غازی علم الدین شہید کے بارے میں اقبال سے منسوب فقرہ


یکم جو ن کے "دنیا” اخبار میں خورشید ندیم ملک نے اپنے کالم میں میری تصنیف "اقبال کی منزل” کے حوالے سے ایک جملہ لکھا ہے جس کے متعلق مجھ سے اتنے زیادہ استفسارات کیے جا رہے ہیں کہ مجھے وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔

خورشید صاحب  کا جملہ ہے:

"حال ہی میں علامہ اقبال پر خرم علی شفیق صاحب  کی بہت محققانہ کتاب شائع ہوئی ہے، جس میں اُنہوں نے تواتر کو پہنچے ہوئے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ اقبال کی طرف اُس جملے کی نسبت خلافِ واقعہ ہے۔”

میں خورشید صاحب کی تہِ دل سے عزت کرتا ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں  ہرگز نہیں لکھا کہ وہ نسبت "خلافِ واقعہ” ہے۔ ایک محقق کے طور پر میرا منصب یہ ہے کہ میرے سامنے جو شواہد موجود ہوں، میں اُنہی کے دائرے میں رہوں۔ جو شواہد میرے پاس تھے اور میں نے پیش بھی  کیے ہیں، وہ اِس فیصلے پر پہنچنے کے لیے ناکافی ہیں کہ علامہ اقبال کی طرف اُس جملے کی نسبت "خلافِ واقعہ” ہے یا امرِ وااقعہ ہے۔ چنانچہ میرے لیے اِس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ صادر کرنا قطعی غیرمناسب ہوتا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں جہاں اس فقرے کا حوالہ دیا ہے، وہاں میں اسے اقبال سے منسوب کرنے اور نہ کرنے پر بحث نہیں کر رہا بلکہ صرف ایک روایت کا تجزیہ کر رہا ہوں ہے جس کے مطابق اقبال نے وہ فقرہ ایک مخصوص زمانے میں کئی بار کہا۔ چنانچہ وہاں میرا کام صرف یہ دکھانا تھا کہ آیا اُس مخصوص زمانے میں اقبال ایسی بات کہہ سکتے تھے یا نہیں۔

میرے پاس جو شواہد  موجود تھے اور جنہیں میں نے اپنی کتاب میں پیش کیا اُن کی روشنی میں یہی سامنے آتا ہے کہ اُس مخصوص زمانے میں اقبال کا ایسی بات کہنا "قرینِ قیاس” نہیں بلکہ "بعیدازقیاس” ہے۔  چنانچہ میں نے "خلافِ واقعہ” کے بجائے "قرینِ قیاس” اور "بعید از قیاس” کے الفاظ ہی استعمال  کیے، اور وہ بھی اقبال کی پوری زندگی نہیں بلکہ صرف ایک مخصوص زمانے کے حوالے سے۔

میری تحریر کا وہ حصہ جہاں زیرِ بحث فقرے کا ذکر آیا ہے، اصل میں میری کتاب کے صفحات 205 اور 206 پر موجود حاشیہ ہے۔ غلط فہمی کے ازالے کے لیے اُس حاشیے کا وہ تمام حصہ مندرجہ ذیل ہے جو اِس بحث سے تعلق رکھتا ہے:

"وہ روایت قرینِ قیاس نہیں ہے جو وحیدالدین، روزگارِ فقیر اول، ص۱۱۳ پر نقل ہو کر مشہور ہوئی کہ یہ فقرہ’’غازی علم الدین شہید کی شہادت کے زمانے میں علامہ کی زبان سے بار بار سنا گیا: ’اَسی گلاں کردے رہے تے ترکھاناں دا مُنڈا بازی لَے گیا۔‘ (ہم باتیں ہی بناتے رہے اور نجّار کا لڑکا بازی لے گیا)۔‘‘ علم الدین کی شہادت سے پہلےعلامہ یہ اس لیے نہیں کہہ سکتے تھے کہ  مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ علم الدین نے راجپال کو قتل نہیں کیا ہے۔ علامہ جیسے رہنما کی زبانی ایسا جملہ استغاثہ  کے حق میں جاتا۔ شہادت کے بعد کے چند ہفتوں میں بھی علامہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ تب اُنہوں نے حکومت کے سامنے ذمہ داری لے رکھی تھی کہ مسلمان مشتعل نہیں ہوں گے۔ اس لیے بعید از قیاس ہے کہ یہ فقرہ’’غازی علم الدین شہید کی شہادت کے زمانے میں علامہ کی زبان سے بار بار سنا گیا۔‘‘ ہاشمی و دیگر، اقبالیات کے سو سال،   ص۸۱ پر  یوسف سلیم چشتی کے روزنامچے کے مطابق ۳ ؍ یا ۴ ؍ اکتوبر ۱۹۳۰ء کو علامہ نے چشتی سے کہا، ’’علم الدین شہید کا جذبہ اُس کی مکمل شخصیت کی گہرائی سے اُبھرا تھا اور اُس میں شعور اور ارادہ بھی شامل تھا۔‘‘ چشتی کے اپنے بیان کے سوا اس کی کوئی سند نہیں ہے لیکن  بہرحال اکتوبر ۱۹۳۰ء میں ایسی بات کہی جا سکتی تھی کیونکہ تب اس واقعے کو تقریباً ایک سال گزر چکا تھا۔”

یہاں میری کتاب کا زیرِ بحث حاشیہ ختم ہو جاتا ہے۔ اگر خورشید صاحب اپنی طرف سے کہہ دیتے کہ میری کتاب پڑھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اقبال کی طرف اُس جملے کی نسبت خلافِ واقعہ ہے تو  دوسری بات ہوتی۔ تب کوئی اور شخص  بھی کہہ سکتا تھا کہ کتاب پڑھ کر وہ اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اقبال کی طرف اُس جملے کی نسبت خلافِ واقعہ نہیں ہے۔ اس قسم کی کسی بحث سے میرا کوئی تعلق نہ ہوتا کیونکہ ایک قاری کوئی بھی کتاب پڑھ کر کسی بھی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے۔ مصنف  سوائے سب کا شکریہ ادا کرنے کے اور کیا کر سکتا ہے!

مجھے وضاحت کی ضرورت اِس لیے  پیش آ رہی ہے کہ  خورشید صاحب نے  میری تحریر سے جو نتیجہ اخذ کیا، اُسے وہ مجھ سے منسوب کر بیٹھے ہیں کہ خرم علی شفیق صاحب نے "ثابت کیا ہے کہ اقبال کی طرف اِس جملے کی نسبت خلافِ واقعہ ہے۔” مجھے اُمید ہے کہ میری کتاب کے اصل اقتباس سے، جو میں نے یہاں پیش کیا ہے، اِس غلط فہمی کا ازالہ ہو گیا ہو گا۔

آخر میں صرف یہی اضافہ کرنا ہے کہ خورشید صاحب کے لیے میرے دل میں جو عزت ہے، اُس کی وجہ سے میرے لیے یہ بات اپنی جگہ ایک اعزاز سے کم نہیں ہے کہ اُنہوں نے اپنے کالم میں میری کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔ خدا اُنہیں سلامت رکھے۔