زندگی کے رازداں

 


پچھلی قسط پڑھ کر کسی نے پوچھا ہے:

“کس سطح پر تبدیلی اور کس طرح کی تبدیلی لانے سے یہ ملک اور یہاں رہنے والی قوم ترقی کی طرف جا سکتی ہے؟ پاکستان تو کب کا آزاد ہو چکا، اب ہمیں اِس کی ترقی اور کامیابی کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ میں نے یہی پایا ہے کہ ہم شہری تو ہر طرح سے ملک کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن سیاسی معاملات اور سیاستدانوں میں مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تو میرا سوال یہی ہے کہ ہمارے قومی رہنما جنہوں نے پاکستان کے لیے بہت سی قربانیاں دیں وہ تو اپنا کام کر چکے ہیں، اب آگے کیا کرنا لازم ہے جس سے اِس ملک کے حالات بہتر ہوں اور آزادی کا اصل مطلب بھی لوگوں کو جینے کو مل سکے۔”

آپ نے آزادی کے “اصل مطلب” کا ذکر کیا ہے تو وہ میرے خیال میں یہ ہے کہ معاشرے میں غربت اور خوف کا تصوّر بھی باقی نہ رہے (دیکھیے میری پوسٹ، “مرغدین: جہاں غربت اور خوف نہیں“)۔ جس سطح پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے وہ انفرادی ہے کیونکہ پہلی قسط میں ہم نے دیکھا کہ ہماری تمام مشکلات کی اصلی اور حقیقی وجہ یہی ہے کہ ہم ایک ایسے تعلیمی نظام کی پیداوار ہیں جس نے ہماری نظروں میں ہماری قوم کو حقیر بنا دیا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ میں یہ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی قوم کو عزت دینا سیکھیں۔


آج بھی ہم فیاض ہاشمی کے ایک نغمے سے آغاز کریں گے۔ 1966 میں ایک پاکستانی فلم ریلیز ہوئی، “شبنم”، جس کا ایک نغمہ میڈم نورجہاں کی آواز میں آج تک مقبول ہے۔ پہلا مصرعہ ہے، “چُن لیا میں نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا”!

آپ یہ نغمہ سنتے ہوئے یہ معلوم کرنے کی کوشش کیجیے کہ اِس میں محوب کا انتخاب کرنے کی کیا وجہ بتائی جا رہی ہے۔ یعنی اگر کسی کو “چُن لیا”، تو کس بنیاد پر چُنا؟




1887، 1897 اور 1902 میں کسی نہ کسی اتفاق کی وجہ سے برطانوی کالونیوں کے نمایندے یا وزرائے اعظم لندن میں اکٹھے ہوئے جہاں انہیں آپس میں مشاورت کرنے کا موقع ملا۔  1894 میں کینیڈا نے بھی بعض اہم معاملات پر صلاح مشورے کے لیے اس قسم کی ایک کانفرنس بلوائی۔

اس طرح برطانیہ میں یہ خیال زور پکڑتا گیا کہ مفتوحہ علاقوں کے ساتھ تعلقات مشاورت کی بنیاد پر استوار ہونے چاہئیں۔ 1906 میں طے ہوا کہ اس مقصد کے لیے باقاعدگی کے ساتھ کانفرنسیں منعقد ہوا کریں، ان کا ایک مستقل سیکرٹیریٹ ہو اور یہ تمام امور طے کرنے کے لیے مارچ 1907 میں اگلی کانفرنس بلوائی جائے۔


نیٹشے

اس کے برعکس بعض یورپی دانشوروں میں یہ نظریہ  مقبول ہونے لگا کہ نئے اور بلند خیالات کچھ لوگ تخلیق کرتے ہیں اور پھر وہ خیالات عوام تک پہنچتے ہیں۔ اس لحاظ سے مشاورت ایک فضول چیز تھی یا اس کی افادیت بہت محدود تھی اور روحانی برابری کی کوئی گنجایش نہیں تھی۔

اس نظریے کا سب سے بڑا مبلغ جرمن مفکر فریڈرک نیٹشے تھا۔

1887 میں اِس نظریے کے لیے “اشرافی انقلابیت” (aristocratic radicalism) کی اصطلاح وضع کی گئی  (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، “سیمرغ: علامہ اقبال کے لیکچرز کا تعارف“)۔


سر آرتھر کونن ڈائل

1887 ہی میں آرتھر کونن ڈائل نے (جنہیں بعد میں سر کا خطاب ملا)، انگریزی ادب کا لازوال کردار شرلک ہومز پیش کیا۔

اگر پچھلے سال شائع ہونے والی کہانی “ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ” میں برطانوی معاشرے کا یہ مسئلہ چھُپا ہوا تھا کہ خیر اور شر کے رجحانات بیک وقت فروغ حاصل کر رہے ہیں (جیسا کہ پچھلی قسط میں ذکر ہوا)، تو شرلک ہومز کے کردار میں اس مسئلے کا حل پوشیدہ تھا۔

وہ حل یہ تھا کہ چیزیں ویسی نہیں ہوتیں جیسی نظر آتی ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ بظاہر جو مجرم دکھائی دے رہا ہے، جرم اُسی نے کیا ہو۔ لازم ہے کہ ظاہر سے گزر کر حقیقت کو پہچاننے کی ہمت پیدا کی جائے۔ ہومز کا عقیدہ یہ ہے کہ “جب آپ کسی بھی صورت حال میں سے ناممکنات کو خارج کر دیں تو پھر جو بھی رہ جائے وہی سچ ہے خواہ کتنا ہی بعید از قیاس لگتا ہو”۔

آنے والا دَور صرف اُن لوگوں کے لیے تھا جن میں یہ ہمت موجود ہو:

چیتے کا جگر چاہیے، شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنیٔ دانش و فرہنگ



1887 میں سیّد احمد خاں کو سر کا خطاب ملا جس کے بعد وہ ’’سر سیّد‘‘ کہلانے لگے۔

اس برس انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل نہ ہوں۔

ایک وجہ یہ تھی کہ انگریزوں اور مسلمانوں کے دلوں میں ابھی تک ایک دوسرے کے لیے کافی غصہ اور شکوک و شبہات موجود تھے۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ کانگرس نے جو مطالبات پیش کیے وہ مسلمانوں کے مفاد میں نہ تھے۔

اس کے علاوہ کانگرس نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایجی ٹیشن کا طریقہ اختیار کیا، جسے سر سید بہت فضول سمجھتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا:

“امریکہ میں اول اسی قسم کا ایجی ٹیشن شروع ہوا تھا اور آخر کو یہاں تک نوبت پہنچی کہ آخری لفظ جو اُن کے منہ سے نکلا وہ یہ تھا کہ ’’نو ٹیکسیشن وِدآؤٹ رپرزنٹیشن‘‘! پس جن لوگوں  میں اِس لفظ کے کہنے کی طاقت ہو وہ اس کانگرس کے ایجی ٹیشن میں شریک ہوں ورنہ ہیجڑوں کی طرح تالیاں بجانی ہیں۔”

حالی کا کہنا ہے کہ:

’’پرانے خیالات کے مسلمان بھی جو ہمیشہ سر سید کی ہر ایک رائے اور ہر ایک تجویز کی مخالفت یا اس سے نفرت ظاہر کرتے تھے، اُنہوں نے بالاتفاق ان کی رائے کو تسلیم کر لیا اور باستثنائے معدودے چند تمام تعلیم یافتہ مسلمانوں نے بھی اس پر پورا پورا عمل کیا، نیز پرانے خیالات کے اکثر ہندوؤں نے اور تقریباً کل تعلقہ داروں، جاگیرداروں اور رئیسوں نے عام اس سے کہ ہندو ہوں یا مسلمان ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کیا۔‘‘


چنانچہ مسلمانوں کے اگلے بیس برس تعلیم اور ترقی پر توجہ دینے، اور ثقافتی قوتوں کو مجتمع کرنے میں صرف ہوئے۔

محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس ان کی ملک گیر تنظیم تھی لیکن پورے ہندوستان میں چھوٹے چھوٹے پیمانے پر اِسی قسم کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کا ایک جال سا بچھنے لگا۔ عام طور پر یہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔


کانفرنس کے سالانہ جلسوں نے، جو مختلف شہروں میں ہوتے تھے، واقعی پورے خطے کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں بڑا کام کیا۔

1892 کے اجلاس میں صدرِ جلسہ مولوی حشمت اللہ نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:

“دس اینٹوں میں کچھ نہیں ہے۔ جب ملا دیجئے دیوار ہے۔ اِسی طرح قوم کی قوّت بڑھانے کو یہ پہلا جلسہ ہے۔ اس میں مل کر اور یہاں آ کر جو مسرّت ہو جاتی ہے، یہ اُنہیں سے پوچھئے جو اِس میں شریک ہیں کُل ملک میں کوئی جلسہ قومی نہ تھا۔ اس کا وجود بجائے خود اپنی غایت کو ثابت کرتا ہے۔”


اِس خیال کے مطابق ایک فرد کی طرح قوم بھی بتدریج نشو و نما پاتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔ ہر مرحلے کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔

یہ بات جس شخص نے ایک مکمل فلسفے کی صورت میں بیان کی وہ محسن الملک تھے۔ 1893 کے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

“پیغمبر ہوں یا مصلحانِ قوم، خدا نے سب کے لیے یہ قاعدہ رکھا ہے کہ ان کی کوشش کو منزلِ مقصود تک پہونچنے میں بہت سے درجے طے کرنے پڑتے ہیں … میں ان لوگوں کو نتیجہ دیکھنے کی اُمید نہیں دلا سکتا جو صبر نہیں کرتے زمانہ ان کی خواہشوں سے اپنی رفتار  بدل نہیں سکتا۔ قدرت کے قانون میں ان کی بے صبری سے کچھ تبدیلی نہیں ہو سکتی … زمین میں بیج ڈالنے سے فصل کے تیار ہونے تک کئی درجے طے کرنے پڑتے ہیں۔

“کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ ہماری قسمت میں آیندہ کیا لکھا ہے۔ ہم اپنے مقصود پر کامیاب ہوں گے یا ہماری کوششیں ضائع اور رائیگاں جائیں گی۔ مگر جس راستہ پر ہم نے چلنا شروع کیا ہے وہ سیدھا راستہ ہے اور سیدھی راہ پر چلنے والا اگر برابر چلتا رہے، بلاشبہ منزلِ مقصود پر پہونچتا ہے۔”

چنانچہ محسن الملک کے لحاظ سے اُن کے زمانے میں قوم نے جس سفر کا آغاز کیا وہی سفر مرحلہ بہ مرحلہ آج تک جاری ہے۔ وہ اور اُن کے جانشین اس سفر کے مختلف مراحل کی نشاندہی بھی کرتے گئے، مثلاً آج کی قسط کے آخر میں ہم دیکھیں گے کہ ان لوگوں نے 1887 سے 1906 کے عرصے کو ایک مرحلہ قرار دیا (آج کی قسط اسی لحاظ سے ہے اور بقیہ اقساط بھی انہی لوگوں کے بتائے ہوئے مراحل کے لحاظ سے ہوں گی)۔


اِس پہلے مرحلے (1887-1906) کی کیا خصوصیت تھی؟

محسن الملک کے لحاظ سے یہ ایک نئی ابتدا تھی۔ چنانچہ قوم کی تاریخ میں یہ بالکل ویسا ہی زمانہ تھا جیسا کہ انسانیت کی تاریخ میں حضرت آدم علیہ السلام کا زمانہ یا وہ مرحلہ جب اِس زمین پر پہلے پہل انسان کا ظہور ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح آدم علیہ السلام نے شجرِ ممنوعہ کا پھل کھایا تھا، اُسی طرح سر سید کے کہنے پر مسلمانوں نے علم کے درخت کا پھل چکھا اور:

“جن لوگوں نے وہ پھل کھایا نیکی و بدی کو پہچاننے لگے۔ اور اُس گناہ میں غفلت اور بیخبری کی بہشت سے نکالے گئے۔ وہ اپنے آپ کو ننگا دیکھ کر شرمندہ ہوئے اور اپنی عریانی چھپانے کی فکر کرنے لگے…

“اب ہم ہیں اور طرح طرح کی تکلیفیں، قومی ہمدردی، قومی محبت، قومی ترقی، قومی تعلیم، قومی تربیت، قومی اصلاح اور خدا جانے کتنے عذاب! مگر جب کہ ہم نے خود ان مصائب کو قبول کیا، تو اُسے اب مردانہ وار برداشت کرنا چاہئے۔

“تاکہ وہ دوامی راحت، اور لازوال خوشی، ہم کو نصیب ہو جو نتیجہ ان تکلیفوں کا اور ثمرہ ان مصیبتوں کا ہے۔”



انڈین نیشنل کانگرس کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان کی اشرافیہ کو اپنی حکومت کے نمایندے منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔

ایک بہت محدود پیمانے پر یہ مطالبہ 1892 میں منظور ہوا جب انڈین کونسلز ایکٹ نافذ ہوا۔

اگرچہ اس ایکٹ میں ’’انتخاب‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا لیکن یہ واضح تھا کہ وائسرائے کی کونسل کے کچھ نمایندے منتخب بھی ہوں گے (وائسرائے کی کونسل اس زمانے میں ایک طرح سے اسمبلی کی حیثیت رکھتی تھی)۔ انتخاب کرنے کا حق ایک خاص حد سے زیادہ جائیداد رکھنے والوں، اور لوکل باڈیز اور یونیورسٹیوں تک محدود تھا۔


مسلمانوں نے محسوس کیا کہ یہ ایکٹ انہیں اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق نہیں دیتا۔

اس مسئلے کی ایک جامع وضاحت سر سید کے صاحبزادے سید محمود نے 1896 میں ایک میمورنڈم میں کی جو مسلمانوں کی ایک ایسوسی ایشن کی طرف سے حکومت کو پیش کیا گیا۔

اس میں کہا گیا:

“ریپریزنٹیشن کا اصلی منشأ یہ ہوتا ہے کہ منتخب شدہ شخص انتخاب کرنے والوں کو ریپریزنٹ کرے۔ موجودہ حالت میں لیجلسٹیو کونسل کے لیے بھی منتخب کرنے والے کثرت سے ہندو ہیں اور ہندو انتخاب کرنے والے اگر وہ کافی عقل رکھتے ہوں گے۔ تو وہ انہیں مسلمانوں کو منتخب کریں گے۔ جن کے خیالات اُن سے بالکل یا تقریباً ملتے جلتے ہوں۔ اور اس طرح مسلمانوں کو معلوم ہو گا کہ اُن کے فرضی وکلأ جو درحقیقت ہندوؤں کی وجہ سے منتخب ہوئے تھے ایک ایسی پالیسی کی تائید کر رہے ہیں جس کو تمام مسلمان ناپسند کرتے ہیں

“انتخابی طریقہ کے ابتدائی اصول اِس بات کو چاہتے ہیں کہ مسلمان ممبروں کے انتخاب کے لیے مسلمان ہوں۔ اور ہندو ممبروں کے انتخاب کے واسطے ہندو

“اس کا انتظام نہایت آسانی سے یوں ہو سکتا ہے کہ ایسا قاعدہ بنایا جائے جس کی رو سے کسی خاص انتخاب میں میونسپلٹیوں کی ایک خاص جماعت کے ہندو میونسپل کمشنر کسی ہندو ممبر کو منتخب کرے۔ اور دوسرے انتخاب میں مسلمان میونسپل کمشنر کسی مسلمان ممبر کو۔ یہی اصول امپیریل لیجسلٹیو کونسل کے ممبروں کے انتخاب میں اختیار کرنا چاہیے۔”


سیدھے سادے الفاظ میں مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کو حق ہونا چاہیے کہ وہ بھی اپنے نمایندے چُن سکیں۔ یہی وہ اصول ہے جسے جداگانہ انتخاب (separate electorate) کہا گیا (“جداگانہ نیابت” بھی کہتے تھے)۔

یہ اصول بعد کی پوری مسلم تاریخ کا سب سے اہم اصول بن گیا۔ مسلمان اسے اُس وقت تک چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے جب تک کہ انہوں نے پاکستان حاصل نہیں کر لیا۔ اسی کی وجہ سے پاکستان کا حصول ممکن ہوا۔

اِس بات سے سید محمود کی اہمیت کا اندازہ لگائیے اور پھر سوچیے کہ ہماری اِس سے بڑی غفلت کیا ہو گی کہ ہماری تاریخ کی کتابوں اور نام نہاد “مطالعۂ پاکستان” میں ان کا نام تک درج نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے، “ایک زندہ قوم اس لیے زندہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مرے ہوؤں کو نہیں بھولتی۔” اس لحاظ سے ہم تعلیم یافتہ کہلانے والے پاکستانی کیا زندہ کہلانے کے مستحق ہیں؟

یہاں اُن کی تصویر دی جا رہی ہے تاکہ آج ہم کم سے کم اتنی اہم شخصیت کی صورت سے آشنا تو ہو جائیں۔



1898 میں سر سید فوت ہو گئے۔

محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا دسمبر 1899 کا اجلاس کلکتہ میں ہوا اور مشہور کتاب “روِحِ اسلام” کے مصنف جسٹس سید امیر علی نے خطبۂ صدارت میں کہا:

“آج ہم ایک نئی صدی کے آستانے پر کھڑے ہیں اور آیندہ صدی میں جو ترقی کی اُمیدیں ہو سکتی ہیں اُن کو سوچ کر خوش ہوتے ہیں۔ خصوصاً ہم میں سے جو لوگ نوجوان ہیں اُن کو اُمید رکھنی چاہیے کہ جس صدی کے آغاز میں وہ کوششیں کر رہے ہیں وہ اُن کی قوم کی علمی ترقی اور بہبودی کا ایک دَور ہو گا اور یہ  بھی بھروسہ رکھنا چاہیے کہ ہر فرد بشر کی مساعی پر اُس کی قوم کی ترقی منحصر ہے۔”

جس نسل نے ان سرگرمیوں کے درمیان ہوش سنبھالا اور جو نئی صدی کے آغاز کے وقت نوجوان تھی، اُس کے اُبھرتے ہوئے ستاروں میں محمد علی جوہر، شوکت علی، اقبال اور جناح شامل تھے۔


اقبال کی شہرت کا آغاز انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے جلسوں سے ہوا جن کا ایک مقصد یتیموں کے لیے چندہ جمع کرنا تھا اور جس نظم سے انہیں پہلی دفعہ شہر ت ملی وہ ’’نالۂ یتیم‘‘ تھی جو اُنہوں نے 1900 میں سنائی۔

1904 میں اپنی پہلی نثری تصنیف “علمُ الاقتصاد” کے دیباچے میں لکھا:

“اِس زمانے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مفلسی بھی نظمِ عالم میں ایک ضروری جزو ہے؟ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائیں اور ایک درد مند دل کو ہلادینے والے افلاس کا دردناک نظارہ ہمیشہ کے لیے صفحۂ عالم سے حرفِ غلَط کی طرح مِٹ جائے؟”


انجمن حمایت اسلام کا جلسہ 1904۔ دائیں سے چوتھے بیٹھی ہوئی دوسری قطار میں حالی، اور کھڑی ہوئی پہلی قطار میں اقبال ہیں۔

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انگریزی تعلیم نے بعض ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کی تاریخ سے جو نفرت پیدا کی تھی اُس کا اولین اظہار اِس تحریک کی صورت میں ہوا تھا کہ اُردو  کی بجائے ہندی رائج کر دی جائے۔ جب تک سر سید زندہ رہے انہوں نے یہ کوششیں کامیاب نہ ہونے دیں۔ 1898 میں اُن کا انتقال ہوا اور 1900 میں یوپی کے گورنر سر انٹونی میکڈانل نے حکم جاری کیا کہ سرکاری دفاتر میں ناگری حروف جاری کر دئیے جائیں۔

مؤرخ امین زبیری کے مطابق حکومت کے اس اقدام نے ’’مسلمانوں میں سخت بیچینی پیدا کر دی کیونکہ مسلمانوں کے لیے من حیث القوم یہ رزولیوشن سخت مضر تھا … اور دوسرے فریق [ہندوؤں] کے لیے بھی کچھ زیادہ مفید نہ تھا۔‘‘


علیگڑھ میں اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم ہوئی تاکہ اس سلسلے میں مسلمانوں کا مطالبہ حکومت تک پہنچایا جائے۔

اگست 1900 میں لکھنؤ میں اس کے ایک جلسے میں نواب محسن الملک نے کہا:

“مجھے ہرگز یقین نہیں ہے کہ گورنمنٹ ہماری زبان کو مرنے دے گی، بلکہ اس کو زندہ رکھے گی اور وہ کبھی مرنے نہ پائے گی مگر اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جو کوشش اس کے مارنے کی دوسری طرف سے ہو رہی ہے اگر وہ برابر جاری رہی تو آیندہ کسی وقت ہماری زبان کو صدمہ پہنچے گا۔ یہی خوف ہے جس کے لیے یہ  کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ ہم اپنی زبان کو زندہ رکھ سکیں اور اگر خدانخواستہ وہ وقت آوے کہ اس کو زندہ نہ رکھ سکیں تو اس کا جنازہ تو دھوم سے نکالیں ع

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے”

یو پی میں اُردو کی بجائے ہندی رائج ہو گئی جس کے بعد یہ ایسوسی ایشن بھی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ لیکن اس دوران مسلمانوں میں اپنی سیاسی حالت کا احساس   بہت شدت سے بیدار ہوا اور یہ سوال اُبھر کر سامنے آیا کہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔



1903 میں وائسرئے لارڈ کرزن نے اعلان کیا کہ بنگال کا صوبہ بہت بڑا ہے۔ اس لیے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

بنگال میں اُس وقت ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ تقسیم  کا مطلب تھا کہ بنگال کے مشرقی حصے پر مشتمل ایک نیا صوبہ وجود میں آئے گا اور وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو گی۔ تقسیم کے خلاف ہندوؤں کی طرف سے سخت احتجاج ہوا لیکن 1904 میں تقسیم ہو گئی اور 1911 تک رہی۔

تقسیمِ بنگال کے خلاف احتجاج کے دوران ہندوستانی وطنیت کا احساس شدت کے ساتھ ابھرا۔



1904 میں کانگرس کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آسام کے ریٹائرڈ چیف کمشنر سر ہنری کاٹن نے کہا:

’’وہ بڑا سیاسی مسئلہ کیا ہے جو آپ کے سامنے ہے؟ اُس تحریک کے حقیقی معنی کیا ہیں جس ہندوستان میں رہنے والوں کی مختلف قوّتوں کو جس چیز نے وحدت بخشی ہے وہ تعلیم ہی ہے، لیکن صرف وہ تعلیم جو انگریزی طریقے اور مغربی تہذیب کے خطوط پر اُستوار ہے۔‘‘


یہ الفاظ اس لیے اہم ہیں کہ یہاں کانگرس کا ایک صدر کہہ رہا ہے کہ ہندوستان کی وحدت انگریزی تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے (اس زمانے میں یہ بات کانگرس کے جلسوں میں عام طور پر کہی جاتی تھی)۔

ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ اس تعلیم نے تاریخ کے بارے میں ایک غیرحقیقی رویے کو فروغ دیا تھا۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی وحدت اور ہندوستانی وطنیت کا نیا احساس تاریخ کے بارے میں ایک غلط رویے پر قائم تھا۔

چنانچہ جیسے جیسے یہ احساس بڑھا، ہندوستان کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا گیا، جیسا کہ ہم آیندہ اقساط میں دیکھیں گے۔


1904 ہی میں دو نغمے ہندوستان کے نئے احساس کے ترجمان بن گئے۔

ان میں سے ایک اقبال کی وہ نظم تھی جو ستمبر اور اکتوبر میں اُردو کے بعض رسالوں میں شائع ہوئی:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا



دوسرا گیت ’’بندے ماترم‘‘ تھا۔ یہ بنگالی میں تھا اور اِسے دسمبر میں کانگرس کے اجلاس میں ترانے کی طرح گایا گیا:

ماں! میں تیرے آگے جھکتا ہوں
رواں بہتی ندیوں والی
باغوں کی روشنی سے چمکتی ہوئی
مسرت کی ٹھنڈی ہواؤں والی
پراسرار کھیت لہلہاتے ہیں، اے ماں شکتی والی، اے ماں آزاد!



مسلمانوں میں، خصوصاً بنگال میں، تقسیم کی حمایت میں تحریک چلی کیونکہ نیا صوبہ بننے سے مسلمان فائدے میں رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ یہ صوبہ ختم ہو جائے۔

ہندوؤں نے انگریزی مصنوعات بالخصوص کپڑے کے خلاف سودیشی تحریک بھی شروع کی تھی اور اُس کی وجہ سے بھی مسلمان تاجروں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

نوجوان اقبال اس وقت اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جا چکے تھے۔ ایک ہندوستانی اخبار نے اُن کی رائے دریافت کی تو اُنہوں نے اپنے جواب میں لکھا کہ سودیشی تحریک مفید ہے کیونکہ ’’کوئی ملک سیاسی آزادی حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ پہلے اس کے اقتصادی حالات درست نہ ہو جائیں۔‘‘ لیکن انہوں نے انگریزی مصنوعات کے بائیکاٹ اور قانون شکنی جیسے اقدامات کی واضح الفاظ میں مذمت کی۔ بنگال کے مسلمان بھی ان اقدامات کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس لحاظ سے اقبال نے بنگالی مسلمانوں کے مؤقف کی تائید میں یہ زبردست دلیل پیش کر دی کہ:

“سیاسی آزادی کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ بغیر دام دئیے مل جائے۔ انگلستان کی سرزمین کے ہر ذرّے میں اُن لوگوں کا خون چمکتا ہوا نظر آتا ہے جنہوں نے سیاسی حقوق کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ باغیوں کی طرح نہیں بلکہ ان لوگوں کی طرح جن کے دلوں میں اپنے وطن کے قانون اور رسول کی عزّت ہوتی ہے اور جو اپنے گراں قدر خون کے قطرے قانون کی تائید میں بہاتے ہیں نہ اس کی تردید اور مخالفت میں۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو قوم خود آزادی کی دلدادہ ہو وہ اوروں کی آزادی کو رشک کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی اور انگریزوں کی معاشرت دیکھ کر بھی میرے اِس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ ہاں ہم لوگوں میں اس کی قابلیت ہونا ضروری ہے۔”



1906 میں برطانیہ میں لبرل پارٹی کی حکومت قائم ہوئی جس کے بعض اقدامات کو کانگرس کی فتح سمجھا گیا۔ نئے وزیر ہند لارڈ مارلے نے پارلیمنٹ میں کہا:

’’اعلیٰ عہدوں پر ہندوستانیوں کے تقرر کے حوالے سے، میرے خیال میں، ایک پیش رفت — ایک واضح اور دوٹوک پیش رفت — ہونی چاہیے جس کا مقصد یہ ہو کہ اہل اور قابل مقامی افراد کو بھی انتظامیہ  کی اونچی اسامیوں تک رسائی کے وہی مواقع فراہم کر دئیے جائیں جو ہمارے ہموطنوں کو ملتے ہیں۔‘‘

محسن ُالملک کے پاس ملک بھر سے خطوط آنے لگے کہ مسلمانوں کو  بھی اپنے سیاسی حقوق کی فکر ہونی چاہیے اور اپنے نمایندے منتخب کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔


سر سید کے ایک اور قریبی ساتھی نواب مولوی مشتاق علی خاں وقار الملک پہلے ہیان معاملات میں سرگرم تھے۔ محسن الملک نے ان سے مشورہ کیا۔

علیگڑھ میں ایک کمیٹی بلائی گئی۔ اُس کے فیصلے کے مطابق  ملک بھر کے نمایاں مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کی آرأ جمع کر کے ایک عرضداشت ترتیب دی گئی اور پانچ ہزار مسلمانوں کے دستخط حاصل کیے گئے۔

اس ے بعد یہ یادداشت انگریزی حکومت کے موسمِ گرما کے دارالحکومت شملہ میں وائسرائے کی خدمت میں پیش کر دی گئی۔



وفد کی قیادت سر آغا خاں سوئم نے کی۔ عرضداشت میں کہا گیا تھا:

“جو طریقہ نیابت و نمایندگی کا یورپ میں رائج ہے وہ اہلِ ہند کے لیے بالکل نیا ہے اور حقیقت یہ  ہے کہ ہماری قوم کے بعض دوراندیش افراد کا خیال ہے کہ اس طریقہ کو ہندوستان کی موجودہ تمدنی اور سیاسی حالت پر کامیابی کے ساتھ منطبق کرنے کے لیے نہایت حزم و احتیاط و مآل اندیشی سے کام لینا پڑے گا جو اگر نہ لیا گیا تو منجملہ اور خرابیوں کے ایک بہت بڑی خرابی یہ پیش آئے گی کہ ہمارے قومی اغراض کا سیاہ و سفید ایک ایسی جماعت کے حوالے ہو  جائے گا جسے ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے۔


لندن ٹائمز نے لکھا کہ اِس وفد نے ’’مسلمانوں کی بیس سالہ سیاسی خاموشی کو توڑا ہے، وہ بیس سال جس کے دوران میں مسلمان سر سید احمد کی اِس نصیحت پر وفاداری کے ساتھ قائم رہے کہ وہ اپنے آپ کو سیاسی تحریک [ایجی ٹیشن] میں شریک نہ ہونے دیں گے۔ اگرچہ اب انہوں نے منظم طور پر سیاسی کام شروع کیا ہے لیکن حقیقی معنوں میں وہ انہی کے مشورے پر پوری طرح چل رہے ہیں۔‘‘


چت رنجن داس، جن کا ذکر پہلے ایک قسط میں ہو چکا ہے، ایک پرجوش نوجوان کے طور پر اُس سودیشی تحریک میں شامل تھے جس کی مخالفت کرنے والوں نے مسلم لیگ قائم کی۔ لیکن دس گیارہ سال بعد اُنہوں نے بھی کہا:

“مجھے یاد نہیں ہے کہ اُس وقت میں  نے کیا محسوس کیا تھا لیکن اب مجھے نظر آتا ہے کہ وہ رویہ جو مسلمانوں نے اختیار کیاتھا — وہی مخالفت جو وہ کر رہے تھے — وہ اُن کی قومی بیداری کا نتیجہ تھا۔ اُس زمانے میں ہم نواب سلیم اللہ مرحوم کے کام کی تحقیر کرتے تھے کیونکہ انہوں نے بنگال میں سودیشی تحریک کے خلاف مسلمانوں کو منظم کیا تھا۔ اب میں ایسا نہیں کرتا کیونکہ   اُس سرگرمی کی صورت جو بھی رہی ہو، بہرحال نواب سلیم اللہ  نے مسلمانوں کو منظم کر دیا۔ وہ قوم کی رُوح تھی جو اُس لمحے مسلمانوں  میں بول اٹھی۔ یہ نام ایک دفعہ بیدار ہو جائے تو مجھے اِس سے غرض نہیں ہے کہ کیسے بیدار ہوا تھا۔ اِسے بیدار ہونے دیجیے، اس میں وسعت خود ہی آ جائے گی۔ ہر بات جو سچائی  پر مبنی ہے وہ قومی شعور کا حصہ ہے۔”



یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ عین اس وقت دوسرے اسلامی ممالک میں بھی سیاسی بیداری واقع ہو رہی تھی۔ ایران میں عوام اور علمائے کرام کے مطالبے پر بادشاہ پہلی دفعہ ملک کے لیے ایک آئین بنانے پر محبور ہوا۔ چنانچہ ایران کی تاریخ میں پہلی دفعہ جدید طرز کے انتخاب ہوئے اور پارلیمنٹ وجود میں آئی۔

ترکی اور مصر میں بھی اسی قسم کی تحریکیں چل رہی تھی۔


محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے بیسویں اجلاس کے آخر میں، جو دسمبر 1906 میں ڈھاکہ میں ہوا، آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔

اس کے قیام کی قرارداد پیش کرتے ہوئے ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاں نے کہا:

“جنہوں نے ہمارے حالات کا زیادہ  گہرا مطالعہ کیا ہے وہ اس نئی تحریک کو نیا آغاز نہیں بلکہ راستے کا ایک نیا موڑ سمجھیں گے۔ ابھی کل شام ہی ہم نے اپنی ایجوکیشنل کانفرنس کے بیسویں اجلاس کا کام ختم کیا، اور اگر سر سید احمد خاں مرحوم کی اس سے پہلے کی کوششیں بھی نظر میں رکھی جائیں تو ہماری اِس وقت کی کاروائی اُس کام کا ایک قدرتی مرحلہ ہے جو تقریباً نصف صدی پہلے شروع  کیا گیا

“آج ہم زمانے کے تقاضے کے مطابق ایک ملّت کے طور پر سیاسی زندگی کا آغاز کر سکتےہیں۔ اسباب ایک مدّت سے تیار تھے لیکن صرف اب وقت آیا ہے کہ ہم اُن سے ایک ملّت کے تانے بانے بُن سکیں گے۔ اور لیگ کی روح ہمارے شاعر کی رُوح ہو گی جس نے کہا تھا:

آزادہ رَو ہُوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے”



ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سلیم اللہ نے پچھلے پچاس برس کی تاریخ کو دو مراحل میں تقسیم کیا:

      • 1858 سے 1886 تک ایک طرح سے تیاری کا زمانہ تھا۔ اس زمانے کی اہم بات سر سید احمد خاں کی کوششیں تھیں جو اُنہوں نے قوم کی محبت کو فروغ دینے کے لیے کیں۔  چنانچہ آزادی کی قسط نمبر 2، تمام انسانوں کی روح، میں اِسی مدّت کا احاطہ کیا گیا۔
      • 1887 سے 1906، سلیم اللہ کے مطابق وہ عرصہ تھا جب قوم نے ایک سفر کا آغاز کیا اور یہ عرصہ اس سفر کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس عرصے کی نمایاں خصوصیت محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی سرگرمیاں تھیں۔ آزادی کی موجودہ قسط، آزادی کی جستجو، اسی مدّت پر مبنی ہے۔

میں نے علامہ اقبال کی جو مفصل سوانح از سرِ نو لکھی ہے، اُس کی پہلی کتاب اقبال کی جستجو بھی اسی لحاظ سے 1906 پر ختم ہوتی ہے۔ چنانچہ 1858 سے 1906 کی وہ بہت سی تفصیلات جو یہاں اختصار کی وجہ سے پیش نہیں کی جا سکیں، وہاں مل جائیں گی۔ مجھے امید ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ کتاب شائع ہو جائے گی۔


اس کے علاوہ میری انگریزی تصنیف حیاتِ اقبال اور ہمارا عہد کے ابتدائیہ اور پہلے باب کی ترتیب بھی اسی کے مطابق ہے۔ ابتدائیہ 1886 پر ختم ہوتا ہے۔ پہلا باب 1887 سے 1906 کے عرصے پر محیط ہے۔ انگریزی دان قارئین مزید تفصیلات کے لیے اُس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔


جہاں تک مسلم لیگ کے قیام کا تعلق ہے، یہ ہماری تاریخ میں ایک اہم حقیقت کا انکشاف تھا۔ وہ اہم حقیقت یہ تھی کہ بالکل اسی طرح جیسے ایک فرد اپنی مرضی بتا سکتا ہے، قوم بھی اپنی مرضی بتا سکتی ہے۔

چنانچہ ہمیں اپنے مقاصد خود متعین کرنے کی بجائے قوم سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ کیونکہ قوم کی مرضی نہ کسی عقلی دلیل سے پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی جذباتیت کو دخل ہوتا ہے۔ قوم کی مرضی اور قوم کے ارادوں کا تعلق اُس گہرے راز سے ہوتا ہے جسے ہم زندگی کہتے ہیں:

عقلِ بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبُوں کارِ حیات
فکر بے نُور ترا، جذبِ عمل بے بنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِ حیات
خوب و ناخُوب عمل کی ہو گِرہ وا کیونکر
گر حیات آپ نہ ہو شارحِ اسرارِ حیات!

یہ نظم علامہ اقبال کی ہے۔ تعلیم نے ہماری آنکھوں پر جو پٹی باندھی ہے، اُسے اُتار کر دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ اس نظم میں علامہ اقبال نے جو بات کہی ہے، فیاض ہاشمی نے اُسے بڑے ہی سادہ الفاظ میں اُس نغمے میں بیان کر دیا ہے جو قسط کے شروع میں پیش کیا گیا (اِس بات سے آپ کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ نغمے میں عشقِ مجازی کا انداز ہے۔ بھٹائی اور وارث شاہ کی ہیروئینیں بھی بظاہر محبوبِ مجازی ہی سے خطاب کیا کرتی ہیں اور فیاض بھی ایک صوفی شاعر تھے):

چُن لیا میں نے تمہیں، سارا جہاں رہنے دیا
پیار نہ کرنا یہ دل کہتا رہا، کہنے دیا

دُور رہ کر پاس ہو تم، اِس کرم کا شکریہ!
بِن ملے لُوٹا ہے تم نے، اِس ستم کا شکریہ!
تم نے میرے دل کو بھی میرا کہاں رہنے دیا!

کیا خبر تھی تم ملے تو زندگی مل جائے گی!
آہ کرنے والے ہونٹوں کو ہنسی مل جائے گی!
زندگی کو زندگی کا رازداں رہنے دیا!



اگلی قسط، “آزادی کا راستہ” میں 1907 سے 1926 کے واقعات پیش کیے جا رہے ہیں جن میں سے بعض اس لیے حیرت انگیز ثابت ہوں گے کہ آج ہم اُن سے بالکل بیخبر ہوئے بیٹھے ہیں۔


آج کی قسط کے حوالے سے اگر کوئی سوال ہے تو  کمنٹ کی صورت میں درج کر دیجیے۔

لیکن ایک سوال میں بھی آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ کے خیال میں آج کی قسط میں سب سے اہم بات کیا سامنے آئی ہے؟