تم وہی ہو


پچھلی قسط پر تبصروں میں ایک دلچسپ بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ:

“جب تک قوم میں شعور نہ ہو وہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ تو قوم کو بنانے میں اور پھر فیصلہ کرنے میں اہم کردار ایک اچھے لیڈر کا ہوتا ہے جو اسے اس قابل بناتا ہے اسکی رہنمائی کرتا ہے کہ وہ اپنا اچھا یا برا سوچ سکے جیسا کہ سر سید نے شعور اجاگر کیا۔ پھر اقبال نے منزل کا پتہ دیا اور قائد نے منزل تک پہنچایا۔”

میری تجویز ہے کہ ہم  کیوں نہ ان جملوں کو سوالات میں تبدیل کر دیں اور دیکھیں گے کہ آیندہ اقساط میں اِن سوالوں کے کیا جواب سامنے آتے ہیں: 

      1. “کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ قوم میں شعور نہ ہو؟”
      2. “کیا اس صورت میں قوم خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گی؟”
      3. “کیا قوم کو بنانے میں اہم کردار ایک اچھے لیڈر کا ہوتا ہے؟”
      4. “کیا قوم کی طرف سے فیصلہ کرنا بھی ایک لیڈر کا کام ہے؟”
      5. “کیا ایک لیڈر قوم کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنا اچھا یا برا سوچ سکے؟”
      6. “کیا ایک لیڈر قوم کی رہنمائی کرتا ہے؟”
      7. “کیا سر سید نے قوم میں شعور اُجاگر کیا؟”
      8. “کیا علامہ اقبال نے منزل کا پتہ دیا؟”
      9. “کیا قائداعظم نے منزل تک پہنچایا؟”

سوال نمبر 7 کا جواب دوسری قسط، “تمام انسانوں کی روح” میں تلاش کیجیے۔ سر سید نے قوم کی رائے کی اطاعت کی تھی اس لیے یہ کیوں نہ کہا جائے کہ قوم نے سر سید کے ذریعے اپنے لوگوں میں شعور اُجاگر کیا؟ 


آج کی قسط پڑھنے کے بعد یہ ضرور بتائیے کہ کیا قوم کی طرف سے فیصلہ کرنا بھی ایک لیڈر کا کام ہے؟ جواب کمنٹ کی صورت میں لکھا جا سکتا ہے۔


لیکن اس سے پہلے ایک اور سوال ہے، ذرا مختلف قسم کا۔ فلم “دیور بھابھی” 1967 میں ریلیز ہوئی۔ نغمے فیاض ہاشمی نے لکھے۔ احمد رشدی کے گائے ہوئے ایک نغمے سے میں آج کے موضوع کی وضاحت میں مدد لینا چاہتا ہوں، “تم وہی ہو لو تمہیں آج بتا دیتے ہیں!” چنانچہ آپ اِسے سُنتے ہوئے معلوم کیجیے کہ “وہی ہو” سے کون مراد ہے۔ یعنی شاعر جو محبوب کو بتا رہا ہے کہ “تم وہی ہو” تو کیا بتا رہا ہے کہ کون ہو؟



مسلم لیگ کے قیام کی وجوہات عام طور پر اُس زمانے کے سیاسی واقعات میں ڈھونڈی جاتی ہیں۔ مگر نوجوان محمد علی، جنہیں ہم مولانا محمد علی جوہر کے نام سے جانتے ہیں اور جو مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے،  سمجھتے تھے کہ اس جماعت کا قیام ایک قوم کی قدرتی نشوونما کا تقاضا تھا:

“عام طور پر ایک نسلِ انسانی تیس سال کی سمجھی جاتی ہے … جس طرح کلکتہ، مدراس اور بمبئی کی یونیورسٹیوں کے قیام کے تیس سال بعد ہندوؤں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل تیار ہو کر کانگرس کی بانی ہوئی، اُسی طرح1875ء سے علی گڑھ کالج کی بنیاد کے تیس سال بعد مسلمانوں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل 1906ء میں تیار ہو کر مسلم لیگ کی بانی ہوئی اور مسلمانوں نے بحیثیت ملّت میدانِ سیاست میں قدم رکھا۔”

چنانچہ مسلم لیگ ایک قومی تنظیم تھی (بعد میں جناح نے اس پر بہت زور دیا)۔  سیاسی جماعتوں کے برعکس یہ کسی مخصوص مکتبِ فکر کی نمایندہ نہیں تھی بلکہ اس کے عمائدین کا کہنا تھا، ’’اس کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں، وہ ایک ایسی مجلس ہے جہاں ہر قسم کی سیاسی رائیں آزادانہ ظاہر کی جا سکتی ہیں، اور اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق اسکے فیصلے کثرتِ رائے کے ذریعہ سے ہوتے ہیں۔‘‘



جس وقت مسلم لیگ مشاورت کے اصول پر قائم ہوئی، اُسی زمانے میں انگریزوں نے بھی اپنی سلطنت کو اسی  اصول پر منظم کرنے کی طرف ایک بڑا قدم اٹھایا۔

1907 میں لندن میں پانچویں کولونیئل کانفرنس ہوئی۔ طے پایا کہ برطانیہ اور اُس کی نوآبادیوں کے درمیان مشاورت کے لیے یہ کانفرنس ہر چوتھے برس بلائی جائے گی۔ اسے امپیریل کانفرنس کہا جائے گا۔ اس کے لیے ایک آئین بنایا جائے گا۔ جن نوآبادیوں کو حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہے، جیسے کینیڈا اور آسٹریلیا، انہیں ’’ڈومینین‘‘ کہا جائے گا۔

وزیراعظم برطانیہ سر ہنری بینرمین نے افتتاحی خطاب میں کہا، ’’ہم اپنی بنیاد آزادی اور حریت پر رکھ رہے ہیں – یہ برطانوی سلطنت کے داخلی تعلقات کی روح ہے۔‘‘

سابق وزیراعظم سر آرتھر بالفور نے کہا کہ یہ انسانی تاریخ میں ایک بالکل نیا تجربہ ہے کہ ایک سلطنت اس آئیڈیل پر عمل کرنے لگی ہے کہ اس کے مختلف ممالک آہستہ آہستہ آزاد ریاستوں کا ایک خاندان بن جائیں گے۔

اِس آئیڈیل کے لیے’’کامن ویلتھ‘‘ یعنی دولتِ مشترکہ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ یہ اصطلاح پہلے بھی استعمال کی جا چکی تھی۔ اب زیادہ مقبول ہونے لگی لیکن صرف سفیدفام نسلوں کے حوالے سے! ریاستوں کے اِس ’’خاندان‘‘ میں رنگدار نسلوں کو شامل کرنے کا خیال ابھی تک انگریز سیاستدانوں میں عام نہ ہوا تھا۔


مسلم لیگ کا بنیادی مطالبہ جداگانہ نیابت تھا۔ ہندو رہنماؤں میں سے  گوپال کرشن گوکھلے نے فوراً تائید کرتے ہوئے کہا:

“چونکہ مسلمانوں کا گروہ تعداد میں ہندوؤں سے کم ہے لہٰذا ان کو خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم انگریزوں کی حکومت سے نکل کر  ہندوؤں کی حکومت  میں آ جائیں۔ یہ خیال ایسا نہیں کہ اس کو مذاق میں اڑا دیا جائے۔ جو حالت بلحاظ مردم شماری وغیرہ اس وقت مسلمانوں کی ہے اگر یہی حالت اتفاق سے ہندوؤں کی ہوتی تو کیا عجب ہے کہ یہی اعتراض ہمارے دلوں میں خطور کرتا اور  ہم بھی اسی خیال کو پیش نظر رکھتے اور اسی پالیسی پر عمل کرنے کو تیار ہوتے جس پر کہ اس وقت مسلمان عمل کر رہے ہیں۔”


اسی زمانے سے محمد علی [جوہر] اسلامی برصغیر کے سیاسی اور علمی اُفق پر چھانے لگے۔ انہوں نے مسلم لیگ کا آئین بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا، اخبارات میں مضامین لکھے اور چند برس بعد انگریزی اور اُردو میں اپنے اخبار بالترتیب کامریڈ اور ہمدرد کے نام سے جاری کیے۔

اقبال کے کلام اور فکر کو زیادہ سے زیادہ وسیع طور پر پھیلانا بھی اُن کا ایک مشن تھا کیونکہ اُن کے اپنے بیان کے مطابق انہوں نے اسلام کسی مولوی سے نہیں بلکہ اقبال سے سیکھا تھا۔



1907 میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ میں تھے۔  انہوں نے’’مارچ 1907‘‘ کے عنوان سے ایک نظم نما غزل لکھی جسے اُن کی ذہنی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ نکات اچانک وارد ہوئے جن کا مطلب اُس وقت وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ آنے والے واقعات نے مفہوم واضح کیا (اُن کے لحاظ سے 1907 سے 1926 کے عرصے میں یہ پیشین گوئیاں پوری ہو چکی تھیں)۔

1908 سے 1911 تک انہوں نے تین تحقیقی مقالوں میں ایک مکمل نظامِ فکر پیش کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ نظام  اُن کے اپنے افکار پر مبنی نہیں ہے بلکہ وہ سائینٹفک طریقے سے اپنے معاشرے کا مطالعہ کر کے اسے اخذ کر رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے مزید تحقیقی مقالوں کے ذریعے بعض نکات کی مزید وضاحت کی۔


سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم جسے روح، نفس یا اَنا کہتے ہیں وہ اقبال کے نزدیک ایک توانائی ہے لیکن دوسری توانائیوں سے اس لیے مختلف ہے کہ اپنی سمت کا تعین خود کر سکتی ہے۔ اس کے لیے اقبال نے خودی کی اصطلاح استعمال کی (انگریزی میں سیلف اور ایگو کے الفاظ استعمال کیے)۔

چنانچہ ایک قوم بھی اپنی سمت خود متعین کرسکتی ہے کیونکہ قوم صرف افراد کا مجموعہ نہیں ہوتی جیسا کہ ہم نے سمجھ رکھا ہے۔ قوم ایک وجود ہے، اس کی اپنی ایک خودی ہے، اس کے اپنے ارادے اور مقاصد ہوتے ہیں، سوچ اور شعور ہوتا ہے، محسوسات ہوتے ہیں۔

جس طرح ایک بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہو کر بلوغت تک پہنچتا ہے، بالکل اسی طرح ایک قوم بھی کئی مرحلوں سے گزر کر پروان چڑھتی ہے (اور یہ بات نواب محس الملک نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ واضح کی تھی، جیسا کہ ہم نے پچھلی قسط میں دیکھا)۔

اقبال سمجھتے تھے کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں مسلمان قوم کی خودی بھی مسلسل ارتقأ کرتی رہی ہے۔ بادشاہتیں، بیرونی حملے اور زوال کے بعض زمانے اس کے راستے کی رکاوٹیں ضرور تھے لیکن وہ نہ اس کے ارتقا کو روک سکے اور نہ ہی اس کی سمت بدل سکے۔

“مارچ 1907” والی غزل میں انہوں نے قوم کی اِس خودی کے لیے “یار” یعنی محبوب کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ طویل  انتظار کے بعد اُس کے دیدار کا وقت آن پہنچا ہے:

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خارزار ہو گا
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا، پھر اُستوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

اقبال سمجھتے تھے کہ دنیا خوف اور برائی سے مکمل طور پر آزاد ہو سکتی ہے بلکہ ہو جائے گی۔ یہ اُس سوال کا جواب تھا جو کچھ سال پہلے انہوں نے اپنی پہلی نثری تصنیف کے دیباچے میں اٹھایا تھا، ’’کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟‘‘ آگے چل کر جاویدنامہ (1932) میں اُنہوں نے اسے مرغدین کی مثالی دنیا کی صورت میں پیش کیا۔

لیکن انہوں نے 1908 ہی سے یہ کہنا بھی شروع کر دیا کہ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ  آزاد ریاستیں ایک خاندان کی صورت میں اکٹھی ہوں، جسے دولتِ مشترکہ (کامن ویلتھ) کہا جا رہا تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ خلافت کا اصل اصول یہ نہیں کہ تمام مسلمان ممالک ایک ہی مرکزی حکومت کے ماتحت ہوں۔ اگر قرونِ اولیٰ  کے عربوں نے ایسی سلطنت قائم کی تو وہ اُس زمانے کے تاریخی حالات کا تقاضا تھی۔ آج وقت خود ہمیں اِس انکشاف کی طرف لا رہا ہے کہ  اسلام کا اصل  نصبُ العین خودمختار مسلم ریاستوں کا خاندان ہے اور خلافت کے اسلامی تصوّر کی اصل بنیاد بھی یہی اصول ہے، خواہ اس کا  انکشاف پہلے نہ ہوا ہو۔

چنانچہ انہوں نے اسی زمانے سے ملتِ اسلامیہ کو ’’اسلامی دولتِ مشترکہ‘‘ کہنا شروع کیا اور واضح کیا کہ اسلام میں خودمختار مسلم ریاستوں کی گنجایش موجود ہے:

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مُسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اُن کے نزدیک یہ تمام آئیڈیلز قرآن نے دنیا کے سامنے پیش کیے اور پیغمبرِ اسلامؐ کی طاقتور شخصیت کے اثر کی وجہ سے نہ صرف مسلم معاشرے میں ہمیشہ جاری و ساری رہے بلکہ اب یہ مغرب کی جدید تہذیب کی بنیاد بھی بن چکے تھے۔

لیکن مغرب نے ان آئیڈیلز کو عملی سیاست کا حصہ نہیں بنایا۔ مثلاً 1907 کی امپیریل کانفرنس میں برطانوی وزیراعظم بینرمین نے کہا کہ آزادی برطانوی قوم کا آئیڈیل ہے لیکن انہوں نے اسے صرف سفیدفام نسل تک محدود رکھا۔ افریقہ کے مظلوم عوام کو آزاد کرنے کا تصوّر بھی ان کے ذہن سے کوسوں دُور تھا۔ بالفور نے ریاستوں کے خاندان کی بات کی اور کسی نے دولتِ مشترکہ کا لفظ بھی استعمال کیا لیکن یہ سب کچھ بھی سفیدفام نسل کے حوالے ہی سے تھا اور خود وہ نسل علاقائی وطنیت کی وجہ سے ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو رہی تھی۔ چند برس بعد یہی چیز جنگِ عظیم کا سبب بن گئی:

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جوشاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

اس طرح اقبال نے سر سید کے افکار کو ٹھوس بنیاد فراہم کر دی، خاص طور پر قوم سے محبت اور “تمام انسانوں کی روح” جسے سر سید نے ایک “دلہن” کے علامتی روپ میں پیش کیا تھا۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ اِس تصوّرِ کے مطابق تمام انسانوں کی اجتماعی خودی اور کسی ایک قوم کی اجتماعی خودی ایک ہی حقیقت کے مختلف رُوپ تھے اگرچہ ہم پر لازم ہے کہ ہماری پہلی وفاداری اُس قوم کے ساتھ ہو جس کے ہم فرد ہیں:

جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بَنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

انہیں یقین تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے برصغیر کی مسلمان قوم کی اجتماعی خودی ایک نئی قسم کے کردار کو تخلیق کر رہی ہے اور اُسی مناسبت سے معاشرے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی بھی لا رہی ہے۔

اُس کردار کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ’’ہر حال میں ثابت قدم رہتا ہے اور دوسری ہر قسم کی ہر اچھائی بڑی آسانی کے ساتھ جذب کرتے رہنے کے باوجود اپنی زندگی سے ایسی تمام چیزوں کو خارج کرتا رہتا ہے جو اس کی محبوب روایات اور اداروں کی دشمن ہوں۔‘‘ یہی بات انہوں نے اُس شعر میں بھی کہی جو پہلے پیش کیا جا چکا ہے:

اِس دَور میں سب مٹ جائیں گے ہاں! باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکّا اپنی ہٹ کا ہے

اقبال نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی ساری توانائی اِس مثالی کردار کو پیش کرنے میں صَرف کریں گے: 

میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

لیکن یہ آخری شعر بیس برس بعد کچھ اس انداز میں حقیقت بنا جس کی فی الحال انہیں خود بھی توقع نہیں ہو سکتی تھی۔ جیسا کہ ہم اگلی قسط میں دیکھیں گے، 1926 میں اُنہوں نے عملی سیست کے میدان میں قدم رکھ دیا اور اِس طرح وہ 1930 میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت تک پہنچے (جس کی تصویر اوپر دی گئی ہے)، جہاں انہوں نے ایک مسلم ریاست کا تصوّر پیش کیا۔ 


ہندو نسل پرستوں کی طرف سے مسلم لیگ کی شروع ہی سے شدید مخالفت ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی۔ مسلم لیگ کے مقابلے پر ہندو سبھائیں قائم ہونے لگیں۔ ایک مرکزی تنظیم ہندو مہاسبھا کے نام سے بھی وجود میں آ گئی۔



پنڈت سرسوتی نے 1875 میں جو آریہ سماج قائم کی تھی، اب اُس کے اخبارات اور لٹریچر میں اسلام پر حملے زیادہ  شدت سے ہونے لگے اور دس پندرہ برس میں خون خرابے تک  نوبت پہنچ گئی۔

کافی عرصے  سے ہندوؤں کے ’’انتہاپسند‘‘ طبقے کی طرف سے دہشت گردی بھی شروع ہو چکی تھی جس میں اب اضافہ ہوگیا۔ بم دھماکے ہوئے اور بعض انگریز قتل بھی کیے گئے۔ لیکن یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے کہ ان لوگوں  نے انگریزوں سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ ہندوستان سے چلے جائیں۔ اس زمانے میں جن لوگوں پر بغاوت یا دہشت گردی کے مقدمے چلے بلکہ جنہیں اِس قسم کے جرائم میں سزائے موت تک دی گئی،انہوں نے بھی عدالت کے سامنے عام طور پر یہی کہا کہ انہوں نے بغاوت نہیں کی اور صرف اپنے بعض مطالبات تسلیم کروانا چاہتے ہیں، خاص طور پر تقسیمِ بنگال کو منسوخ کرنے کا مطالبہ۔


البتہ امریکہ، جرمنی اور برطانیہ میں مقیم بعض ہندوستانی طلبہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ دیں۔ 1909 میں لندن میں ایک ہندوستانی نوجوان مدن لال ڈھنگرا نے ایک انگریز عہدے دار اور اُس کے پارسی ڈاکٹر کو قتل کیا اور پھر خودکشی کرنے کی کوشش کی (اسے خودکش حملے کی ایک ابتدائی مثال سمجھا جا سکتا ہے)۔ عدالت میں اُس نے کہا کہ ایک ہندوستانی اگر کسی انگریز کو قتل کرے تو کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر رکھا ہے۔

ہندوستانی رہنماؤں نے اس قسم کے اقدامات کی سخت مذمت کی کیونکہ اُس زمانے میں اُن کا نقطۂ نظر یہی تھا کہ وہ  تاجِ برطانیہ کے وفادار ہیں مگر چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو بھی خود حکومت کرنے کا موقع ملے، جسے سیلف گورنمنٹ کہتے تھے۔


1909ء میں برطانوی حکومت نے ہندوستان میں نئی آئینی اصلاحات نافذ کیں۔ یہ مِنٹو مارلے ریفارمز کہلاتی ہیں۔ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کیا گیا لیکن ہندو مہاسبھا کی مخالفت کی وجہ سے اسے پوری طرح نافذ نہیں کیا گیا۔



دسمبر1911 میں شاہِ انگلستان جارج پنجم نے ہندوستان کا دورہ کیا اور دہلی میں ایک شاندار دربار لگایا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تقسیمِ بنگال منسوخ کی جاتی ہے۔ لیکن دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل کر دیا جائے گا۔

کانگرس نے بادشاہ کے شکریے کی قرارداد منظور کی اور ممتاز بنگالی شاعر رابندرناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا نغمہ پیش کیا۔ اس کے ابتدائی الفاظ ’’جنا گنا منا‘‘ تھے۔ اُس وقت بعض لوگوں نے خیال کیا کہ اس میں شاہِ انگلستان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں یہ وضاحت سامنے آئی کہ اس میں خدا کو مخاطب کیا گیا ہے، چنانچہ آزادی کے بعد سے یہ بھارت کا قومی ترانہ ہے۔



مسلمانوں میں تقسیمِ بنگال منسوخ ہونے کی وجہ سے سخت بیچینی پھیلی۔ دوسری طرف یورپی ریاستوں نے ترکی کی عثمانی سلطنت پر حملے شروع کر دئیے تھے۔ افریقہ اور عرب میں عثمانی حکومت کے ماتحت علاقوں پر بھی یورپ کی بعض طاقتیں حملہ کر چکی تھیں یا کرنا چاہتی تھیں۔ روس نے ایران پر حملہ کر رکھا تھا جس کی وجہ سے ایران برطانیہ سے مدد مانگنے پر مجبور تھا۔ وہ مدد جن شرائط پر دی جا رہی تھی، اُن کی وجہ سے خطرہ تھا کہ ایران کی آزادی ختم نہ ہو جائے۔

برصغیر کے مسلمانوں نے ایک طرف ان مسلم ریاستوں کی  مدد کرنے کے لیے کوششیں کیں اور دوسری طرف ہندوستان میں اپنی حیثیت بہتر بنانے کے لیے کانگرس کے ساتھ تعاون پر خاص توجہ دینا شروع کی۔

1913 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سر ابراہیم رحمت اللہ نے کہا کہ ہندو بڑے بھائی اور مسلمان چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں (بعد میں بھی مسلم رہنماؤں نے یہ تشبیہہ استعمال کی)، اور:

“ملک جیسا کہ یہ ہندوستان ہے، ہمیشہ کے لیے اجنبی حکومت نہیں رہ سکتا اور اگرچہ بلاشبہ حکومتِ برطانیہ کی بِنا رفاہِ خلق اور نیکی پر مبنی ہے، تاہم ابدی طور پر یہاں نہیں رہ سکتی۔ ہندوستان ہمارا آبائی مک ہے اور قابلِ فخر  وراثت، اور آخرکار ہمارے محافظین کو ہمارے سپرد کرنا ہو گا۔”


1914 میں یورپ میں پہلی جنگِ عظیم شروع ہو گئی اور 1918 تک جاری رہی۔ ہندوستانی سپاہیوں نے بھی برطانوی فوج  میں شامل ہو کر حصہ لیا۔

محمد علی [جوہر] نے کامریڈ میں لکھا کہ ہندوستان کے ارتقأ کے موجودہ مرحلے میں ’’انگلستان کے زیرِ تربیت رہنا لازمی ہے اور … انگلستان کو ہماری ضرورت نہ بھی ہو تو بھی ہمیں تو اس کی ضرورت باقی ہے۔‘‘ لیکن غالباً ترکی کے ساتھ ان کی ہمدردی کی وجہ سے حکومت نے انہیں اور ان کے بھائی شوکت علی کو نظربند کر دیا اور 1919 تک آزاد نہیں کیا۔

کانگرس نے 1914 کے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے برطانیہ کی  حمایت کا اعلان کیا۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بابو پھپندرناتھ باسُو نے بھی کہا:

“برطانوی راج ہندوستان میں ایک چیلنج بن کر نہیں آیا۔ اس سلطنت کو حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلا اور سب سے بڑا اقدام جو کیا گیا وہ خود یہاں کے باشندوں کی دعوت پر تھا جو ایک زوال یافتہ حکومت میں گھبرا گئے تھے ہمارے والیانِ ریاست مؤقر معاہدوں کے ذریعے ملک معظم [ شاہِ برطانیہ] کے دوست اور حلیف بن گئے، اور عوام اتنے ہی مؤقر دساتیر اور قوانین کے تحت ملک معظم کی رعایا بن گئے جنہیں برابری کا درجہ حاصل ہے۔ اور یہ باہمی تعلق اور افہام و تفہیم اگرچہ بعض اوقات اقتدار کے جوش میں یا رنگ کے تعصب میں بھُلائے بھی جا سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ہندوستان میں برطانوی راج کے روح و رواں یہی رہے ہیں یہی چیز ہے جس نے انگریز حکومت کو ہندوستان کی عسکری روح، اس کی قدیم تہذیب اور اُس کی نسل کی خودداری کے ساتھ جوڑا ہے۔”



برطانوی سلطنت کی جن نوآبادیوں کو ڈومینین کا درجہ مل چکا تھا، جیسے کینیڈا، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ، انہوں نے کہا کہ جنگ کا اعلان کرنے اور صلح کی شرائط طے کرنے میں آیندہ اُن سے بھی مشورہ لیا جائے۔ اس طرح یہ امکان پیدا ہوا کہ شاید تمام ڈومینینز پر مشتمل ایک امپیریل پارلیمنٹ وجود میں آ جائے۔

ہندوستانی رہنماؤں نے محسوس کیا کہ اس طرح وہ دہری غلامی میں مبتلا ہونے والے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ پہلے ہی ان پر حکومت کر رہی ہے لیکن اب اس کے ساتھ ساتھ شاید تمام دوسرے ڈومینین بھی امپیریل پارلیمنٹ کے ذریعے ہندوستان کی تقدیر کے فیصلے کرنے لگیں۔ چنانچہ ہندوستان میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ جنگ کے بعد ہندوستان کو بھی سیلف گورنمنٹ دے کر دوسرے ڈومینینز کے ساتھ برابری کا درجہ دے دیا جائے۔

1916 میں مسلم لیگ اور کانگرس نے مل کر ہندوستان میں سیلف گورنمنٹ کے لیے ایک اسکیم تیار کی، جسے میثاقِ لکھنؤ کہا گیا۔ اس کی بنیاد جداگانہ انتخاب کے اصول پر تھی۔

جناح نے 1906 میں مسلم لیگ کے قیام کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اس جماعت کی کارکردگی دیکھنے کے بعد وہ 1913 میں اس کے رکن بن گئے۔ 1916 کے اجلاس کی صدارت بھی وہی کر رہے تھے۔

انہوں نے میثاقِ لکھنؤ میں اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے انہیں ہندومسلم اتحاد  کا سفیر کہا گیا۔ بعد میں اِس بنیاد پر یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ اُس زمانے میں وہ مسلمانوں کے علیحدہ سیاسی وجود کے قائل نہیں تھے۔ مخالفین کو رہنے دیجیے، میرے خیال میں آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ “مطالعۂ پاکستان” میں بھی یہی پڑھایا جاتا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ میثاقِ لکھنؤ سے جناح کے خیالات کے بارے میں کوئی بھی اندازہ لگانے کی کوشش ہی بیکار ہے کیونکہ انہوں نے اس موقع پرمسلم لیگ کے اجلاس میں جو خطبۂ صدارت پیش کیا، اُس میں یہ بھی کہا تھا کہ:

“انفرادی ترجیحات اجتماعی ارادے کی راہ میں نہ حائل ہو سکتی ہیں اور نہ انہیں حائل ہونا چاہیے … میری ذاتی رائے جو کچھ بھی ہو لیکن یہاں میرا یہی فرض ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کی رائے کی ترجمانی کروں جس کا آل انڈیا مسلم لیگ سیاسی آلہ ہے۔”

اس کے علاوہ بھی انہوں نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی کہ میثاقِ لکھنؤ کے وقت وہ مسلمانوں کے علیحدہ سیاسی وجود کے قائل نہیں تھے۔ مثلاً نومبر 1940 میں، جب وہ  ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں تقسیم کے مطالبے کی حمایت کر رہے تھے، کسی معترض نے کہا، ’’کم سے کم 1920 سے پہلے مسٹر جناح اس طرح نہیں سوچتے تھے۔‘‘ اُنہوں نے جواب دیا، ’’1916سے! اُس وقت سے جب میثاقِ لکھنؤ منظور ہوا تھا، اِس بنیادی اصول پر کہ دو علیحدہ سیاسی وجود حقیقت رکھتے ہیں۔‘‘

لہٰذا جناح کے مطابق 1916 ہی میں اُن پراُس حقیقت کا انکشاف ہوا جس کے دُوررس نتائج میں قیامِ پاکستان شامل ہے۔ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں انہوں نے جو خطبۂ صدارت پیش کیا، اُس کے ایک حصے کو علامہ اقبال نے “پیامِ مشرق” (1923) کے اُردو دیباچے میں تقریباً حرف بحرف دہرایا۔ جناح نے کہا تھا:

“اتنے عظیم ہیجان کے بعد جیسی کہ یہ جنگ [پہلی جنگِ عظیم] ہے، دنیا خاموشی کے ساتھ اپنی پرانی زندگی اور پرانے خیالات کی گود میں واپس جا کر نہیں بیٹھ سکتی…

“عناصر کے اشتعال کی بھٹی میں فضولیات جل کر راکھ ہو رہی ہیں، سونا ملاوٹ سے پاک ہو کر کُندن بن رہا ہے؛ اور جب یہ خوفناک عذاب گزر جائے گا، روح آزاد ہو کر تقریباً روزِ ازل جیسی سہولت اور قوّت محسوس کرتے ہوئے مستقبل کے لیے زیادہ وافر اور زیادہ آزاد زندگی  کو ترتیب دے گی، تعمیر کرے گی اور تخلیق کرے گی…

ہندوستان کے حوالے سے انہوں نے کہا:

“آج کا بنیادی سوال ہے: کیا ہندوستان آزاد ہونے کے قابل ہے اور کس حد تک؟…

“اگر ہم تاریخ کی طرف دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں صرف ایسی قوموں کو آزادی کا مستحق قرار دیا گیا جنہوں نے اس کے لیے جنگ لڑی اور اسے حاصل کیا۔ ہم ایک مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ امن بھی فتوحات حاصل کر رہا ہے۔ ہم آئینی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم صرف یہی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ اس پرامن جدوجہد میں ہماری توانائی اور قربانی  قدروقیمت میں کسی دوسری جنگ کے مقابلے میں کم نہ ہو گی، اور ہم برطانوی سلطنت کو قائل کر کے رہیں گے کہ ہم اس سلطنت میں برابر کے شریک بننے کے اہل ہیں اور ہندوستان اس سے کم پر رضامند نہ ہو گا…

“اِس جذبے کا سب سے نمایاں اور سب سے زیادہ اُمیدافزا پہلو یہ ہے کہ اس نے قومی اتحاد [یعنی ہندوستان کے اتحاد] کی سمت میں ایک نئی تحریک سے جنم لیا ہے جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو محبت اور اخوّت کے ساتھ ایک مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اکٹھا کر دیا ہے…

مسلم لیگ کے بارے میں انہوں نے کہا:

“درحقیقت تعلیم یافتہ مسلمانوں کا سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کے صرف دس سال بعد ہی سب  کے مشترکہ مفاد کی خاطر ہندوستان کی دوسری ملّتوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے پریوں آمادہ ہونا میرے خیال میں موجودہ حالات میں ایک علیحدہ مسلم سیاسی تنظیم کی افادیت اور ضرورت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔”

یہاں تعلیم یافتہ مسلمانوں سے وہ نسل مراد تھی جس نے براہِ راست سر سید سے قوم کی محبت کا درس لیا تھا۔ اس کے بعد جو نسل نمودار ہو رہی تھی اور ہونے والی تھی، اُس کے بارے میں جناح  کی تلخ رائے پہلے پیش کی جا چکی ہے۔


میثاقِ لکھنؤ میں مسلمانوں نے ہندو رہنماؤں کا یہ مطالبہ بھی قبول کر لیا کہ بنگال اور پنجاب میں، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، مسلمانوں کی نشستیں پچاس فیصد یا اس سے کم ہوں۔

وجہ یہ تھی کہ برطانوی حکومت ایک نیا آئین نافذ کرنے والی تھی۔ غیرمسلموں کی طرف سے جداگانہ انتخاب کی مخالفت اتنی بڑھ گئی تھی کہ کانگرس جیسی اعتدال پسند جماعت بھی اس کے خلاف قراردادیں منظور کر چکی تھی۔ آئینی اصلاحات کے ایک کمیشن میں بھی اس کے خلاف زبردست نوٹ لکھا گیا۔ اس لیے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ مسلمان جداگانہ نیابت کے اصول سے، جسے 1909 کی منٹو مارلے اصلاحات میں تسلیم کیا گیا تھا، آیندہ نافذ ہونے والے آئین میں بالکل ہی محروم نہ کر دئیے جائیں۔

بروقت اقدام ضروری تھا۔ میثاقِ لکھنؤ کے ذریعے چونکہ ایک ایسی اسکیم سامنے آ گئی جس پر مسلم لیگ اور کانگرس دونوں متفق تھے، اور جداگانہ نیابت کا اصول اس میں شامل تھا، اس لیے انگریزوں کو یہ اصول برقرار رکھنا پڑا۔

میثاقِ لکھنؤ کے موقع پر سریندرناتھ بینرجی نے، جو کانگرس کے بانیوں میں سے تھے، کانگرس کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا:

“آج  کا دن ہماری تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ آج ہندو اور مسلمان اور نیشنل پارٹی کے تمام گروہ اس پلیٹ فارم پر ایک مشترکہ عزم اور ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ متحد ہیں۔ اِس دن کی یاد ہماری آنے والی نسلوں کے ذہنوں پر ہمیشہ نقش رہے!”


یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اُس دن کے بعد سے جناح کے لیے مسلم لیگ کی وہی اہمیت ہو گئی جیسی قصے کہانیوں میں قیس کے لیے لیلیٰ کی اہمیت ہوتی ہے۔ تین سال بعد جب انہیں کانگرس اور مسلم لیگ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا پڑا تو اُنہوں نے کانگرس کو چھوڑ دیا۔ 1928 میں جب ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے رہنما آل انڈیا مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے تب بھی جناح، مسلم لیگ کے دامن میں سمٹے رہے اور جب مسلم لیگ اس قابل نہ رہی کہ سیاسی جنگ لڑ سکے تو جناح نے سیاست ہی چھوڑ دی۔ وہ اس شرط پر واپس آئے کہ برصغیر کے تمام مسلمان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں گے اور اُس کے بعد کئی مواقع پر مختلف انداز میں یہ کہا کہ جو مسلمان مسلم لیگ کی اطاعت نہیں کرتا وہ مسلمان قوم میں شامل نہیں ہے خواہ انفرادی طور پر دنیا مِیں سب سے پکا مسلمان وہی ہو۔

چنانچہ اگر ہم جناح سے یہ پوچھ سکتے کہ وہ “تمام انسانوں کی روح” جسے سر سید نے ایک دلہن کے علامتی رُوپ میں پیش کیا اور وہ محبوب جس کے لیے اقبال نے اپنی غزل میں کہا کہ صدیوں کے طویل انتظار کے بعد نمودار ہونے والا ہے، وہ کون ہے، تو جناح کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ ہے:

تم وہی ہو، لو تمہیں آج بتا دیتے ہیں!

چاندنی میں جسے لہروں پہ مچلتے دیکھا
چودھویں رات میں بادل سے نکلتے دیکھا
جس کی انگڑائی تھی اُٹھتے ہوئے طوفانوں میں،
جس کو کلیوں کے کلیجے پہ ٹہلتے دیکھا!

جس کو سینے میں دھڑکتے ہوئے اکثر پایا
جس کو تنہائی میں پہلو کے برابر پایا
اور کبھی ہم کو جدائی کا جو احساس ہوا،
اپنی ہر سانس کو چلتا ہوا خنجر پایا!

جس کے گالوں کو محبت سے کنول کہتے رہے
جس سے ملنے کے ارادے کو اٹل کہتے رہے
جانِ جاں، جانِ تمنا کا دیا ہم نے خطاب،
آج تک جس کے تصوّر میں غزل کہتے رہے!



آخر میں پھر یہ درخواست ہے کہ اپنے کمنٹ میں یہ ضرور بتائیے کہ آج کی قسط میں اِس سوال کا کیا جواب سامنے آتا ہے: کیا قوم کی طرف سے فیصلہ کرنا بھی ایک لیڈر کا کام ہے؟