تصانیف (اُردو)


اِس صفحے پر خرم علی شفیق کی اُردو تصانیف کی فہرست ہے۔ انگریزی تصانیف کی فہرست علیحدہ ملاحظہ کیجیے۔


بطور مصنف


2019


“آزادی 1858 سے 1947” میں اِس بات کے تاریخی ثبوت پیش کیے گئے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند کو آزادی صرف آل انڈیا مسلم لیگ نے دلوائی تھی۔ اس میں کانگرس، ہندو مہاسبھا یا 1927 کے بعد کی ہندُو قیادت کا کوئی دخل نہیں تھا البتہ 1927 سے پہلے کے بہت سے غیرمسلم رہنما اِس سفر میں شریک تھے، جیسے مہاراجہ جے کشن داس، دادا بھائی نوروجی، گوپال کرشن گوکھلے اور چت رنجن داس وغیرہ۔

یہ کتاب ہندوستان کے برطانوی عہدِ حکومت کی تاریخ کا خلاصہ اِس نقطۂ نگاہ سے پیش کرتی ہے، اور یہ بھی واضح کرتی ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال اور مسلمان عوام کا نقطۂ نگاہ بھی یہی تھا۔

2019
ٹاپ لائن پبلشرز، کراچی
9789695670903


2011 سے 2017



علامہ اقبال نے ایک نئی ادبی تحریک کو جنم دیا تھا۔ اس تحریک کا اگلا اہم ترین سنگِ میل جو برصغیر کی آزادی کے بعد سامنے آیا، وہ ابن صفی کی ناول نگاری ہے۔ یہ بات “سائیکو مینشن”، “رانا پیلس” اور “دانش منزل” میں دکھائی گئی ہے۔ یہ تینوں مجموعے ابن صفی کے ناولوں میں سے ایسے اقتباسات پر مشتمل ہیں جن کی مدد سے قارئین یہ جان سکیں کہ نہ صرف ابن صفی نے حیات و کائنات کے ہر مسئلے کا احاطہ کیا بلکہ ان تمام مسائل پر وہ نقطۂ نگاہ پیش کیا جو اقبال ہی کے سلسلۂ افکار کا تسلسل ثابت ہوتا ہے۔ ہر اقتباس سے پہلے مؤلف کے مبسوط تبصرے بھی شامل ہیں۔

ان میں سے پہلا مجموعہ، جو 2011 میں شائع ہوا، ابن صفی کے ادب کے تجزیے پر مشتمل پہلی باقاعدہ کتاب تھا جس کے بعد دوسرے مصنفین نے بھی اس موضوع پر سنجیدہ قسم کی کتابیں پیش کرنا شروع کیں۔


ان مجموعوں کی ترتیب اس طرح ہے کہ “سائیکو مینشن” دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے “جمہورنامہ” میں بیس ایسے اقتباسات شامل ہیں جو معاشرتی مسائل کے تجزیوں پر مشتمل ہیں۔ دوسرے حصے “مزاح نامہ” میں بیس مزاحیہ اور طنزیہ اقتباسات شامل ہیں۔ یہ تمام اقتباسات اس انداز میں منتخب کیے گئے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک مختصر افسانے کے طور پر پڑھا جا سکے۔

“سائیکو مینشن” میں اکثر اقتباسات کا تسلسل علامہ اقبال کی فکر کے ساتھ خاصی وضاحت کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے۔ تاہم اس سلسلے کو یکسانیت سے بچانے کے لیے بعد کے دونوں مجموعوں میں ابن صفی اور اقبال کا ربط قاری کی اپنی سمجھ پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

2011
فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ
9789694411385


“رانا پیلس” تین حصوں پر مشتمل ہے۔ “حیرت نامہ” میں بیس سنسنی خیز اقتباسات شامل ہیں۔ “کردارنامہ” میں چَودہ ایسے اقتباسات شامل ہیں جو ابن صفی کے ناولوں کے مستقل کرداروں کو متعارف کرواتے ہیں۔ “سیاحت نامہ” میں تیرہ ایسے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں جو کسی نہ کسی بیرونی ملک کے بارے میں ہیں۔

2011
فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ
9789694411453


“دانش منزل” ابن صفی کے نَو طویل ترین ناولوں کے اقتباسات پر مشتمل ہے۔ یہ اقتباسات علامہ اقبال کی “گلشنِ راز جدید” کے نو سوالات کے مطابق ترتیب دئیے گئے ہیں اور دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ہر اقتباس میں ملکی یا بین الاقوامی سیاسی حالات کے بارے میں ایک غیرمعمولی بصیرت فراہم کی گئی ہے۔

2017
یو یم ٹی پریس
9699368370


2015


علامہ اقبال نے اپنے شاگرد حکیم احمد شجاع کے ساتھ مل کر اُردو کی درسی کتابوں کا ایک سلسلہ مرتب کیا تھا جو پانچویں، چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے لیے تھا۔ اس کا نام اُردو کورس تھا اور یہ پہلی دفعہ 1924 میں شائع ہوا۔ یہ کتابیں اس زمانے میں بہت مقبول ہوئیں اور پاکستان بننے کے چند سال بعد تک اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔

“کتابِ اردو” کی بنیاد یہی سلسلہ ہے۔ 2015 سے “کتابِ اردو” کی چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کی کتابیں پاکستان کے کئی اسکولوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ اس برس پہلی سے پانچویں جماعت کی کتابیں بھی پیش کر دی جائیں گی۔

یہ کتابیں اس طرح مرتب کی گئی ہیں کہ “اردو کورس” کے بہت سے پرانے اسباق نکال کر اُن کی جگہ نئے اسباق رکھ دیے گئے ہیں اور ہر سبق کے لیے نئی سرگرمیاں تیار کی گئی ہیں جو موجودہ زمانے کے مطابق ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتِ پاکستان کے نافذ کیے ہوئے نصاب کا خیال بھی رکھا گیا ہے۔

پوری کوشش کی گئی ہے کہ یہ عمارت اُسی بنیاد پر قائم ہو جو پاکستان کا تصوّر دینے والے حکیمُ الامّت نے اپنے ہونہار شاگرد کے ساتھ مل کر قوم کے لیے قائم کی تھی۔ اقبال اور شجاع نے اپنی کتابوں کے دیباچے میں ان کتابوں کی جو امتیازی خصوصیات بتائی تھیں، انہیں برقرار رکھنے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

مقصد یہ ہے کہ اردو زبان میں اعلیٰ اور جدید معیار کے مطابق ایسی تدریسی کتب فراہم کی جائیں جو قومی مقاصد، موجودہ نصاب، نئے زمانے کے تقاضوں اور طلبہ کی ضروریات اور دلچسپی پر حاوی ہوں۔

اُردو میں چھپنے والی کسی اچھی کتاب کی تعریف کرتے ہوئے عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ انٹرنیشنل معیار کے مطابق ہے لیکن “کتابِ اُردو” میں کوشش کی گئی ہے کہ معیار، نفسِ مضمون اور تزئین و آرایش کے لحاظ سے یہ دوسری زبانوں، خاص طور پر انگریزی، کی درسی کتابوں سے بہت آگے پائی جائے۔


کتابِ اُردو چھٹی جماعت کے لیے
2015
ٹاپ لائن پبلشرز، کراچی
9789695670606


کتابِ اُردو ساتویں جماعت کے لیے
2015
ٹاپ لائن پبلشرز، کراچی
9789695670613


کتابِ اُردو آٹھویں جماعت کے لیے
2015
ٹاپ لائن پبلشرز، کراچی
9789695670620


2010


اس کتاب کو نیشنل بک فاؤنڈیشن کی طرف سے تحریکِ پاکستان سے متعلق شخصیات پر بچوں کے لیے بہترین کتاب کا انعام ملا اور اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

علامہ اقبال نے جن نظموں پر “بچوں کے لیے” کی ذیلی سرخی ڈالی، وہ ایک ہی کردار کی سرگزشت معلوم ہوتی ہے، جس کی خودی پہلے مکھی کی طرح ہے جسے “مکڑے” (شیطان) سے خطرہ ہے، پھر وہ گلہری، بکری اور انسان کے مراحل تک پہنچتی ہے اور جگنو کی طرح چمکنے لگتی ہے۔ یہ کتاب اسی باہمی ربط کو تفصیل سے پیش کرتی ہے، جس پر پہلے کبھی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ نظموں کے انگریزی ماخذوں کا بھی تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے اور اساتذہ کے لیے خصوصی تجاویز بھی شامل کی گئی ہیں۔

2010
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور


یہ کتاب 1985 کے لگ بھگ لکھی گئی جب مصنف کی عمر سترہ برس تھی لیکن پہلی دفعہ کئی برس بعد شائع ہوئی۔

یہ پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید نشانِ حیدر کی پہلی مکمل سوانح حیات ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اس تاریخی شخصیت کو ایک انسان کے رُوپ میں دکھایا جائے جس کے دل و دماغ کی سرگزشت اس کی جانبازی کے مظاہرے سے کسی طرح کم نہ تھی۔

الفتّاح اکادمی، کراچی
2010
تقسیم کار: فضلی سنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ


2009


اس کتابچے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ علامہ اقبال کے کلام میں ایک داخلی ربط موجود ہے، جس پر تفصیل کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی مدد سے اقبال کا نظامِ الاسرار مرتب کیا جا سکتا ہے۔

اس کی تفصیل ایک برس پہلے مصنف کی انگریزی کتاب “دی ری پبلک آف رُومی” میں پیش کی گئی تھی۔ یہاں مصنف نے اس کتاب کے بعض بنیادی نکات اور کچھ نئے نکات اس لیے پیش کیے تھے کہ اقبال شناسی میں ایک نئی جہت کی ابتدأ ہو سکے۔

2009
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور
9789694164342


2008


اس کتاب میں مصنف نے علامہ اقبال کی اُردو شعری تصنیف “بالِ جبریل” کا تفصیل سے تجزیہ کر کے یہ دکھایا ہے کہ اس کی تمام منظومات میں ایک تسلسل ہے اور پوری کتاب کو شروع سے آخر تک ایک مسلسل تاثراتی کہانی کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔

یہ تحریر1993 میں لکھنا شروع کی گئی تھی لیکن کئی سال بعد مکمل کر کے مجلہ “اقبالیات” میں قسط وار پیش کی گئی اور پھر نظرِ ثانی کے بعد کتابی صورت میں پیش کی گئی۔

2008
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور
9789694163970


2006


یہ کتاب خرّم علی شفیق اور بعض دوسرے اہلِ علم کی تحریروں کا مجموعہ ہے جن میں کراچی کے ماہنامہ “ساحل” میں شائع ہونے والے اُن ملفوظات پر تنقید کی گئی ہے جنہیں سید سلیمان ندوی سے منسوب کر کے اُن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبات “ری کنسٹرکشن” سے رجوع کر لیا تھا۔

خرّم علی شفیق کی تحریر کا عنوان “خطبات کی تدوین پر چند اعتراضات کا جائزہ” ہے۔ اس میں ان مبینہ ملفوظات میں موجود تاریخی اور واقعاتی غلطیوں کا تجزیہ کر کے اس دعوے کو غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اقبال نے خطبات سے رجوع کر لیا تھا۔

2006
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور
9694163773


2003 سے 2012



1993 میں مصنف نے علامہ اقبال کی ایک مفصل سوانح لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو بہت جلد پانچ کتابوں پر مبنی منصوبے میں تبدیل ہو گیا جس میں اقبال کے بارے میں معلوم ہر بات کا حوالہ تاریخی ترتیب میں شامل ہو، اور پیشکش کا انداز بھی دلچسپ ہو۔ آگے چل کر اسے “جامع سوانحِ اقبال” کا نام بھی دیا گیا۔

2003 میں اِس سلسلے کی پہلی کتاب “دما دم روا ں ہے یمِ زندگی” کے عنوان سے شائع ہوئی، اور فوراً ہی ماہرینِ اقبالیات کی خصوصی توجہ حاصل کر گئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بہت سی تبدیلیوں اور اضافوں کے ساتھ 2008 میں “اقبال: ابتدائی دَور” کے عنوان سے اقبال اکادمی پاکستان سے شائع ہوا، جس نے اُس وقت تک پورے منصوبے کی سرپرستی کی حامی بھر لی تھی۔ یہ کتاب اقبال کی زندگی کا 1904 تک احاطہ کرتی تھی۔

2009 میں “اقبال: تشکیلی دَور” شائع ہوئی، جس میں 1905 سے 1913 تک کے زمانے کو پیش کرتی تھی۔

2012 میں “اقبال: درمیانی دَور” شائع ہوئی، جو 1914 سے 1922 تک کے عرصے پر محیط تھی۔

2017 میں “اقبال: دورِ عروج” مکمل ہوئی جس میں 1923 سے 1930 تک کے سوانح پیش کیے گئے تھے لیکن اسے اقبال اکادمی پاکستان کی طرف سے صرف پی ڈی ایف کی صورت میں انٹرنیٹ پر پیش کیا گیا اور کاغذی روپ میں پیش کرنے کی نوبت نہیں آئی ہے۔

مارچ 2018 میں اِس سلسلے کی آخری کتاب “اقبال: اختتامی دَور” مکمل کر لی گئی، جو 1931 سے 1946 تک کے واقعات کا احاطہ کرتی تھی، لیکن اسے مصنف نے شائع نہیں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ اس مرحلے پر پہنچ کر یہ بات سامنے آئی تھی کہ اقبالیات کے اکثر ماخذ جنہیں اب تک قابلِ اعتبار سمجھا گیا تھا، سخت ناقابلِ اعتبار ہیں۔ اس کے علاوہ برصغیر کے برطانوی عہد کی تاریخ کو ابھی تک جس طرح دیکھا گیا ہے وہ سرے سے غلط ہے، چنانچہ اس تاریخ میں اقبال کا اصل کردار بھی سامنے نہیں آ سکا ہے۔

اِن انکشافات کی روشنی میں مصنف کو اقبال کی پوری سوانح ازسرِ نو لکھنے کی ضرورت ہوئی اور یہ کام اگلے ایک برس میں مکمل ہوا۔ اب اقبال کے مفصل سوانح تین کتابوں کی صورت میں بالترتیب “اقبال کی جستجو: 1906 تک”، “اقبال کا راستہ: 1907 سے 1926 تک” اور “اقبال کی منزل: 1927 سے 1946 تک” میں پیش کیے جائیں گے۔

اس کے باوجود پرانے “جامع سوانح اقبال” کی جو تین کتابیں کاغذی صورت میں اور جو چوتھی کتاب الیکٹرانک صورت میں سامنے آئی، اُس نے اقبال کی زندگی، افکار اور اُن کے عہد کے بہت سے ایسے گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جو پہلے اندھیرے میں تھے، اور بہت سی ایسی نئی معلومات پیش کی ہے جو پہلے دستیاب نہیں تھی۔ یہ کتابیں اقبالیات میں اپنے لیے ایک مستقل مقام بنا چکی ہیں، اور یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ نیا سلسلہ شائع ہونے کے بعد ماہرین اس پرانے سلسلے کا اُس کے ساتھ کس طرح موازنہ کرتے ہیں۔


“اقبال: ابتدائی دَور، 1904 تک”
2008
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور
9789694164240


“اقبال: تشکیلی دَور، 1905 سے 1913”
2009
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور
9789694164304


“اقبال: درمیانی دَور، 1914 سے 1922 تک”
2012
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور
9789694164762


“دمادم رواں ہے یمِ زندگی: حیاتِ اقبال کا پہلا دَور – 1904 تک”
2003
الحمرا پبلشنگ، اسلام آباد
9695161006


1993


“سمندر کی آواز سنو”، قائداعظم محمد علی جناح کی سوانح حیات ہے جسے مکمل طور پر منظرکشی کی تکنیک کے ذریعے پیش کر کے یہ تجربہ کیا گیا کہ پڑھنے والے کے ذہن پر یہی تاثر ابھرے جیسے کوئی فلم دیکھی جا رہی ہے۔

1993
دِیا پبلی کیشنز، اسلام آباد


1988


“نشان حیدر” میں پاکستانی فوج کے اُن آٹھ شہدأ کے سوانحی خاکے پیش کیے گئے ہیں جنہیں اُس وقت تک ملک کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز دیا گیا تھا۔ اِن میں سے اکثر خاکے اِس کتابی صورت میں آنے سے پہلے اخبار “جنگ” کے میگزین میں شائع ہو چکے تھے۔

ہر خاکے کے شروع میں علامہ اقبال کا ایک شعر دیا گیا ہے جو اُس شخصیت کے حسبِ حال ہے۔

1988
شفیق اکیڈمی، کراچی


1985


“غار کا راز”، بچوں کے لیے ایک بہت ہی مختصر کتاب تھی جس میں اصحابِ کہف کی کہانی پیش کی گئی تھی۔ یہ مصنف کے کالج میں پڑھنے کے زمانے میں شائع ہوئی۔


بطور نگراں یا مترجم


“اَسرار و رموز جونئر ایڈیشن”
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور

“جاویدنامہ جونیئر ایڈیشن”
اقبال اکادمی پاکستان، لاہور


مقالات


  • جمہوری ادب
  • ڈاکٹر مبارک علی

ٹیلی فلمیں اور مفرد ڈرامے


      • 1998 تم میرے پاس رہو [شریک مصنف]
      • 2001 سوچا تھا پیار نہ کریں گے
      • 2006 آزاد ایکچوئیلی
      • 2007 اقبال

ٹیلی وژن سیرئیلز اور سیریز


      • 2001 فیصلہ [شریک مصنف]
      • 2002 لیلیٰ مجنوں
      • 2003 رستم و سہراب
      • 2005 پارٹیشن ایک سفر [شریک مصنف]
      • 2005 آ میرے پیار کی خوشبو
      • 2005 نہ تم جانو نہ ہم جانیں

اسٹیج ڈرامے


      • 1993 سلطان رضیہ
      • 1994 داراشکوہ
      • 1999 منٹوراما

یہ معلومات محترمہ ماریہ غنی کے ایم فل کے زیرِ تکمیل مقالے “خرّم علی شفیق کی اقبال فہمی: تحقیقی مطالعہ” سے حاصل کی گئی۔