وزیراعظم پاکستان کا دورۂ امریکہ


3 مئی 1950 کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں اور خاتونِ اول بیگم رعنا اپنے وفد کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی کے ائرپورٹ پر اُترے۔ یہ ایک پاکستانی وزیراعظم کا پہلا امریکی دورہ تھا۔ راستے میں وہ برطانیہ میں بھی رُکے تھے اور صدرِ امریکہ ہیری ٹرومین نے اپنا نجی طیارہ “انڈیپنڈنس” وہیں اُنہیں لینے کے بھجوا دیا تھا۔



صدر ٹرومین، استقبال کے لیے رن وے پر موجود تھے۔ یہاں ہم انہیں قائدملت سے ہاتھ ملاتے دیکھ سکتے ہیں۔ درمیان میں صدر کی اہلیہ بیس ٹرومین کھڑی ہیں۔


ائرپورٹ پر وزیراعظم کو مکمل فوجی اعزاز پیش کیا گیا۔


اس کے بعد صدر اُنہیں اپنے ساتھ لے کر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔


واشنگٹن میں پاکستانی وفد کا قیام بلئر ہاؤس میں تھا جہاں ریاست کے اہم ترین مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ جیسا کہ نیچے والی تصویر میں نظر آ رہا ہے، اِس موقع پر وہاں امریکی پرچم کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔

ٹرومین یہاں تک چھوڑنے آئے۔ اِس تصویر میں ہم انہیں، ان کی صاحبزادی مارگریٹ، بیگم رعنا، ٹرومین کی اہلیہ بیس اور لیاقت علی خاں کو بلئر ہاؤس کے باہر کھڑے دیکھ سکتے ہیں۔


4 مئی کو وزیراعظم پاکستان نے امریکی سینیٹ سے خطاب کیا۔ انہوں نے قیامِ پاکستان کے پس منظر، اسلامی نظریے اور قراردادِ مقاصد کے اصولوں پر روشنی ڈالنے کے بعد کہا:

“ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں ترقی اور پیشرفت کی کچھ صدیاں ہمیں چھوڑ کر گزر گئی ہیں اس لیے ہمارے وسائل بیکار، ہماری صلاحیتیں بے مصرف اور ہمارے جوہر سُست پڑے رہے ہیں۔ ہم پاکستانی عوام پوری انکساری کے ساتھ لیکن اپنی تقدیر پر کامل ایمان رکھتے ہوئے یہ تہیہ کر چکے ہیں کہ ہم کھوئی ہوئی صدیوں کی تلافی کم سے کم وقت میں کریں گے تاکہ ہماری وجہ سے کبھی ہمارے دوستوں کو پریشانی نہ ہو اور دشمنوں کی نیّت خراب نہ ہو!”

امریکہ کے نائب صدر البن بارکلے نے اِس خطاب کے بعد سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

“آج تک بہت سے معزز مہمان ہماری سینیٹ سے خطاب کر چکے ہیں۔ میں کوئی موازنہ نہیں کرنا نہیں چاہوں گا سوائے یہ کہنے کہ کوئی بھی خطاب نہ اس سے زیادہ ولولہ خیز رہا اور نہ ہی اِس سے زیادہ پسند کیا گیا جتنا کہ ایک نئے آزاد ملک کے نئے وزیراعظم کا یہ خطاب۔”

اس کے بعد قائد ملت نے امریکہ کے ہاؤس آف رپریزنٹیٹیوز سے بھی خطاب کیا جس کی تصویر نیچے دیکھی جا سکتی ہے۔


خصوصی طیارہ پورے دورے میں لیاقت علی خاں اور اُن کے وفد کے لیے وقف تھا۔ نیچے والی تصویر میں ہم وفد کو طیارے کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔


نیویارک پہنچنے پر وزیراعظم پاکستان کے اعزاز میں فوجی پریڈ پیش کی گئی جس کا منظر اوپر نظر آ رہا ہے۔ جبکہ نیچے ہم انہیں سلامی لیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔


اس کے بعد بھی وہ جہاں جہاں گئے، اُن کا شاندار استقبال ہوتا رہا۔ نیچے نظر آنے والی تصویر سان فرانسسکو کی ہے۔


نیچے والی تصویر ہوسٹن ٹیکساس کی ہے۔


وزیراعظم نے کئی شہروں میں عوام اور خواص سے خطاب کیے اور بہت سے اداروں کے معائنے کیے۔ ورجینیا میں امریکہ کو آزادی دلوانے والے جارج واشنگٹن کے گھر کی سیر اُن کے لیے ایک جذباتی تجربہ ثابت ہوئی، جیسا کہ انہوں نے اپنے امریکی سامعین کو بتایا:

“میں وہاں اُس گھر کے پورچ میں کھڑا ہوا … اور میں نے وہ خیالات سوچنے کی کوشش کی جو جارج واشنگٹن کے ذہن میں رہے ہوں گے جب وہ وہاں کھڑے ہوئے تھے: جب ریاستہائے متحدہ ایک کم عمر جمہوریت تھا، جیسا کہ آج پاکستان ہے، ایک غیریقینی دنیا میں اپنے نئے نئے نکلے ہوئے پروں کو آزماتا ہوا۔ اور مجھے پورے وثوق کے ساتھ معلوم ہوا کہ انہوں نے بھی وہی سوچا ہو گا جو ہمارے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے سوچا تھا جب اُن کا عظیم خواب پورا ہوا اور اُن کی قوم کے آٹھ کروڑ عوام کی تقدیر کے نئے مراحل ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہونے لگے تھے۔”


لیاقت علی خاں نے امریکہ میں بہت سی تقاریر کیں لیکن ان سب میں انہوں نے پاکستان کو کم و بیش ایک ہی جیسے الفاظ میں متعارف کروایا۔ ایک نمونہ درج ذیل ہے:

“پاکستان مستحکم ہے۔ یہ مستحکم ہے کیونکہ مسلمان جو اس کے آٹھ کروڑ عوام میں اکثریت میں ہیں، اپنی ایک آئیڈیالوجی رکھتے ہیں جسے ہم اسلامی طرزِ حیات کہتے ہیں۔

“یہ کوئی نئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔ یہ ایمان، روایت اور عقیدے کا ایک مجموعہ ہے جو تیرہ سو سال سے زیادہ عرصے سے انسان کے ورثے کا حصہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب سیاست اور انسانی معاملات پر اِس آئیڈیالوجی کا اطلاق کیا جائے تو لازمی نتیجہ انسانی فلاح کی صورت میں نکلے گا۔”

انہوں نے کہا کہ اسلامی آئیڈیالوجی یا اسلامی طرزِ حیات کا ایک اہم ترین پہلو سماجی انصاف ہے:

“اور سماجی انصاف کیا ہے؟ یہ ایسے اقتصادی حالات کو پیدا کرنا ہے کہ اگر آپ خیرات تقسیم کرنے کے لیے سڑک پر نکلیں تو کوئی اتنا بیکس، اتنا محتاج اور اتنا غریب نہ ہو کہ آپ کی طرف توقعات کے ساتھ دیکھے!”


کولمبیا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کینسس سٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں پیش کیں۔ ان یونیورسٹیوں کے علاوہ انہوں نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے اور ایم آئی ٹی میں بھی طلبہ سے خطاب کیا۔

یہاں ہم انہیں کولمبیا یونیورسٹی کے صدر ڈوائٹ آئزن ہاور سے ڈگری وصول کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں (بعد میں آئزن ہاور امریکہ کے صدر بنے)۔


خاتونِ اول نے بھی امریکہ کے بہت سے کالجوں، اسکولوں اور دوسرے اجتماعات سے خطاب کیا۔ یہاں ہم انہیں نیو یارک ٹاؤن ہال میں “پاکستانی خواتین” کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔


سابق امریکی صدر روزویلٹ کی بیوہ ایلینور ٹیلی وژن پر شو کرتی تھیں۔ وزیراعظم اور خاتونِ اول اُن کے ٹی وی شو میں بھی شریک ہوئے۔


وہ ہالی ووڈ بھی گئے اور فلمی ستاروں سے ایک یادگار خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بنانے والوں نے منشورِ آزادی (Declaration of Independence) لکھا تھا۔ اب امریکہ کے فنکاروں کو چاہیے کہ وہ عالمی منشورِ باہمی انحصار (Universal Declaration of Interdependence) دنیا کے سامنے پیش کریں۔

اِس تصویر میں کارٹون فلموں کے شہرۂ آفاق خالق والٹ ڈزنی، بیگم رعنا کو اپنے کام کے حوالے سے کچھ بتا رہے ہیں۔


لیاقت علی خاں کی خواہش تھی کہ انہیں عام امریکیوں سے ملنے کا موقع بھی ملے۔ یہاں ہم انہیں کینسس سٹی میں ایک امریکی گھرانے کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔

یہاں امریکی بچے اُن سے آٹوگراف لے رہے ہیں اور ریڈ انٹینز کے فینسی ڈریس میں ملبوس ہیں۔

یہاں وہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ ہیں۔


یہاں ایک ہستپال میں داخل بیمار بچی بیگم رعنا کو پھول کا تحفہ دے رہی ہے۔


امریکہ روانگی سے پہلے جب کراچی کی ایک پریس کانفرنس میں لیاقت علی خاں سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ صدر ٹرومین سے ان کے پوائنٹ فور پروگرام کے تحت امداد طلب کریں گے تو اُنہوں نے جواب دیا تھا کہ وہ خیرات مانگنے نہیں جا رہے۔ واپسی کے بعد بھی انہوں نے اسی قسم کے بیانات دئیے۔

اِس لحاظ سے یہ ایک بہت ہی خوش آیند بات ہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کے موقع پر دُنیا نے اُن کی زبان سے اِسی قسم کی بات ایک دفعہ پھر سُنی:



پچھلے چند دنوں میں قوم نے جو خوشی محسوس کی ہے، خدا اُسے سلامت رکھے اور جو نیک توقعات ہم سب کے دلوں میں پیدا ہوئی ہیں وہ پوری ہوں، آمین! کبھی کبھی آگے بڑھنا آسان ہو جاتا ہے اگر یاد ہو کہ ہم نے آغاز کہاں سے کیا تھا۔