عہدِ وفا


آج کی قسط کے پس منظر کے متعلق یہ کہنا ہے کہ 1946-1945 کے انتخاب میں شاندار کامیابی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے تمام کامیاب امیدواروں کا کنونشن بلایا۔ وہاں چھ سال پرانی قراردادِ پاکستان کی بنیاد پر ایک نئی قرارداد تیار کی گئی جو حقیقت میں پاکستان کی بنیاد ہے۔ کیا اس سے زیادہ افسوسناک بات کوئی اور ہو سکتی ہے کہ آج پاکستان کے اکثر پڑھے لکھے لوگ اس کے بارے میں نہیں جانتے ہیں؟

میں چاہتا ہوں کہ اس قسط کے آخر میں آپ ایک سوال کا واضح جواب ہاں یا نہیں کی صورت میں دیں۔ یہ “ہاں یا نہیں” کی بات میں اِس لیے پیش کی ہے کہ میں نے جب بھی یہ سوال پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھا ہے، عام طور پر مجھے بہت لمبی چوڑی باتیں سننے کو ملی ہیں جن کا اصل سوال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سوال درجِ ذیل ہے۔


اِس موقع پر مسلمانوں نے جو حلف اُٹھایا، کیا آپ بھی وہی حلف اٹھانا اور اُس کی پابندی کرنا چاہیں گے / گی؟ کیوں یا کیوں نہیں؟


آئیے، پہلے کچھ دیر کے لیے ہم اُس زمانے کی ذہنی فضا میں واپس چلے جائیں۔ اگر ہم 1946 کے مسلمانوں کی بات کریں تو اُس زمانے میں نوجوان گلوکار طلعت محمود کی آواز بیک وقت اُردو زبان کی شائستگی، جدت طرازی اور عہدِ شباب کی ترنگ کا نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ جیسا کہ دوسری قسط میں ذکر ہوا تھا، وہ صرف دو برس قبل فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے نغمے “تصیر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی” کے ساتھ پہلی دفعہ مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچے تھے۔

اُس گزشتہ قسط میں ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ اگرچہ بظاہر یہ گیت عشقِ مجازی کا معمولی اظہار لگتا ہے لیکن اس میں یہ خاص بات بھی ہے کہ شاعر محبوب کی مرضی معلوم کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ محبوب کی تصویر اِس لیے کافی نہیں ہے کہ نہ یہ اقرار کر سکتی ہے، نہ انکار کر سکتی ہے۔ اس لیے شاعر کو جیتا جاگتا محبوب چاہیے جو نہ صرف شاعر کی مرضی سے آگاہ ہو سکے بلکہ اپنی مرضی بھی بتا سکے اور دونوں ایک دوسرے کے ارادوں کا احترام کریں۔ اور یہ مرکزی خیال، برصغیر کے مسلمانوں کے تصوّرِ قومیت سے اس طرح میل کھاتا ہے کہ 1886 میں انہوں نے بھی قوم کی اُس تصویر کو مسترد کیا تھا جو مغربی تعلیم نے ہندوستان کے سامنے پیش کی تھی اور جسے کانگرس نے گلے لگا لیا تھا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے بانیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی جیتی جاگتی قوم کی مرضی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور پھر بعد میں اسی فیصلے سے مسلم لیگ نے جنم لیا تھا۔

اب، 1946 میں، قوم کی وہ جیتی جاگتی رُوح جسے سر سید نے ایک خوبصورت دلہن کی علامتی صورت میں پیش کیا تھا، حقیقت بن چکی تھی۔ آئیے، طلعت کا نغمہ اِس تصوّر کے ساتھ سنتے ہیں کہ اس میں جس محبوب سے خطاب کیا جا رہا ہے، وہ قوم ہے۔



یہ “آزادی” سیریز کی آٹھویں قسط ہے اور اپریل 1946 کے اُس واقعے کا احاطہ کرتی ہے جو حقیقت میں پاکستان کی بنیاد بنا۔



7 اپریل 1946 کی شام دہلی کے اینگلو عربک کالج میں مسلم لیگ لیجسلیٹرز کنونشن قائداعظم کی صدارت میں ہوا۔

انتخابات میں کامیاب ہونے والے تقریباً ساڑھے چار سو مسلم لیگی نمایندوں اور تقریباً دو سو صحافیوں کے علاوہ مہمان اور تماشائی بھی آئے۔ قائداعظم نے خطبۂ صدارت میں کہا:

“خدا کی مہربانی اور آپ کی سرتوڑ محنت سے ہم نے جو فتح حاصل کی ہے اُس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ہے … خدا ہمارے ساتھ ہے کیونکہ ہم درست راستے پر ہیں اور ہمارا مطالبہ اِس عظیم برصغیر میں رہنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مُنصفانہ ہے … میں نہیں سمجھتا  کہ  کوئی بھی طاقت یا حکومت ہمیں ہمارے پاکستان کے عزیز نصبُ العین کو حاصل کرنے سے روک سکتی ہے۔ صرف ایک شرط ہے — اتحاد!”

8 اپریل کو سبجکٹس کمیٹی کی میٹنگ دن بھر جاری رہی جس میں ایک قرارداد تیار کی گئی۔

یہ قرارداد کھلے اجلاس میں پیش ہوئی جو رات آٹھ بجے کے بعد شروع ہوا اور نصف شب کے بعد تک جاری رہ کر 9 اپریل کے ابتدائی اوقات میں ختم ہوا۔

قرارداد، بنگال کے مسلم لیگی رہنما حسین شہید سہروردی نے پیش کی۔ اس کی تائید میں چوہدری خلیق الزماں (یوپی)، سر غلام حسین ہدایت اللہ (سندھ)، سر محمد سعداللہ (آسام)، عبدالرؤف (سی پی)، نواب ممدوٹ (پنجاب)، آئی آئی چندریگر (بمبئی)، خان عبدالقیوم خاں نے (سرحد)، محمد اسماعیل (مدراس)، بیگم عزیزالنسأ رسول (یوپی)، سردار شوکت حیات خاں (پنجاب)، سر فیروز خاں نون (پنجاب)، بیگم شاہنواز (پنجاب)، لطیف الرحمٰن (بہار)، محمد یوسف (اڑیسہ)، راجہ غضنفر علی خاں (پنجاب) اور ابوالہاشم (بنگال) نے تقاریر کیں۔


اِس قرارداد کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ مسئلے کا تاریخی پس منظر، دوسرا حصہ مطالبۂ پاکستان اور تیسرا حصہ حاصلِ بحث ہے۔

تاریخی پس منظر پانچ نکات پر مبنی ہے:

مسلمانوں کا دین اُن کی زندگی کے تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں نافذ ہے۔ اِن تمام شعبوں میں یہ جو رہنمائی فراہم کرتا ہے، وہ ہندو دھرم کے اُس پہلو سے متصادم ہے جو صدیوں سے ذات پات کے نظام کی پرورش کرتا رہا ہے اور جس نے انسان اور انسان کے درمیان دیواریں حائل کر دی ہیں (یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قرارداد میں ہندومت کے ساتھ مذہبی اختلافات کو نہیں اُچھالا گیا اور بحث کو صرف اسی پہلو تک محدود رکھا گیا)۔

ذات پات کا ہندو نظام نہ صرف مساوات اور جمہوریت سے متصادم ہے بلکہ یہ مختلف لسانی، مذہبی، نسلی اور علاقائی گروہوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر انہیں ایک قوم بنانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے جبکہ اسلام کے آئیڈیلز میں یہ چیزیں شامل ہیں۔

ہندو اور مسلمان صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو علیحدہ قومیں ہیں اور ایک قوم نہیں بن سکے جس کے ارمان اور نصبُ العین مشترک ہوں۔

اس لیے ایک متحدہ ہندوستان میں جمہوری ادارے متعارف کروانے کا مطلب یہ ہو گا کہ اِکثریتی قوم، دوسری قوم کی اکثریت پر بھی حکومت کرے گی (جبکہ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا، مثلاً امریکہ میں انتخاب جیتنے والی جماعت یہ نہیں کہتی کہ اُسے برطانیہ پر بھی حکومت کرنے کا حق ہے جبکہ 1937 کے انتخاب کے بعد ہندوستان میں عملاً کچھ ایسی ہی صورت پیش آئی تھی۔ کانگرس، جسے صرف ہندو قوم نے منتخب کیا تھا، مسلمانوں پر بھی حکمراں ہو گئی جو اُسے مسترد کر چکے تھے)۔

چنانچہ شمال مشرقی حصے میں بنگال اور آسام، اور شمال مغربی حصے میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان  پر مشتمل خودمختار ریاست قائم کی جائے۔ یہ “مسلم ہندوستان کو ہندوؤں کے تسلط سے بچانے” اور “مسلمانوں کواپنی قدرتی صلاحیتوں کے مطابق خود کو ترقی دینے کے مواقع فراہم کرنے” کے لیے ضروری ہے (لہٰذا قیامِ پاکستان کے یہ دو بنیادی مقصد قرار پاتے ہیں)۔

دوسرے حصے میں کہا گیا تھا کہ “مسلم قوم کبھی ایک متحدہ ہندوستان کے لیے آئین قبول نہ کرے گے اور کبھی اس مقصد کے لیے بننے والے واحد دستورساز ادارے میں شریک نہ ہو گی” (اوریہ دونوں باتیں سچ ثابت ہوئیں)۔ نیز “ہندوستان کے مسئلے” کا حل (اِس سے مراد ہندوستان کا آزادی حاصل کرنا بھی ہوتا تھا)، مندرجہ ذیل اصولوں پر عمل کیے بغیر ممکن نہیں ہے:

اوپر جن مسلم اکثریتی علاقوں کا ذکر کیا گیا انہیں کسی تاخیر کے بغیر “ایک آزاد خودمختار ریاست” بنایا جائے (اس سے پہلے قراردادِ لاہور میں ان کے ایک ریاست بننے کی وضاحت نہیں کی گئی تھی)۔

” پاکستان اور ہندوستان کے عوام اپنے اپنے آئین کی تشکیل کے لیے دو علیحدہ دستورساز ادارے قائم کریں”۔

دونوں ریاستوں میں اقلیتوں کو 1940 کی قراردادِ لاہور کے مطابق تحفظات فراہم کیے جائیں (یعنی اُن کے تمام حقوق اُن کے ساتھ “مشاورت” کے ذریعے طے کیے جائیں)۔

مسلمم لیگ مرکز میں عبوری حکومت میں صرف اس شرط پر شامل ہو گی کہ پاکستان کے مطالبے کو قبول کر کے اس پر کسی تاخیر کے بغیر عمل درآمد شروع کیا جائے۔

آخری حصہ اِس اعلان پر مشتمل تھا کہ اگر متحدہ ہندوستان کی بنیاد پر کوئی آئین نافذ کرنے یا مرکزی حکومت بنانے کی کوشش کی گئی توایسی کوشش:

مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ چھوڑے گی کہ اپنی بقا اور قومی وجود کی خاطر ہر ممکن طریقے سے اس کی مزاحمت کریں۔


قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ جس کے بعد لیاقت علی خاں نے ایک حلف نامہ پڑھ کر سنایا۔ یہ پہلے سے سب کو دیا جا چکا تھا اور سب نے اس پر دستخط کیے تھے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

’’کہہ دیجیے کہ میری عبادت اور قربانی، اور میرا جینا اور مرنا اللہ کے  لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘ (قرآن)

میں اپنے اِس پختہ عقیدے کا باقاعدہ اعلان کرتا / کرتی ہوں کہ ہندوستان کے اِس برصغیر میں آباد ملتِ اسلامیہ کا تحفظ اور سلامتی، اور نجات اور تقدیر صرف پاکستان کے حصول پر موقوف ہے، جو دستوری مسئلے کا واحد منصفانہ، عزت دارانہ  اورعادلانہ حل ہے، اور جو اِس عظیم برصغیر کی مختلف قوموں اور ملّتوں کے لیے امن، آزادی اور خوشحالی لائے گا؛

میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اقرار کرتا/کرتی ہوں کہ پاکستان کے عزیز قومی نصبُ العین کےحصول کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے شروع کی جانے والی کسی بھی تحریک پر عمل درآمد کے لیے اس کی طرف سے جاری ہونے والے تمام احکامات اور ہدایات کی دلی رضامندی اور استقامت کے ساتھ اطاعت کروں گا/گی، اور چونکہ مجھے اپنے مقصد کے حق و انصاف پر مبنی ہونے کا یقین ہے، میں ہر اُس خطرے، امتحان یا قربانی سے گزرنے کا حلف اٹھاتا/اٹھاتی ہوں جس کا مجھ سے تقاضا کیا جائے۔

’’اے ہمارے رب! ہمیں صبر عطا فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور کفار کی قوم کے خلاف ہماری  مدد فرما!‘‘ آمین!


تقریب کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ اب پاکستان مسلمانوں کی اکثریت کی رائے نہیں بلکہ مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے، اور:

“وہ چند مسلمان جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں … ان کے وجود سے فرق نہیں پڑتا، لیکن کم سے کم اب وہ خاموش رہیں … میں اِس پلیٹ فارم سے بلاخوفِ تردید کہتا ہوں کہ مسلم ہندوستان ایک ہے اور پاکستان ہمارا مطالبہ ہے۔ اب ہم  یہ حلف اُٹھا چکے ہیں … پانچ سال میں ہماری قوم  کو نئی زندگی مل جانا کامیابی کا ایک معجزہ ہے۔ میں سوچنے لگتا ہوں جیسے یہ ایک خواب ہے۔ کتنی تیزی سے قوم وہی کردار [جو انگریزوں کی غلامی اور ہندوؤں کے اقتصادی تسلط کی وجہ سے کھو گیا تھا]، اپنی اصل شریف صورت میں دوبارہ حاصل کر رہی ہے! ہمارے مرد، ہماری عورتیں، ہمارے بچے – وہ اب مختلف طرح سوچتے، بولتے اور عمل کرتے ہیں۔”

حلف نامہ مسلم اخبارات میں اِس ہدایت کے ساتھ بھیجا گیا کہ ’’آج ہر مسلمان یہ حلف اٹھائے۔‘‘ یہ ہندوستان کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔



یہ وہ عہد تھا جو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے خدا کے ساتھ، ایک دوسرے کے ساتھ اور خطےّ کے غیرمسلموں کے ساتھ کیا۔ یہ اُن کی قومیت کو تصوّرات کی دنیا سے نکال کر زندہ حقیقت بناتا تھا:

پرچھائیں تو اِنسان کے کام آ نہ سکے گی!


تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی
یہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی

میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی
سینے سے لگا لوں گا تو یہ کچھ نہ کہے گی
آرام وہ کیا دے گی جو تڑپا نہ سکے گی!

یہ آنکھیں ہیں ٹھہری ہوئی، چنچل وہ نگاہیں
یہ ہاتھ ہیں سہمے ہوئے اور مست وہ بانہیں
پرچھائیں تو انسان کے کام آ سکے نہ گی!

اِن ہونٹوں کو فیاضؔ میں کچھ دے نہ سکوں گا
اِس زُلف کو میں ہاتھ میں بھی لے نہ سکوں گا
اُلجھی ہوئی راتوں کو یہ سُلجھا نہ سکے گی!



اِس موقع پر مسلمانوں نے جو حلف اُٹھایا، کیا آپ بھی وہی حلف اٹھانا اور اُس کی پابندی کرنا چاہیں گے / گی؟ کیوں یا کیوں نہیں؟