تصانیف (انگریزی)

اِس صفحے پر خرم علی شفیق کی انگریزی تصانیف کی فہرست ہے۔ اُردو تصانیف کی فہرست علیحدہ ملاحظہ کیجیے۔

بطور مصنف


2018


“جلوہ ہائے بے حجاب: علامہ اقبال کا تصوّرِ حیات” رنگین تصاویر سے مزین ایک کافی ٹیبل کتاب ہے، جسے سٹیزنز فاؤنڈیشن پاکستان نے دبستانِ اقبال کے اشتراک سے شائع کیا۔ مصنف نے اپنی دوسری تحریروں میں یہ واضح کیا ہے کہ علامہ اقبال کی فکر نو بنیادی نکات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پہلے پانچ نکات عمومی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے بارے میں ہیں۔ یہ کتاب انہی پانچ اصولوں کی تفصیل اقبال کی نظم و نثر کے اقتباسات کی روشنی میں پیش کرتی ہے۔


“جناح: مقدمۂ پاکستان”، ایک مختصر کتابچہ ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے مقدمے کی بنیاد پانچ بنیادی نکات پر رکھی تھی لیکن تحریکِ پاکستان کے بارے میں جن کتابوں پر سب سے زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے، اُن میں سے اکثر کتابوں میں ان میں سے بھی نکتے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ کتاب برطانیہ سے لبریڈکس نے شائع کی۔


2015


“حیاتِ وحید مراد اور ہمارا عہد” اصل میں “حیاتِ اقبال اور ہمارا عہد” کا دوسرا حصہ ہے۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں جس فکری نظام کو اپنی قوم میں رائج کر دیا تھا، وہ اُن کی وفات کے بعد بھی قومی سطح پر برقرار رہا، خواہ دانشوروں اور ریاستی اداروں نے اسے بھلا دیا ہو۔ جس طرح مصنف نے اپنی اُردو تصانیف “سائیکو مینشن”، “رانا پیلس” اور “دانش منزل” میں یہ دکھایا تھا کہ اُردو کے مقبول ترین ناول نگار ابن صفی کی تحریروں میں فکرِ اقبال ہی کا ارتقأ ہوا ہے، اُسی طرح اس کتاب میں یہ دکھایا گیا ہے کہ پاکستان کے مقبولِ عام سنیما، بالخصوص وحید مراد کی لکھی اور بنائی ہوئی فلموں کے ذریعے بھی اقبال کے نظامِ فکر کے مزید ارتقأ میں بعض اہم ترین اگلے مراحل دریافت کیے گئے۔ یہ کتاب برطانیہ اور پاکستان سے لبریڈکس نے شائع کی۔


2014


“حیاتِ اقبال اور ہمارا عہد”، علامہ اقبال کی پہلی سوانح ہے جسے بیک وقت دس مسلم ریاستوں کی حکومتوں کے اشتراک سے شائع کیا گیا۔ اس کے ناشرین اقبال اکدمی پاکستان، اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن تہراط (سابقہ آر سی ڈی) اور لبریڈکس برطانیہ ہیں۔

پیش لفظ میں افتخار عارف اور محمد سہیل عمر نے نشاندہی کی ہے کہ اس سوانح میں اقبالیات کے ان مروجہ مفروضوں کی تردید کی گئی ہے کہ اقبال کی فکر میں تضادات ہیں یا اُن کے فکری ارتقأ کے مختلف مراحل گزشتہ مراحل کی نفی کرتے چلے گئے۔ ان دونوں مفروضوں کو مسترد کرنے کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اقبال کی فکر کا ایک مربوط نظام دریافت کیا جا سکے، اور وہ اس سوانح میں پہلی دفعہ پیش کیا گیا۔


2012


“2017: جنگِ مرغدین” میں یہ دکھایا گیا ہے کہ علامہ اقبال کی مثالی دنیا مرغدین، محض ایک تخیل نہیں ہے بلکہ حقیقی دنیا میں بتدریج تشکیل پا رہی ہے۔ تاریخ کو علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں دیکھتے ہوئے مستقبل کے بارے میں بعض محتاط اندازے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ یہ کتاب 2012 میں شائع ہوئی تھی لیکن اس میں پاکستان کی تاریخ کے آیندہ دس برس کے متعلق بعض پیشین گوئیاں بھی شامل تھیں، جن میں سے ایک یہ تھی کہ 2017 ایک سنگِ میل ثابت ہو گا۔ یہ کتاب برطانیہ سے لبریڈکس نے شائع کی۔


2003-2012


“ٹاپ لائن معاشرتی علوم پروگرام” خرم علی شفیق کی لکھی ہوئی پہلی سے آٹھویں جماعت تک کی درسی کتابوں کا سلسلہ ہے۔ یہ سلسلہ پہلی دفعہ 2003 میں شائع ہوا۔ 2012 میں اس کا دوسرا ایڈیشن سامنے آیا اور اب تیسرا ایڈیشن تیار کیا جا رہا ہے جس کی اشاعت 2020 میں متوقع ہے۔ ان کتابوں کے ذریعے موجودہ نصاب کو علامہ اقبال کی فکر سے قریب لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسے ٹاپ لائن پبلشرز نے شائع کیا اور یہ ایک خاصا مقبول سلسلہ ہے جسے پاکستان کے بہت سے اسکولوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔


2010


“شیکسپئر، اقبال کے مطابق” ایک مختصر کتابچہ ہے جس میں شیکسپئر کے فن، بالخصوص اُس کے ڈرامے “دی ٹیمپسٹ” کو علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں دیکھا گیا ہے اور دونوں کے درمیان ایک گہری وحدت دریافت کر کے دکھائی گئی ہے۔ ان دونوں کا موازنہ بعض کلاسیکی فارسی شعرأ بالخصوص نظامی گنجوی کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔


2007


“شیر اور درندہ”، ایک مختصر کتابچہ ہے جس میں آئرش شاعر ڈبلیو بی ییٹس کی مشہور نظم “دی سیکنڈ کمنگ” کا موازنہ علامہ اقبال کی نظم “مارچ 1907” کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ دونوں شاعروں نے اپنے زمانے کے رجحانات کو بیان کرنے کے لیے ایک جیسے استعارے استعمال کیے لیکن اقبال نے نئے زمانے کو روحانی ترقی اور ییٹس نے روحانی زوال کا زمانہ قرار دیا۔ یہ کتابچہ اقبال اکادمی پاکستان نے شائع کیا۔


“جمہوریۂ رُومی: حقیقت کا ایک ناول” میں علامہ اقبال کے تخیل کی دنیا کو ایک پراسرار باغ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جس میں سے گزرتے ہوئے قاری نے علامہ اقبال کی شاعری کے ایک استعارے “یوسف” کا سراغ لگانا ہے۔ اس کہانی کا تمام مواد علامہ اقبال کی تصانیف سے لیا گیا ہے۔ اسے اقبال اکادمی پاکستان نے شائع کیا۔


2006


“اقبال: باتصویر سوانح”، دلچسپ انداز میں لکھی ہوئی علامہ اقبال کی ایک مکمل سوانح ہے جس میں اضافی معلومات اور تصاویر شامل کر کے اسے ایک کافی ٹیبل کتاب کی طرح پیش کیا گیا ہے۔ اس تصنیف پر مصنف کو صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔

اسے اقبال اکادمی پاکستان نے شائع کیا اور کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی کروائے، جن میں اُردو اور پاکستان کی بعض علاقائی زبانوں کے علاوہ جرمن، فرانسیسی اور بوسنیائی شامل ہیں (یہ تراجم شائع نہیں ہو سکے ہیں)۔


بطور نگراں یا مدون


“جاویدنامہ جونئر ایڈیشن”، علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق فارسی مثنوی کی انگریزی میں تلخیص ہے جسے تبسم خالد کی خصوصی طور پر تیار کی ہوئی تصاویر سے مزین کیا گیا ہے۔ ترجمہ حنا تنویر نے کیا ہے۔ یہ پروجیکٹ خرّم علی شفیق کی تجویز پر شروع کیا گیا تھا اور انہی کی نگرانی میں مکمل کیا گیا۔


“افکارِ پریشاں” علامہ اقبال کی وہ مشہور نوٹ بُک ہے جسے پہلی دفعہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے مرتب کر کے 1961 میں شائع کیا تھا۔ خرّم علی شفیق نے اس پر نظرِ ثانی کر کے حاشیوں اور ضمیموں کا اضافہ کیا جسے اقبال اکادمی پاکستان نے 2006 میں شائع کیا۔ حواشی میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس نوٹ بک کے کون کون سے اندراجات علامہ اقبال نے اپنی زندگی ہی میں کہیں شائع کروائے تھے، اور اشاعت کے وقت اُن میں کیا تبدیلیاں کی گئیں۔ ضمیموں میں وہ اضافی شذرات شامل کیے گئے ہیں جو اِس نوٹ بک کی ترتیب کے بعد سے سامنے آ چکے ہیں۔


یہ معلومات محترمہ ماریہ غنی کے ایم فل کے زیرِ تکمیل مقالے “خرّم علی شفیق کی اقبال فہمی: تحقیقی مطالعہ” سے حاصل کی گئی۔