برصغیر نے آزادی کیسے حاصل کی؟


کتاب “آزادی”، انشأاللہ 26 جولائی کو کتابی صورت میں آ رہی ہے۔ صفحات کی تعداد 176 ہے اور قیمت شاید پانچ سو روپے ہو گی۔ فی الحال صرف تین سو کی محدود تعداد میں چھپوائی جا رہی ہے۔ کیونکہ مقصد کتاب کو دکانوں پر رکھوانا نہیں ہے۔ صرف ایک محدود حلقے تک پہنچانا مقصود ہے۔ اگر آپ یہ کتاب خریدنا چاہتے ہیں تو ازراہِ کرم ایمیل میں رابطہ کیجیے یا کمنٹ کی صورت میں بتا دیجیے۔ میرے پبلشر خود ہی آپ سے رابطہ کر کے اس بات کو یقینی بنا لیں گے کہ کتاب آپ تک پہنچ جائے۔ ویسے بعض آن لائن اسٹورز پر بھی دستیاب ہو سکتی ہے اور کیا خبر کہ خود ہی چلتی پھرتی ہوئی کسی بک اسٹال پر بھی پہنچ جائے!

جہاں تک آج کی قسط کا تعلق ہے، یہ بڑی سنسنی خیز ہے۔ میں نے اپنی انگریزی کتاب “جناح: مقدمۂ پاکستان” میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ قائداعظم کے لحاظ سے برصغیر کو آزادی صرف اور صرف آ انڈیا مسلم لیگ نے دلوائی۔ اس میں کسی اور جماعت کا کوئی دخل نہیں تھا (کانگرس کا بھی نہیں)۔ آج کی قسط میں یہی بات تفصیل سے آپ کے سامنے آ رہی ہے۔

میں اسے “سنسنی خیز” اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بہرحال اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ قائداعظم کے لحاظ سے حقیقت یہی تھی۔ اب ذرا سوچیے کہ ہم پاکستانیوں میں سے جو لوگ تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں، اگر اُنہوں نے بھی پوری زندگی میں کبھی یہ بات نہ سنی ہو تو پھر اسے سنسنی خیز نہیں تو اور کیا کہا جائے؟


اب جبکہ بات سنسنی خیزی تک پہنچ ہی گئی ہے تو کیوں نہ آج کی ویڈیو کے حوالے سے بھی آپ کو کچھ حیران، پریشان یا کنفیوز کرنے کی کوشش کی جائے!

فیاض ہاشمی کا نغمہ ہے (ویسے مجھے حیرت کہ ابھی تک کسی نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ اِس سیریز کی تمام قسطیں فیاض ہاشمی کے نغموں سے کیوں شروع ہوتی ہیں، کسی اور شاعر کی شاعری سے کیوں نہیں؟ اگر کوئی پوچھتا تو وضاحت کر دی جاتی لیکن چونکہ نہیں پوچھا گیا اس لیے جانے دیجیے)۔ منیر حسین اور آئرن پروین کی آوازوں میں یہ نغمہ فلم “دیوربھابھی” (1967) سے ہے، “اے رات بتا کیا اُن سے کہیں!”

آپ اسے سنتے ہوئے یہ غور کیجیے کہ کیا اِس نغمے میں اِس سوال کا جواب موجود ہے کہ برصغیر نے آزادی کیسے حاصل کی؟ (جی ہاں، سوال بہت عجیب و غریب ہے لیکن میں نے کسی وجہ سے ہی پوچھا ہے اور قسط کے آخر میں جواب بھی موجود ہے۔ لیکن اسکرول ڈاؤن مت کیجیے، فی الحال صرف ویڈیو دیکھ کر ذہن پر زور دیجیے اور پھر پوری قسط پڑھیے)۔



یہ “آزادی” سیریز کی نویں قسط ہے، اور 1946 اور 1947 کے بعض واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔


برصغیر کے مسلمان، جو دنیا کی سب سے بڑی قوم تھے، اپنی بارہ سو سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ 1946 کے عہدنامے کے ذریعے ایک ہوئے۔ اِس لحاظ سے یہ اسلامی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ہے اگرچہ اس پر شاید شعوری  طور پر توجہ نہیں دی جا سکی ہے کیونکہ اس ڈیڑھ سال میں وہ خانہ جنگی بھی اپنے عروج پر پہنچی جو بیس پچیس سال سے ہندوستان میں ہو رہی تھی اور دوسرے بیشمار واقعات  بھی ایسے قیامت خیز تھے  کہ مؤرخین کی توجہ اُنہی پر مبذول رہی ہے۔

مسلمانوں کے اپنے نقطۂ نگاہ سے اگلے ایک ڈیڑھ برس کی مدّت جب تک کہ ہندوستان تقسیم نہیں ہو گیا، وصال کی ایک ایسی کیفیت قرار دی جا سکتی ہے جس کے لیے ایک ہزار برس انتظار کیا گیا تھا۔  اس لیے اگرچہ یہ ایک مختصر مدّت تھی لیکن اس کی پیدا کی ہوئی بیخودی آیندہ کئی صدیوں تک بڑے سے بڑے امتحان سے گزرنے کی صلاحیت پیدا کر گئی ہے۔

خالص ہندوستانی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات کچھ کم اہم نہ تھی کیونکہ مسلمان یہاں کی دوسری بڑی قوم تھے۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ خطے کی اتنی بڑی قوم کا اتحاد پورے خطے کی ترقی کے لیے ایک اہم ترین قدم  ثابت نہ ہوتا، جیسا کہ چِت رنجن داس نے کہا تھا کہ قومیت کا نام ’’ایک دفعہ بیدار ہو جائے تو مجھے اِس سے غرض نہیں ہے کہ کیسے بیدار ہوا تھا۔ اِسے بیدار ہونے دیجیے، اس میں وسعت خود ہی آ جائے گی۔” کیونکہ:

“ہر بات جو سچائی پر مبنی ہے وہ قومی شعور کا حصہ ہے۔‘‘

چونکہ یہ اتحاد صرف برصغیر کی تقسیم کے مقصد کی وجہ سے عمل میں آیا اور کسی دوسرے ذریعے سے بارہ سو سال  میں  کبھی ممکن نہیں ہوا تھا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کا اصول  بالکل صحیح اور قدرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھا۔

ہندوستان کی دوسری قوموں  کو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ انہیں بھی آزادی مل گئی، جیسا کہ آج کی قسط میں دیکھا جائے گا۔



مارچ سے جولائی 1946 تک تین برطانوی وزیروں کا ایک وفد (کیبنٹ مشن) ہندوستان میں رہا اور طویل مذاکرات کے بعد ایک اسکیم پیش کی جو کیبنٹ مشن پلان کہلائی۔ اس کی تشریح پر مسلم لیگ، کانگرس اور برطانوی وفد کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا جو کبھی دُور نہ ہو سکا۔ مسلم لیگ کے مطابق اس معاملے میں حکومت بھی بدعہدی اور غلط بیانی کی مرتکب ہوئی۔



مسلم لیگ کی کونسل نے قائداعظم سے رہنمائی طلب کی لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ایک بالکل نئی صورت حال ہے اس لیے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا جائے۔ چنانچہ کونسل کے فیصلے کے مطابق پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہہ دیا گیا۔



ستمبر1946 میں ہندوستان میں کانگرس کی عبوری حکومت قائم ہوئی (یہ 15 اگست 1947 تک برقرار رہی)۔ چونکہ 1935 کے آئین کا وہ حصہ مسترد کیا جا چکا تھا جس کے تحت ایک مرکزی حکومت بنائی جا سکتی اس لیے یہ حکومت 1919 کے آئین  میں پیش کیے ہوئے اصول میں ہی کچھ ترمیم کر کے بنائی گئی۔

قائداعظم  یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ کانگرس کی گزشتہ پچیس برس کی سیاست ہندوستان کو آگے لے جانے کی بجائے عملاً پیچھے لے گئی ہے۔ مسلم لیگ نے شروع میں اس عبوری حکومت کا بائیکاٹ کیا لیکن اکتوبر میں اس میں مشروط طور پر شامل ہونا قبول کر لیا۔



کیبنٹ مشن کی ایک تجویز یہ بھی تھی کہ برطانوی ہند اور دیسی ریاستوں کے نمایندوں پر مشتمل دستورساز اسمبلی تشکیل دی جائے۔ اُس کے بنائے ہوئے دستور کو برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ چنانچہ یہ اسمبلی ترتیب دی گئی۔

اس اسمبلی کے 389 نمایندوں میں دیسی ریاستوں کے نمایندے بھی شامل تھے۔ برطانوی ہند کے نمایندوں کی کُل تعداد 292 تھی۔ ان میں کانگرس کے 208 اور مسلم لیگ کے 73 نمایندے شامل تھے۔

مسلم لیگ نے اسمبلی کا بائیکاٹ کیا کیونکہ اسمبلی مسلمانوں کے مطالبے کو نظرانداز کر کے بنائی گئی تھی۔ چونکہ اسمبلی کے مسلم ارکان میں سے تین کے سوا سب کا تعلق مسلم لیگ سے تھا، اس لیے برطانوی حکومت کے لیے بھی اب یہ کہنا مشکل تھا کہ یہ اسمبلی ہندوستان کی نمایندہ ہے۔


دسمبر میں برطانوی حکومت نے آخری کوشش کی کہ مسلم لیگ اسمبلی میں بیٹھنے پر تیار ہو جائے۔ لندن میں   حکومت، کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان مذاکرات ہوئے جن سے اس لیے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا کہ تینوں پارٹیاں کیبنٹ مشن پلان  کی تشریح پر متفق نہ ہو سکیں۔


اسی مہینے اسمبلی کا افتتاح ہوا (یہ اسمبلی بہت سی تبدیلیوں کے ساتھ 1952 تک قائم رہی)۔ جواہر لال نہرو نےدعویٰ کیا کہ اسمبلی مقتدر (sovereign) ہے اور جب یہ نیا آئین  بنا لے گی تو ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔



کیا انگریز جانے والے تھے؟

نہرو کا یہ دعویٰ ایک بہت بڑی وجہ ہے اِس غلط فہمی کی کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد انگریز ہندوستان سے جانے پرتیار ہو چکے تھے۔

قائداعظم کے مطابق یہ دعویٰ ہی غلط تھا۔ اس اسمبلی کو مقتدر کہنا عوام کو فریب دینے کے مترادف تھا جبکہ یہ اسمبلی برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے ایک آئین کا مسودہ پیش کرنے کے سوا کوئی اختیار نہ رکھتی تھی اور برطانوی پارلیمنٹ کی مرضی تھی کہ وہ اس کے بنائے ہوئے آئین کو منظور کرے یا نہ کرے۔

برطانوی پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلے پر کوئی اتفاقِ رائے نہ تھا بلکہ حزبِ اختلاف بالکل صاف صاف کہہ رہی تھی کہ ہندوستانی اسمبلی کے تجویز کیے ہوئے آئین کو برطانوی پارلیمنٹ کے تمام قواعد سے گزارا جائے گا۔ خود کانگرس میں یہ کہنے والے موجود تھے کہ برطانوی حکومت ابھی تک گول مول بات کر رہی ہے اور سنہ 1946 ایک سوالیہ نشان پر ختم ہوا ہے۔

اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ انگریز برصغیر سے جانے پر تیار ہو چکے تھے۔

دسمبر 1946 میں بھی قائداعظم اس  مؤقف پر قائم  تھے کہ انگریزوں  کی ہندوستان سے روانگی صرف اُسی وقت ممکن ہو گی جب برصغیر کو تقسیم کیا جائے گا۔ انہوں نے ایک دفعہ پھر کہا کہ موجودہ اسمبلی برطانوی طاقت کے بل پر قائم ہوئی ہے، جس کا مقصد صرف برطانوی سنگینوں کی مدد سے مسلمانوں اور اقلیتوں پر حکومت کرنا ہے۔


چنانچہ مسلم لیگ نے اسمبلی کا بائیکاٹ جاری رکھا اور اسمبلی میں بیٹھنے پر تیار نہ ہوئی۔


اس کے نتیجے میں 20 فروری 1947 کو حکومتِ برطانیہ پہلی دفعہ ہندوستان پر برطانوی راج کے خاتمے کی واضح تاریخ مقرر کرنے پر مجبور ہوئی۔

وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے کہا:

“ملک معظم کی حکومت بڑے افسوس کے ساتھ دیکھتی ہے کہ ہندوستانی جماعتوں میں ابھی تک اختلافات ہیں جو دستورساز اسمبلی کے اُس طرح کام کرنے میں حائل ہو رہے ہیں جیسا کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔ [کینبٹ مشن کے] منصوبے کی روح یہ تھی کہ اسمبلی پوری طرح ایک نمایندہ حیثیت کی حامل ہو…

“بے یقینی کی موجودہ صورت حال خطرے سے خالی نہیں ہے اور اسے غیرمعینہ مدّت تک طُول نہیں دیا جا سکتا۔  ملک معظم کی حکومت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ یہ اس کا ٹھوس ارادہ ہے کہ جون 1948 تک اقتدار ہندوستان کے نمایندوں کے  حوالے کر دے۔

“اگر یہ دکھائی دے کہ اس مدّت تک ایک پوری طرح نمایندہ حیثیت کی حامل دستورساز اسمبلی کی طرف سے اس قسم کا آئین تیار نہیں کیا جا سکے گا تو ملک معظم کی حکومت کو دیکھنا پڑے گا کہ مقررہ تاریخ پر برطانوی ہند میں مرکزی حکومت کس کے سپرد کی جائے، آیا پورے برطانوی ہند کے لیے کسی قسم کی مرکزی حکومت  کو یا بعض علاقوں میں موجودہ صوبائی حکومتوں کو یا کسی اور طریقے سے جو سب سے زیادہ مناسب اور ہندوستان کے عوام کے حق میں بہتر معلوم ہوتا ہو۔”


یہی پہلا موقع تھا جب طے ہوا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ رہے ہیں۔

اس سے پہلے کے کسی واقعے سے یہ مطلب اخذ کرنا درست نہیں ہے کہ انگریزوں کا ہندوستان سے جانا یقینی ہو چکا تھا۔ 20 فروری 1947 ہی وہ  تاریخ ہے جب یہ بات یقینی ہوئی۔

اس اعلان میں ہندوستان چھوڑنے کی بنیادی وجہ یہی بتائی گئی کہ اسمبلی کے داخلی حالات ’’اسمبلی کے اُس طرح کام کرنے میں حائل ہو رہے ہیں جیسا کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔‘‘ یہ حالات مسلم لیگ کی طرف سے اسمبلی کے بائیکاٹ پر مشتمل تھے۔ اس لحاظ سے برصغیر پر برطانوی راج کو ختم کرنا آخر مسلم لیگ ہی کا کام ثابت ہوا اور قائداعظم کی یہ بات  درست ٹھہری کہ ہندوستان کی تقسیم ہی اسے آزادی دلوانے کا واحد ذریعہ ثابت ہو گی۔

25 فروری 1947 کو وزیرِ ہند نے بھی اعتراف کیا:

’’اگر برطانیہ تھوڑے اور عرصے کے لیے بھی ہندوستان  کو پہلے کی طرح برطانوی راج کے قابو میں رکھنے کی کوشش کر بیٹھتا تو پھر لازمی  ہو جاتا کہ ہم دس پندرہ یا اس سے زیادہ سال تک ہندوستان میں رکے رہیں۔‘‘


قائداعظم نے یہ بھی کہہ رکھا تھا کہ انگریز ہندوستان کو تقسیم کرنے کا اصول تسلیم کر لیں تو ہندو قیادت تین مہینے میں مان جائے گی۔ یہ بات بھی سچ نکلی۔ 20 فروری کو وزیراعظم برطانیہ کی طرف سے اعلان ہونے کے ٹھیک ساڑھے تین مہینے بعد 3 جون کو ہندوؤں اور سِکھوں نے تقسیمِ ہند کے منصوبے کی منظوری دے دی۔



اگرچہ ہندو قیادت گزشتہ سترہ برس سے ہر سال یہ عہد دہراتی آ رہی تھی کہ  ہندوستان  کسی بھی صورت اور کسی بھی قسم کے حالات میں ڈومینین نہیں بنے گا اور نہ ہی دولتِ مشترکہ میں شامل ہو گا۔ لیکن اب اس قیادت نے  ڈومینین کے طور پر دولتِ مشترکہ میں شامل ہونا بھی قبول کر لیا۔ اس حیرت انگیز تبدیلی کی ایک وجہ یہ سمجھی گئی ہے کہ مسلم لیگ پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ پاکستان دولتِ مشترکہ کا ڈومینین ہو گا۔

اس طرح دولتِ مشترکہ اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ نسلی امتیازات سے بلند ہوئی جس پر خاص طور سے اُس وقت کے شاہِ انگلستان جارج ششم نے خوشی ظاہر کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ کثیر النسل (multi-racial) ہونے کی صورت میں دولتِ مشترکہ دنیا میں زیادہ اہم کردار ادا کر سکے گا۔

کانگرس خواہ کسی وجہ سے بھی دولتِ مشترکہ میں شمولیت پر راضی ہوئی ہو، بہرحال یہ ظاہر ہے کہ کانگرس سے پہلے یہ رضامندی مسلم لیگ نے ظاہر کی تھی۔ اس لیے دولتِ مشترکہ کو نسلی امتیازات سے بلند ہونے کے قابل کرنے کا سہرا بھی مسلم لیگ کے سر ہے۔


دوسری طرف کانگرس اور ہندو مہاسبھا نے تقسیم کی منظوری دیتے ہوئے جس طرح اپنی پرانی روش برقرار رکھی اُس کی وجہ سے سنگین مسائل پیدا ہوئے جن میں بنگال اور پنجاب کی تقسیم، اس موقع پر ہونے والی بھیانک خونریزی، مسئلہ کشمیر اوردوسری مشکلات شامل ہیں۔



8 جون 1947 کو ہندو مہاسبھا کی آل انڈیا کمیٹی نے جس قرارداد کے ذریعے تقسیم کی منظوری دی اُس میں علاوہ دوسری باتوں کے یہ بھی درج تھا:

“ہندوستان کی وحدت اور سالمیت ہمیشہ سے ہندو مہاسبھا کا اصل اصول رہا ہے، اور یہ کسی بھی صورت میں یا کسی بھی طریقے سے ہندوستان کے ٹکڑے کرنے میں شریک نہیں ہو سکتی خواہ جو بھی حالات ہوں۔ یہ کمیٹی اس بات پر سخت ناگواری کا اظہار کرتی ہے کہ انڈین نیشنل کانگرس نے ہندو حلقہ ہائے انتخاب کو سنجیدگی کے ساتھ یقین دلانے کے بعد کہ وہ ہندوستان کی وحدت کی حفاظت کرے گی اور ہندوستان کے حصے بخرے کیے جانے کی مخالفت کرے گی، کسی ریفرنڈم کے بغیر ہندوستان کی تقسیم منظور کر کے ملک کے ساتھ خیانت کی ہے۔ یہ کمیٹی اعلان کرتی ہے کہ ہندُو،  کانگرس کے اِس فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔ یہ بات ایک دفعہ پھر واضح کی جاتی ہے کہ ہندوستان ایک اور ناقابلِ تقسیم ہے، اور یہ کہ  کبھی امن قائم نہ ہو گا جب تک کہ علیحدہ ہونے والے علاقوں کو واپس انڈین یونین میں شامل کر کے انہیں  مکمل طور پر اس کا حصہ نہ بنا لیا جائے۔”

16 جون 1947 کوآل انڈیا کانگرس کمیٹی نے جس قرارداد کے ذریعے تقسیم کی منظوری دی اُس میں بھی کہا گیا:

“جغرافیے اور  پہاڑوں اور سمندروں نے ہندوستان کو اُس طرح تشکیل دیا ہے جیسا وہ ہے، اور کوئی انسانی قوّت اُس تشکیل کو بدل نہیں سکتی اور اُس کی اٹل تقدیر  کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اقتصادی حالات اور بین الاقوامی امور کے پرزور تقاضے ہندوستان کی وحدت کو اور بھی ضروری بناتے ہیں۔ ہم نے ہندوستان کی جس تصویر سے محبت کرنا سیکھا ہے، وہ ہمارے دل و دماغ میں برقرار رہے  گی۔ آل انڈیا کانگرس کمیٹی کو یقین اور اعتماد ہے کہ جب موجودہ جذبات ماند پڑ جائیں گے تو ہندوستان کے مسائل کو اُن کے صحیح تناظر میں دیکھا جائے گا اور ہر ایک اِس باطل نظریے سے دستبردار ہو جائے گا کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں۔”


تقسیم کے منصوبے میں یہ بھی تھا کہ آسام اور صوبۂ سرحدمیں اِس سوال پر ریفرنڈم ہو گا کہ صوبہ پاکستان میں شامل ہو یا ہندوستان میں۔ لیکن 22 جون 1947 کو کانگرس کی صوبۂ سرحد کی شاخ نے خان عبدالغفار خاں  کی قیادت میں قرارداد منظور کی کہ پختونستان کی آزاد ریاست قائم کی جائے۔

اس کے مطابق فقیر آف ایپی مرزالی خاں نے جلد ہی ایک شرعی حکومت کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد شروع کر دی۔ بعض بیانات کے مطابق وہ عمر بھر ریاستِ پاکستان کے خلاف سرگرم رہے لیکن بعض راویوں کا کہنا ہے کہ بعد میں انہوں نے پاکستان کو تسلیم کر لیا تھا۔

قرارداد کا متن حسبِ ذیل تھا:

سرحد کی صوبائی کانگرس کمیٹی، کانگرس کی پارلیمانی پارٹی، خدائی خدمتگاروں اور زلمی پختونوں کا یہ اجلاس جو بنّوں میں 21 جون 1947 کو خان امیر محمد خاں صدر سرحد صوبائی کمیٹی کی صدارت میں ہوا، متفقہ طور پر قرار دیتے ہیں کہ تمام پختونوں کی ایک خودمختار ریاست قائم کی جائے۔ ریاست کا آئین جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے گا۔ یہ اجلاس تمام پختونوں سے اپیل کرتا ہے کہ اس مقصدِ عزیز کے لیے متحد ہو جائیں اور کسی غیرپختون تسلط کو قبول نہ کریں۔

گاندھی نے فوراً اس تحریک کو آشیرباد دے دی۔

قائداعظم نے 28 جون 1947 کو سخت بیان جاری کیا جس میں انہوں نے  کہا، ’’یہ قرارداد کانگرس کی طرف سے ملک معظم کی حکومت کے 3 جون کے منصوبے کی خلاف ورزی ہے‘‘ جسے نہ صرف کانگرس کمیٹی نے قبول کیا تھا جس میں غفار خاں بھی شامل تھے بلکہ گاندھی نے بھی قبول کیا تھا۔ عبدالغفار خاں اور اُن کے بھائی ڈاکٹر خانصاحب ’’ہارے ہوئے سپاہی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ خوب اچھی طرح سے اُس فریب کو بے نقاب کریں جو وہ صوبۂ سرحد کے مسلمانوں کے ساتھ تقریباً دس برس سے کرتے آ رہے ہیں۔ ماضی میں وہ کانگرس کی بیرونی طاقت کے اشارے پر پٹھانوں کو دھوکہ دینے اور گمراہ کرنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔‘‘

کانگر س کے اِس مطالبے کے حوالے سے کہ ایک شرعی حکومت قائم کی جائے، قائداعظم نے کہا:

“خان برادران [عبدالغفار خاں اور ڈاکٹر خانصاحب] نے اپنے بیانات اور پریس کے سامنے انٹرویوز میں ایک اور زہریلی بات یہ پھیلائی ہے کہ پاکستان کی دستورساز اسمبلی شریعت اور قرآنی احکام کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر دے گی۔

“تیرہ سے زیادہ صدیاں گزر چکی ہیں، اور ہر برے بھلے موسم کے باوجود جس سے مسلمانوں کو گزرنا پڑا ہم  نے نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قران  کو سینے سے لگائے رکھا ہے بلکہ ہم اِن تمام ادوار میں تمام اصولوں پر قائم رہے ہیں۔ اور اب اچانک یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ پاکستان کی دستورساز اسمبلی، جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اعتماد کے قابل نہیں ہے۔”


یہ حالات تھے جب چھبیس سالہ شاعر فیاض ہاشمی کا ایک نیا نغمہ گراموفون رکارڈ پر ریلیز ہو کر مسلمانوں میں ہاتھوں ہاتھ بِکنے لگا: “زمیں فردوس پاکستان کی ہو گی زمانے میں!”

آج اسے سنتے ہوئے اس میں لفظ “اسلامی خلافت” سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے بجائے کسی اور طرزِ حکومت کی دعوت دی جا رہی ہے لیکن یہ غلط فہمی اُس زمانے میں کسی کو نہیں ہو سکتی تھی۔ علامہ اقبال پہلے ہی واضح کر چکے تھے کہ خلافت کا اصل اسلامی نصبُ العین یہی ہے کہ ایک خودمختار مسلم ریاست کی منتخب پارلیمنٹ اس ریاست کی حدود میں خلیفہ کا منصب رکھتی ہے۔

اِس نغمے کو علامہ اقبا ل کے تصورِ خلافت کی تشریح ہی سمجھنا پڑے گا کیونکہ ویسے بھی اِس کا ہر مصرعہ اقبال کی شاعری کی مخصوص اصطلاحات سے لبریز ہے (اِس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ فیاض کے تخلیقی وجدان نے اقبال کا کتنا گہرا اثر قبول کیا تھا)۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اُس زمانے کے جو حالات اوپر بیان کیے گئے ہیں، بالخصوص کانگرس کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کہ پاکستان کا نظامِ حکومت غیراسلامی ہو گا اور قائداعظم کی طرف سے اِس الزام کا جواب، اُن حالات میں کانگرسی پروپیگنڈے کا جواب اور قائداعظم کے مؤقف کی منظوم تشریح اِس سے بہتر نہیں ہو سکتی تھی (خواہ شاعر نے شعوری طور پر نہیں بلکہ وجدانی طور پر ہی کی ہو):

زمیں فردوس پاکستان کی ہو گی زمانے میں
غلامانِ نبیؐ مصروف ہوں جنّت بسانے میں

چمن میں صبحدم کلیاں وضو شبنم سے کر لیں گی
اذاں بلبل کی پاکیزہ ہوائیں دوش پر لیں گی
یہ سن کر حمد گائیں گے پرندے آشیانے میں

پلٹ کر دَور پھر آئے گا اسلامی خلافت کا
کہ مِٹ جائے گا پھر نام و نشاں جبر و حکومت کا
بہت کم وقت ہے کھوئی ہوئی عظمت کو پانے میں!

ملے گی شہپرِ جبریل کی قوّت اسیروں کو
عطا ہو گا شہِ کونینؐ کے دَر کے فقیروں کو
وہ سرمایہ جو ہے محفوظ رحمت کے خزانے میں!



18 جولائی 1947 کو شاہِ برطانیہ نے قانون آزادیٔ ہند (Indian Independence Act) کی توثیق کر دی۔


اس طرح ہندوستان کی آزادی اُسی طریقے سے حاصل ہوئی جو چِت رنجن داس نے 1922 میں بتایا تھا اور جسے علامہ اقبال نے فلسفۂ خودی کا ایک عملی پہلو قرار دیا تھا۔ اس کی تفصیل چوتھے باب میں بیان کی جا چکی ہے اور یہ بھی دیکھا جا چکا ہے کہ کانگرس کی مخالفت کی وجہ سے اُس وقت اس پر پوری طرح عمل نہ ہو سکا تھا۔ اب صرف یہ واضح کرنا ہے کہ مسلم لیگ نے کس طرح اس پر عمل کر کے  کامیابی حاصل کی:

داس کے پروگرام کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ اقلیتوں کو ضمانت دی جائے کہ جہاں تک ممکن ہوا اُن کے حقوق اُن کی مرضی کے مطابق  طے کیے جائیں گے۔ 1940 کی قراردادِ پاکستان کے دو بنیادی نکات میں سے ایک یہی تھا اور 1946 کی قرارداد میں بھی اسے برقرار رکھا گیا۔

داس نے 1923 کا انتخاب صرف ایک نکاتی ایجنڈا کی بنیاد پر لڑا تھا اور وہ  نکتہ یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو اپنے ملک کا آئین خود بنانے کا حق چاہیے۔ مسلم لیگ نے بھی 1946 کا انتخاب ایک نکاتی ایجنڈا پر لڑا اور وہ نکتہ ’’پاکستان‘‘ تھا۔

داس کے پروگرام کی کامیابی کا اصل انحصار اِس بات پر تھا کہ پوری قوم ایک ہی جماعت کو ووٹ دے تاکہ یہ جماعت اسمبلی کی تقریباً تمام سیٹیں حاصل کر لے۔  یہ مقصد پورے ہندوستان کی سطح پر حاصل نہیں ہو سکتا تھا لیکن مسلم لیگ نے 1945-46 کے انتخابات  میں  مسلمانوں کی حد تک  اسے حاصل کر لیا۔

داس کے منصوبے کی جان اِس نکتے میں تھی کہ بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے نمایندے منتخب ہونے کے بعد ’’اپنی نشستوں پر جانے سے مکمل گریز کریں گے۔‘‘ مسلم لیگ نے بالکل یہی کیا۔

داس کو یقین تھا کہ اگر حقائق کی مدد سے انگریز قوم پر ظاہر کر دیا جائے کہ اُن کے آئین کے مطابق بنی ہوئی ہندوستانی اسمبلی کام نہیں کر سکتی تو وہ ضرور ہندوستان کو آزاد کر دیں گے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، مسلم لیگ نے یہی کر دکھایا اور برطانوی وزیراعظم نے 20 فروری 1947 کو ہندوستان چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے بھی بنیادی وجہ  یہی بیان کی۔

اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ہندوستان کو آزاد کروانے کا صرف ایک طریقہ تھا، خواہ اسے کسی بھی زمانے میں اور کسی بھی مذہب کے لوگ بروئے کار لاتے:

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں

یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور مسلم لیگ نے قائداعظم کی رہنمائی میں اُسے حقیقت بنایا (جس پر موجودہ بنگلہ دیش کی بنیاد بھی ہے)، بالکل  اُسی طرح چِت رنجن داس نے ہندوستان کا خواب دیکھا اور مسلم لیگ  نے ہی قائداعظم کی رہنمائی میں اُسے بھی حقیقت بنایا۔


اُمید ہے کہ قسط کا آخری حصہ جو آپ نے یہاں پڑھا ہے، سنسنی خیز ثابت ہوا ہو گا جیسا کہ شروع میں کہا گیا تھا۔ “آزادی” کی کتابی صورت میں ہر بات کا مُستند حوالہ موجود ہے، جس کے بعد آسانی کے ساتھ اس بات کی تردید نہیں کی جا سکے گی۔ اِس لیے میری درخواست ہے کہ کچھ دیر کے لیے ذرا سنجیدگی کے ساتھ سوچیے کہ اگر یہ سچ ہے تو کتنا بڑا سچ ہے؟ اِس کے ظاہرہونے اور پایۂ ثبوت کو پہنچنے سے پاکستانی قوم کی اور خود آپ کی انفرادی سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے؟ کیا آپ اس ذہنی تبدیلی کے لیے تیار ہیں؟ کیا آپ صرف اپنے ملک ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے حالات کو بھی اِس روشنی میں دیکھنے پر آمادہ ہیں کہ اِس پورے خطّے کو آزادی آپ کی قوم نے دِلوائی تھی؟

ہم میں سے کسی کی سوچ میں بھی ایسی تبدیلی نہ آسان ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ ایک دن کا کام ہے۔ لیکن جس نکتے سے اِس ذہنی تبدیلی کا آغاز کرنا ہے، وہ صرف یہی ہو سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا کی آزادی اس لیے ممکن ہوئی کہ اِس خطّے کی پوری مسلمان قوم ایک ہو گئی تھی:

ربط و ضبطِ ملّتِ بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اِس نکتے سے اب تک بیخبر!

لیکن یہ ملّت متحد ہوئی کیسے؟ برصغیر کے مسلمان اُس وقت متحد ہو سکے جب اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جنوبی ایشیا کو تقسیم ہونا چاہیے!

جب تک مسلمان بادشاہ یہ کوشش کرتے رہے کہ پورا جنوبی ایشیا ایک سلطنت بن جائے، اس وقت تک صرف ہندوؤں اور مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ مسلمانوں اور مسلمانوں میں بھی جنگیں ہوتی رہیں۔ کبھی بابر کی ابراہیم لودھی سے، کبھی اورنگزیب کی دکن کے حکمرانوں سے اور کبھی سلطان ٹیپو کی نظام حیدرآباد سے۔ لیکن جیسے ہی تمام مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ الگ الگ ریاستوں کے شہری بنیں گے، وہ سب اس طرح ایک ہو گئے کہ کیا ہی کبھی دنیا میں کوئی قوم ایسی متحد ہوئی ہو گی!

یہ انسانی فطرت کا کوئی راز ہے یا کائنات کا کوئی بھید ہے؟ یا پھر خدا کی تقدیر کے کسی پہلو کی پردہ کشائی ہے کہ علیحدہ ریاستوں کی تخلیق کے خواب نے، ہندوستان کو تقسیم کرنے کے مطالبے نے اور ایک وجود کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے الگ ہو جانے کے وعدے نے، اُن روحوں کو ایک کر دیا جو بارہ سو سال سے علیحدہ تھیں:

اے رات بتا کیا اُن سے کہیں، اپنے بھی ہیں وہ بیگانے بھی!
اے چاند بتا کیا سمجھیں اُنہیں، ہُشیار بھی ہیں دیوانے بھی!

یہ سچ ہے نظارے آج ہمیں کھو جانے کی دعوت دیتے ہیں!
ہم اپنی پیاس ارے ساقی، لے تجھ کو امانت دیتے ہیں
گو زلفوں کے بادل بھی ہیں اور آنکھوں کے پیمانے بھی!

غصے میں بھی ہیں اور پیار بھی ہے، اقرار بھی ہے انکار بھی ہے!
اِس پیار کو تم کیا سمجھو گے، یہ پھول بھی ہے اور خار بھی ہے!
جب شمع کا دامن جلتا ہے، جل جاتے ہیں پروانے بھی!

کچھ تم نے کہی، کچھ ہم نے کہی، لو پھر بھی ادھوری بات رہی!
دل اپنا گواہی دیتا ہے، یونہی قسمت جو ساتھ رہی،
اِک دن پورے ہو جائیں گے یہ پیار بھرے افسانے بھی!