت  کی باگ ڈور کبھی اُن کے ہاتھوں میں آئے گی۔ اگرچہ بعض مسلمانوں کی طرف سے کہا  جا رہا تھا کہ اس کی تلافی ہونی چاہیے لیکن  بہرحال وہ ایک اقلیتی قوم کے افراد کی آوازیں تھیں۔ داس نے اکثریتی قوم کے ایک بااثر رہنما کے طور پر مسلمانوں کے ارمان کو جس طرح زندہ کیا اُس کے گہرے نفسیاتی اثر سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

 چنانچہ اُن کی وفات پر محمد علی جوہر نے لکھا، ’’داس نے جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا، اُسے کوئی شریف مسلمان نہیں بھول سکتا…خدا ہم سب کو توفیق دے کہ جس طرح وہ اپنے قرضہ سے سبکدوش ہوا ہم بھی اُس کے قرضہ سے سبکدوش ہوں۔‘‘


اِس دوران ہندومسلم فسادات کا بدترین دور شروع ہو چکا تھا۔ فسادات پہلے بھی ہوئے تھے لیکن 1923 سے اتنے تواتر کے ساتھ  اور اتنے خوفناک پیمانے پر ہونے لگے کہ چند برسوں میں خانہ جنگی جیسی حالت محسوس کی جانے لگی۔

ہندو مہاسبھا کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ میثاقِ لکھنؤ نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کر دئیے تھے۔ مسلم رہنماؤں کے مطابق اصل وجہ مہاسبھا کا اپنا رجحان، مسلمانوں کے خلاف اس کا اشتعال انگیز رویہ اور اس کے سرکردہ رہنماؤں کی طرف سے شروع کی ہوئی سنگھٹن اور شدھی کی تحریکیں تھیں (سنگھٹن کا مقصد ہندوؤں کو  لڑائی کی تربیت دینا اور شدھی کا مقصد مسلمانوں کو دوبارہ ہندومت میں داخل کرنا تھا)۔

ہندو مہاسبھا کے مؤرخ کے مطابق داس کے میثاقِ بنگال نے بھی ہندوستان بھر کے ہندوؤں کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔ 

1924 میں پنجاب کے ممتاز ہندو رہنما لالہ لاجپت رائے نے اپنے سیاسی مضامین کے ایک اہم سلسلے میں یہ تجویز پیش کی کہ اگر مسلمان اپنے حقوق سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہیں تو پنجاب اور بنگال کو  تقسیم کر دیا جائے، ہندوستان بھر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے علاقے ایک دوسرے سے علیحدہ کر دئیے جائیں، اور آبادیوں کو منتقل کر کے ملک کو ’’ہندو ہندوستان‘‘ اور ’’مسلم ہندوستان‘‘ میں تقسیم کر دیا جائے۔


لندن میں امپیریل کانفرنس کے اجلاس 1907 کے بعد 1911، 1917، 1918، 1921،اور 1923 میں ہو چکے تھے۔ ساتواں اجلاس اکتوبر اور نومبر 1926 میں ہوا۔ اس اجلاس میں کانفرنس نے اپنے نصبُ العین کے لیے کامن ویلتھ (دولتِ مشترکہ)  کی اصطلاح کو باقاعدہ  طور پر اختیار کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ جن سابقہ کالونیوں کو ڈومینین  کا درجہ دے دیا جائے وہ عملاً خودمختار ہیں:

یونائیٹد کنگڈم اور ڈومینینز برطانوی سلطنت کے اندر خودمختار ملتیں  ہیں، برابر حیثیت کی حامل، اپنے داخلی یا خارجی امور میں ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی پابندی سے آزاد، اگرچہ تاج سے مشترکہ وفاداری کے ذریعے آپس میں متحد، اور اپنی مرضی سے اقوام دولتِ مشترکۂ برطانیہ کی رکنیت کی حامل۔


نومبر 1926 میں ہندوستان میں تیسری دفعہ عام انتخاب ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ  ہندوستانی عوام نے انتخاب میں بھرپور حصہ   لیا۔ اس  طرح  اس دفعہ جداگانہ نیابت کا اصول معاشرے میں عملی طور پر بھی نافذ ہو گیا۔ علامہ اقبال بھی لاہور کے شہری حلقے سے مسلم امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے۔


عام نشستوں پر ہندو مہاسبھا نے واضح برتری حاصل کی، جس کے رہنماؤں میں ہنڈت مدن مالوی ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔

یہ بات اس لیے حیرت انگیز تھی کہ متعصب انتہاپسند لوگ ہر قوم میں ہوتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی تھے، لیکن مسلمانوں میں انہیں کبھی مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی (تحریکِ خلافت پر مذہبی انتہاپسندی کا الزام درست ہو یا نہیں، بہرحال اپنے دورِ عروج میں یہ تحریک مذہبی تعصب کی نہیں بلکہ حد سے بڑھی ہوئی ہندونوازی کی نمایندہ تھی)۔ جبکہ ہندوؤں کی طرف سے بدترین تعصب، نسل پرستی کے بھیانک ترین فلسفے اور مسلمانوں کے خلاف حد سے بڑھی ہوئی زہریلی اور گھٹیا قسم کی تحریروں کے نمونے شروع سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی طرف سے سامنے آ رہے تھے اور 1926 میں ہندو قوم کی باگ ڈور بھی اسی طبقے کے ہاتھ میں آ گئی۔


1926 کے آخر میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت شیخ عبدالقادر نے کی (جنہیں آج سب سے زیادہ اس حوالے سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ رسالہ مخزن کے بانی تھے جس میں اقبال کی نظمیں پہلے پہل شائع ہوئیں اور بانگِ درا کا دیباچہ بھی انہی کا لکھا ہوا ہے)۔ اجلاس کے خطبۂ صدارت میں انہوں نے گزشتہ برسوں کے سیاسی اتار چڑھاؤ کا تفصیل سے جائزہ لیا اور کہا:

مہاتما گاندھی کی طرح مسٹر داس آنجہانی کا بھی یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی اِن دو بڑی جماعتوں [ہندوؤں اور مسلمانوں] کا اتحاد ضروری ہے، پس جو کام یہ دونوں عالی ظرف اصحاب کر رہے تھے وہ رُک گیا۔ اس کی جگہ ایک اور مخالفانہ تحریک پیدا ہو گئی جس کے حامی پنڈت مدن موہن صاحب اور جناب لالہ لاجپت رائے جیسے صاحبان ہیں جو ہمیں پھر اس فضائے سیاسی میں واپس  لے جانا چاہتے ہیں جس کو ہم نے اپنی دانست میں ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا تھا۔


آخر میں میری درخواست ہے کہ ہم ایک کچھ دیر کے لیے اس نکتے پر غور کریں کہ 1924 تک مسلم دنیا یہ مقصد اپنا چکی تھی کہ تمام مسلم ریاستیں ایک خاندان کی طرح آپس میں منسلک ہوں جس میں ہر ریاست برابر کی اہمیت رکھتی ہو۔ اگر واقعی ریاستوں کا ایک ایسا خاندان وجود میں آ جائے تو اس خاندان سے تعلق رکھنی والے ہر ریاست کے لوگ دوسری ریاست کے بارے میں کس قسم کے جذبات محسوس کریں گے؟

مجھے اُمید ہے کہ آپ بھی مجھ سے اتفاق کریں گے کہ یہ الفاظ اُن جذبات کو مکمل طور پر بیان کرتے ہیں:

تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے،
یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے!

نگاہوں میں تُو ہے، یہ دل جھومتا ہے
نہ جانے محبت کی راہوں میں کیا ہے!
جو تُو ہمسفر ہے تو کچھ غم نہیں ہے

وہ آئیں نہ آئیں، جمی ہیں نگاہیں
ستاروں نے دیکھی ہیں جُھک جُھک کے راہیں
یہ دل بدگماں ہے، نظر کو یقیں ہے!




آج کی قسط پڑھنے کے بعد یہ ضرور بتائیے گا کہ کیا آپ کے خیال میں اِس سے جنوبی ایشیا کے موجودہ حالات کو سمجھنے میں کچھ مدد ملتی ہے؟