تحریکِ پاکستان کے گمشدہ مرحلے


یادش بخیر، اس سلسلے کی پہلی قسط کے شروع میں پنکج ملک کی آواز اور کمل داس گپتا کی موسیقی میں فیاض ہاشمی کا مشہور نغمہ پیش کیا گیا تھا، “یہ راتیں، یہ موسم، یہ ہنسنا ہنسانا”۔ جیسا کہ اُس وقت ہم نے دیکھا تھا، یہ نغمہ 1940 یا اس کے چند برس بعد کا ہے، اور اُس دَور کی ایک پہچان بن چکا ہے۔ آج کی قسط اُسی زمانے کے بارے میں ہے، اِس لیے یہ نغمہ ایک دفعہ پھر دہرایا جا رہا ہے۔

اُس قسط میں ہم نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ہم اِس نغمے کو برصغیر کی ہزار سالہ مسلم تہذیب کا ہندُو تہذیب سے خطاب بھی سمجھ سکتے ہیں۔ آج کی قسط شروع کرنے سے پہلے یہ نغمہ اِسی احساس کے ساتھ دوبارہ سُنیے۔


یہ “آزادی” سیریز کی ساتویں قسط ہے اور 1937 سے 1946 کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔


1937 کے شروع میں برطانوی ہندوستان میں عام انتخابات ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کانگرس اور مسلم لیگ نے جماعتوں کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔


کانگرس نے گیارہ میں سے پانچ صوبوں میں واضح اکثریت حاصل کی لیکن یہ کامیابی غیرمسلم نشستوں پر تھی۔

ہندوستان کی صوبائی اسمبلیوں میں مسلم نشستوں کی کُل تعداد 482 تھی۔ کانگرس ان میں سے صرف چھبیس  نشستیں حاصل کر سکی، جن میں پندرہ صوبۂ سرحد سے ملیں اور بڑی حد تک عبدالغفار خاں کی وجہ سے تھیں۔

باقی پورے ہندوستان میں کانگرس کے مسلمان نمایندے صرف گیارہ تھے۔

  کُل مُسلم لیگ، مسلم کانگرس، مسلم کانگرس، کُل
بنگال 250 117 40 صِفر 54
پنجاب 175 84 1 2 18
سندھ 60 33 صِفر صِفر 7
سرحد 59 36 صِفر 15 19
یُوپی 228 66 27 صِفر 134
مدراس 215 28 11 4 159
بہار 152 39 صِفر 5 98
سی پی برار 112 15 صِفر صِفر 70
بمبئی 175 29 20 صِفر 86
آسام 108 34 10 صِفر 33
اڑیسہ 60 4 صِفر صِفر 36
کُل 1585 482 110 26 716

مسلم لیگ نے صرف مسلم نشستوں پر انتخاب لڑا۔ یوپی، مدراس اور بمبئی میں کانگرس سے زیادہ مسلم نشستیں حاصل کیں۔ پورے ہندوستان کی مسلم نشستوں میں سے ایک سو دس حاصل کیں جو کانگرس کی چھبیس مسلم نشستوں کے مقابلے میں چار گنا سے بھی زیادہ تھیں۔ انتخاب کے بعد بہت سے دوسرے ارکان بھی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تو یہ تعدد بڑھ گئی۔


مارچ 1937 میں کانگرس نے دہلی میں اپنے کامیاب امیدواروں کا اجلاس بلایا جسے آل انڈیا کنونشن آف کانگرس لیجسلیٹرز کہا گیا (آل انڈیا نیشنل کنونشن بھی کہلایا)۔

اقبال نے جناح کو لکھا:

“آپ کو چاہیے کہ فوراً دہلی میں ایک آل انڈیا مسلم کنونشن بلائیں جس میں آپ نئی صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں اور دوسرے ممتاز مسلم رہنماؤں کو بلائیں۔ اس کنونشن میں آپ پوری وضاحت اور قوت کے ساتھ ہندوستان میں ایک جداگانہ سیاسی وحدت کے طور پر مسلمانوں کے نصبُ العین کا اعلان کر دیں۔”

  یہ کنونشن اقبال کی زندگی میں نہ ہو سکا لیکن 1946 میں دہلی ہی میں ہوا جیسا کہ ان کی خواہش تھی (اگلی قسط میں دیکھیئے گا)۔


کانگرس نے جن صوبوں میں کامیابی حاصل کی تھی اُن میں وزارتیں قبول کرنے کے لیے اس نے یہ شرط رکھی کہ آئین کے تحت صوبائی گورنروں کو جو خصوصی اختیارات دئیے گئے ہیں، وہ انہیں استعمال نہ کرنے کا وعدہ کریں۔

اس شرط پر صوبائی حکومتیں قبول کرنے کے بعد کانگرس نے مسلم لیگی امیدواروں کو صوبوں کی کابیناؤں میں وہ حصہ دینے سے صاف انکار کر دیا حو آئین کے رُو سے مسلمانوں کو ملنا تھا۔ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے امیدواروں سے کہا کہ وہ لیگ کی بجائے کانگرس کی وفاداری کا حلف اٹھائیں تو اُنہیں وزارت مل سکتی ہے۔


یہ اُن حقوق کی خلاف ورزی تھی جو نئے آئین کے تحت مسلمانوں کو دئیے گئے تھے اور گورنروں کے پاس خصوصی اختیارات تھے کہ ایسی صورت میں مداخلت کریں۔ لیکن کانگرس پہلے ہی حکومت سے یہ وعدہ لے چکی تھی کہ گورنروں کے خصوصی اختیارات استعمال نہیں کیے جائیں گے۔

مسلم لیگ نے اپنے قیام سے اس وقت تک آئین میں مسلمانوں کے لیے حقوق اور تحفظات رکھوانے کے لیے  کوشش کی تھی لیکن اب وہ حقوق اور تحفظات آئین میں موجود ہوتے ہوئے بھی بیکار ثابت ہوئے!

 اُس زمانے کے نوجوان مسلم لیگی کارکن عاشق حسین بٹالوی نے لکھا ہے:

“سادہ، ناخواندہ اور سیاسی مسائل سے بیخبر مسلمان عوام کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ مخلوط یا ’کولیشن‘ وزارت کسے کہتے ہیں … تاہم جب عوام کو صاف، سیدھی زبان میں یہ بتایا جاتا تھا کہ کانگرس نے اُن مسلمانوں کو وزارت کی گدّی پر بٹھایا دیا ہے جن کو سو میں سے نناوے مسلمان اپنا نمایندہ تسلیم کرنے سے نکار کرتے ہیں تو بات فوراً ان کی سمجھ میں آ جاتی تھی۔”


 ان حالات میں جب لاہور کی ایک مقامی طلبہ تنظیم نے اپیل کی کہ جنوری 1938 میں ملک بھر میں یومِ اقبال منایا جائے تو برطانوی ہند میں پنجاب سے لے کر بنگال تک تقریبات ہوئیں۔ اقبال ہمیشہ سے مسلمانوں میں مقبول رہے تھے لیکن اب وہ ہندو فاشزم کے خلاف مسلم احتجاج کی علامت بن گئے۔

جب اس کے کچھ ہی مہینے بعد اپریل 1938 میں علامہ اقبال فوت ہوئے تو سال بھر تک ان کا سوگ منایا گیا۔



اقبال کی وفات کے وقت کلکتہ میں مسلم لیگ کا خصوصی اجلاس ہو رہا تھا جس کے لیے ہندوستان بھر کے مسلمان رہنما  اکٹھے ہوئے تھے۔ اس لیے جب لاہور میں اقبال کی نمازِ جنازہ پڑھی جا رہی تھی، اُسی وقت کلکتہ میں پچاس ساٹھ ہزار کے مجمعے نے بھی اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی اور جناح کی صدارت میں تعزیتی جلسہ کیا۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا شوکت علی اور جناح نے کہا کہ اقبال  کی زندگی کا مشن مسلمانوں کو متحد کرنا تھا اور وہ اِس اطمینان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ اُن کا مشن کامیابی کے ساتھ مکمل ہوچکا ہے۔


دسمبر 1938 میں پٹنہ کے اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قرارداد منظور کی کہ 1935  کے آئین میں تجویز کیے ہوئے وفاق  کا متبادل تلاش کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اجلاس میں پہلی دفعہ جناح کے لیے ’’قائداعظم زندہ باد!‘‘ کا نعرہ بلند ہوا۔


1939 میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی اور 1945 تک جاری رہی۔


مسلم لیگ نے واضح اعلان کیا کہ مسلمان ہرگز نہیں چاہتے کہ نازی ازم کے فلسفے کی حامل محوری طاقتیں اس جنگ میں کامیاب ہوں۔ اس لیے اِس مشکل وقت میں برطانیہ پر کوئی دباؤ ڈالنے کی بجائے مسلم لیگ صرف اِس بات کی یقین دہانی چاہتی ہے کہ جنگ کے بعد کوئی بھی آئین مسلمانوں کی مرضی کے بغیر ہندوستان پر مسلط نہیں کیا جائے گا۔ وائسرائے نے تسلیم  کر لیا۔

کانگرس نے فوری ’’آزادی‘‘ کا مطالبہ کیا اور چونکہ کانگرس کی اجازت کے بغیر ہندوستان کو جنگ میں شریک کیا گیا تھا اس لیے احتجاجاً وزارتوں سے استعفا دے دیا۔


قائداعظم نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ کانگرسی حکومتوں سے چھٹکارہ ملنے پر خدا کا شُکر کریں اور 22 دسمبر کو ’’یومِ نجات‘‘ منائیں۔ بعض جگہوں پر دوسری اقلیتیں بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو گئیں۔


فروری 1940 میں لیگ کی آئینی سب کمیٹی نے اُن اسکیموں پر غور کیا جو وفاق کے متبادل کے طور پر مسلمانوں ہی کی طرف سے سامنے آ چکی تھیں۔ تمام اسکیموں پر غور کر کے کچھ بنیادی اصول طے کیئے گئے۔



22 سے 24 مارچ 1940 تک لاہور کے منٹو پارک میں مسلم لیگ کا ستائیسویں اجلاس ہوا جس میں حاضرین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔

اسی اجلاس میں پہلی دفعہ میاں بشیر احمد کی نظم انور قریشی نے ترنم کے ساتھ پیش کی:

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح



قائداعظم نے اپنے خطبۂ صدارت میں کہا:

“جنگ [دوسری جنگِ عظیم] کا اعلان ہونے تک وائسرائے نے کبھی میرے بارے میں نہیں بلکہ صرف اور صرف گاندھی ہی کے بارے میں سوچا تھا۔ میں کافی عرصے سے اسمبلی میں ایک اہم جماعت [آزاد اُمیدواروں کی جماعت] کی   قیادت کرتا رہا ہوں… پھر بھی وائسرائے نے کبھی میرے بارے میں نہیں سوچا۔ اس لیے جب [دوسری جنگِ عظیم شروع ہونے کے بعد] وائسرائے کی طرف سے گاندھی کے علاوہ مجھے بھی دعوت نامہ موصول ہوا تو میں نے اپنے دل میں بہت تعجب کیا کہ اچانک میری یہ ترقی کیسے ہو گئی اور پھر میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا جواب ہے، ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘، جس کا میں صدر ہوں … میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں  چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے منظم ہونے کی افادیت، اہمیت اور معنویت کو جانیں … انسان آ سکتے ہیں اور اِنسان جا سکتے ہیں مگر لیگ ہمیشہ زندہ رہے گی۔”

آخر میں پڑھے لکھے مسلمانوں کو علیحدہ سے مخاطب کر کے کہا، ’’عوام پوری طرح بیدار ہیں۔ اُنہیں صرف آپ کی رہنمائی اور قیادت کی ضرورت ہے۔ اسلام کے خادم بن کر سامنے آئیے، عوام کو اقتصادی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی طور پر منظم کیجیے اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایک ایسی طاقت ہوں گے جسے سب تسلیم کریں گے۔‘‘

22 اور 23 مارچ کو مسلم لیگ کی سبجکٹس کمیٹی نے اُن اصولوں کی روشنی میں جو پہلے طے کیے جا چکے تھے، ایک قرار تیار کی جسے اجلاس کے دوران ’’آئینی قرارداد‘‘ اور اجلاس کے بعد ’’قراردادِ لاہور‘‘ کا نام دیا گیا (ہندو پریس نے جلد ہی ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کہنا شروع کر دیا اگرچہ قرارداد میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا تھا)۔

یہ قرارداد 23 مارچ کو مولوی فضل الحق وزیراعظم بنگال نے کھلے اجلاس میں پیش کی اور بہت سے رہنماؤں کی تائید کے بعد اگلے روز متفقہ طور پر منظور کی گئی (اس لیے اس کے بعد برطانوی راج کے اختتام تک مسلم لیگ نے ہر سال 23 مارچ کو یومِ پاکستان منایا)۔

 قرارداد میں کہا گیا تھا کہ:

1. ہندوستان کو تقسیم کیا جائے۔
2. شمال مغربی اور شمال مشرقی خطے، جہاں مسلمانوں کی  اکثریت ہے، علیحدہ ریاستیں بنا دئیے جائیں۔
3. مسلم اور غیرمسلم علاقوں میں اقلیتوں کے تمام حقوق ’’اُن کے ساتھ مشاورت کے ذریعے طے کیے جائیں۔‘‘


ہندو پریس نے جلد ہی اس مجوزہ ریاست کو پاکستان کا نام دیا کیونکہ یہ لفظ ایک غیرمتعلقہ شخص چوہدری رحمت علی کی پیش کی ہوئی ایک اسکیم کی وجہ سے خاصا بدنام ہو چکا تھا۔ مسلم لیگ نے نام قبول کر لیا لیکن وضاحت کر دی کہ رحمت علی کا مسلم لیگ کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


1942 میں برطانوی حکومت کے رُکن سر اسٹیفورڈ کرپس نے متبادل تجویز پیش کی، پھر گاندھی نے بھی قائداعظم کے ساتھ طویل مذاکرات کیے اور 1945 میں شملہ میں وائسرائے کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ لیکن مسلمانوں کے اُس موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جو قراردادِ لاہور میں پیش کیا گیا تھا۔



قائداعظم کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کا مقدمہ بہت ٹھوس بنیادوں پر قائم تھا۔


پاکستان کا مقدمہ

قائداعظم کے مطابق پاکستان کا مطالبہ ’’ہندوؤں کے اچھے یا برے سلوک کا نتیجہ‘‘ نہیں تھا۔

بلکہ تجربے سے یہ بات ظاہر ہوئی تھی کہ ہندوستان میں برطانوی راج دو چیزوں پر قائم ہے: اول، یہ غلط مفروضہ کہ ہندوستان ایک ملک ہے یا کبھی ایک ملک رہ چکا ہے۔ دوم، مغربی جموریت، یعنی جمہوریت کی وہ قسم جہاں اکثریتی جماعت حکومت کرتی ہے (قائداعظم اتفاقِ رائے پر مبنی جمہوریت کے قائل تھے، جس کا کچھ تعارف ایک گزشتہ قسط میں اقبال، چت رنجن داس اور فولیٹ کے حوالے سے ہو چکا ہے)۔


چنانچہ مسلم لیگ نے تقسیم کا مطالبہ کر کے برطانوی استعمار کے دونوں ستون گرا ئے تھے۔ 

قائداعظم نے واضح کیا کہ جب تک ہندوستان تقسیم نہیں ہو گا برطانوی راج لازماً قائم رہے گا۔ اس لیے مسلم لیگ صرف پاکستان کے قیام کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے:

“ہمارے نصبُ العین میں پورے ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری شرطِ اولین ہے؛ اور قراردادِ لاہور میں مضمر اصولوں کو تسلیم کر کے ہم کسی دوسرے طریقے کی نسبت زیادہ جلد ہندوستان کی آزادی حاصل کر سکیں گے… گاندھی بخوبی سمجھتے ہیں یا اُنہیں سمجھنا چاہیے کہ ایک فرضی متحدہ ہندوستان پر مصر رہنے کا نتیجہ صرف ہم پر غیرملکی تسلط ہی ہو سکتا ہے۔”

قائداعظم نے صاف صاف کہا کہ نسل پرست ہندو قیادت جس میں گاندھی، کانگرس، ہندو مہاسبھا، نیشنل لبرل فیڈریشن اور دوسری تنظیمیں شامل ہیں، ہرگز نہیں چاہتی کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر جائیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ برطانوی سنگینوں کی مدد سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں پر حکومت کریں:

“یہ وہ مقام ہے جہاں میں کانگرس سے اختلاف رکھتا ہوں۔ وہ ہندوستان کی آزادی نہیں چاہتے … جو وہ چاہتے ہیں، وہ ہے برطانیہ کی ماتحتی میں مسلمانوں اور دوسری تمام اقلیتوں پر اقتدار اور غلبہ! … حقیقت یہ ہے کہ کانگرس برطانوی سنگینوں کی چھاؤں میں ہندوستان پر حکومت  چاہتی ہے۔”

پاکستان کا مطالبہ قائداعظم کے لحاظ سے اِن ٹھوس اور واضح حقائق کی روشنی میں کیا گیا تھا۔ 


مزید تفصیل کے لیے میری انگریزی کتاب “جناح: مقدمۂ پاکستان” ملاحظہ کیجیے۔


1942 میں گاندھی نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی جس میں بظاہر یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ انگریز فوراً ہندوستان سے چلے جائیں۔



قائداعظم نے کہا، ’’میں بہت خوش ہوں گا اگر وہ کل چلے جائیں۔ ہم اپنے معاملات بخوبی نمٹا لیں گے۔‘‘ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ انگریز صرف یہ وعدہ کر کے کہ پاکستان نہیں بنے گا، غیرمعینہ مدّت تک ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے گاندھی کی آشیرباد حاصل کر لیں گے۔ انہوں نے کہا:

“میں یہ ماننے سے انکار کرتا ہوں کہ گاندھی ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچتے ہیں کہ برطانوی اُن کے کہنے پر فوراً چلے جائیں گے … مسٹر گاندھی … ایک ایسی تحریک شروع کر رہے ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف  یہ ہے کہ جائز یا ناجائز طریقے سے ایسی صورت حال پیدا کی جائے جو پاکستان کی اسکیم کو برباد کر دے۔”


گاندھی: کیا مانگا اور کیا پایا؟

گاندھی کے ٹولے پر جس شخص نے بہت پہلے انگریزوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگیا تھا، وہ بنگال کے عظیم رہنما اور کانگرس کے بانی رُکن سریندر ناتھ بینرجی تھے۔

1918 میں مونٹیگو چیمسفورڈ رپورٹ کو مسترد کرنے والے ہندو رہنما ’’انتہاپسند‘‘ کہلاتے تھے اور گاندھی ان کے سرغنہ تھے۔ جب ان لوگوں کی وجہ سے کانگرس کے پرانے رہنماؤں کو کانگرس چھوڑ کر  لبرل پارٹی بنانی پڑی تو اُس کے افتتاحی اجلاس کے خطبۂ صدارت میں بینرجی نے کہا:

“مانچسٹر گارڈین شکایت کرتا ہے کہ انتہاپسند لارڈ سڈنہام [ایک متعصب انگریز لیڈر] اور اُس کی پارٹی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور حکومت کی مشکلات میں اضافہ کر کے شاید وہ اسے اصلاحات کے نفاذ کے بارے میں ہی ہچکچاہٹ میں مبتلا کر دیں۔ یہ ایک ایسی تنبیہ ہے جس پر تمام محبِ وطن ہندوستانیوں کو توجہ دینی چاہیئے۔”

اِس روشنی میں  دیکھا جائے تو گاندھی نے ہر دفعہ ملک گیر تحریک شروع کرتے وقت زبان سے جو مطالبہ کیا عملاً اُس کے برعکس نتیجہ نکلا۔ عموماً انگریز تحریک شروع ہونے سے پہلے جتنا کچھ دینے پر تیار تھے، گاندھی کی تحریک کے بعد اُس سے کم دے کر چھوٹ گئے:

1920-1922

حکومت کی پیشکش تھی کہ 1919 کا آئین دس سال نافذ رہے۔ اس کے بعد نیا آئین دیا جائے گا جس میں مزید حقوق ملیں گے۔

گاندھی کا مطالبہ تھا کہ ایک سال میں “سوراج” یعنی آزادی یا حکومت کرنے کا مکمل حق دے دیا جائے۔

1919 کا آئین پندرہ سال نافذ رہا اور سوراج اگلے آئین میں بھی نہیں ملا۔

1930-1931

انگریز چاہتے تھے کہ گول میز کانفرنس آئینی تجاویزمرتب کر کے برطانوی پارلیمنٹ کو پیش کرے۔

گاندھی کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان کو فوراً آزادی ملے اور وہ دولتِ مشترکہ میں بھی شامل نہ رہے۔

گول میز کانفرنس ہوئی جس میں  گاندھی نے بھی شرکت کی۔ اگلے آئین میں (جو 1935 میں نافذ ہوا) نہ ہندوستان کو آزادی ملی نہ ڈومینین اسٹیٹس۔ کانگرس نے اسی آئین کے تحت وزارتیں بھی قبول کیں۔

1932

وائسرائے اپنی مندرجہ بالا پیشکش پر قائم تھے۔

گاندھی نے مندرجہ بالا مطالبہ دہرایا۔

نتیجہ اوپر درج کیا جا چکا ہے۔

1942-1945

برطانوی حکومت کی پیشکش تھی کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہندوستان کی دستورساز اسمبلی ہندوستان کے لیے اپنی مرضی کا آئین بنائے۔ جنگ کے دوران بعض شعبے ہندوستانیوں کے سپرد  کیے جا سکتے ہیں۔

کانگرس نے مطالبہ کیا کہ برطانیہ فوری طور پر ہندوستان چھوڑ دے۔

جنگ کے خاتمے کے بعد دستورساز اسمبلی منتخب ہوئی اور کانگرس نے بخوشی اس میں شرکت کی۔ جنگ کے دوران بھی تمام شعبے برطانوی کنٹرول میں رہے۔

لہٰذا قائداعظم کی یہ بات خاصی قابلِ غور تھی کہ:

ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک کیوں شروع کی ہے۔ برطانوی حکومت جانتی ہے کہ کیوں۔ یہ برطانوی حکومت کو مجبور کرنے کے لیے ہے کہ کانگرس کو ہندوستان کے لوگوں کی واحد اور نمایندہ تنظیم مان لے۔ کانگرس [انگریزوں سے] کہتی ہے، ’’ہمارے ساتھ سمجھوتہ کر لو۔ ہم تمہارے دوست ہیں؛ ہم اس ملک پر تمہاری بالادستی قائم رکھیں گے۔ ہمارے ساتھ معاملات طے کر لو اور مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو نظرانداز کر دو۔‘‘


قائداعظم کے مطابق پاکستان کے مطالبے کی تعمیل دو مرحلوں میں ہوئی۔ انہوں نے پہلے مرحلے کو”یونٹی آف تھاٹ اینڈ آئیڈیل” (unity of thought and ideal) اور دوسرے کو “یونٹی آف ایکشن” (unity of action) کہا۔

علامہ اقبال نے “جاویدنامہ” میں اِن کے لیے وحدتِ افکار اور وحدِت کردار کے الفاظ استعمال کیے تھَے اور کہا تھا، ’’افکار اور کردار کی وحدت حاصل کرو تاکہ تمہیں دنیا میں حکومت مل جائے‘‘:

وحدتِ افکار و کردار آفریں
تا شوی اندر جہاں صاحب نگیں!


حصولِ پاکستان کے دو مراحل

وحدتِ افکار

Unity of Thought and Ideal

اس کا مطلب یہ تھا کہ قوم پاکستان کے مطالبے پر متفق ہو جائے۔

1940 میں قراردادِ پاکستان سے یہ مقصد حاصل ہو گیا۔ چنانچہ اگلے سال قائداعظم نے کہا:

“یہ ایک شاندار بات ہے – جب کبھی تاریخ لکھی  جائے – کس طرح اِن تین برسوں میں نو کروڑ مسلمانوں کی بڑی تعداد ایک پلیٹ فارم اور ایک پرچم تلے اکٹھی ہو گئی – ایک ایسی بات جو آپ نے مسلمانوں کی گزشتہ دو سو برس کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی تھی … مسلمان اپنی مرضی کے مالک بن چکے ہیں۔ وہ اپنے پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں، اور اپنے پرچم تلے، اور وہ اپنی پالیسی پر کاربند رہیں گے تاکہ اُس مقصد کو حاصل کر سکیں جو ہم  نے اپنے لیے متعین کیا ہے … یاد رہے! یہ سب سے بڑا منصوبہ ہے جو مغل سلطنت کے زوال کے بعد سے آپ نے اپنی  زندگی میں اپنایا ہے … ہم جو خطرناک مقابلہ کر رہے ہیں، وہ صرف مادی فائدوں کے لیے نہیں ہے بلکہ مسلم قوم کی روح کو بچانے کا سوال بھی ہے۔”


وحدتِ کردار

Unity of Action

اس کا مطلب تھا اپنے مشترکہ تصوّر کو حقیقت بنانے کے لیے عمل کی قوّت حاصل کرنا۔


وحدتِ کردار حاصل کرنے کا طریقہ قائداعظم نے ’’ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط‘‘ (Faith, Unity, Discipline) بتایا.

ایمان کی وضاحت انہوں نے اِس طرح کی کہ اس سے مراد خدا پر ایمان، اپنی قوم پر ایمان اور اپنی قوم کی تقدیر پر ایمان ہے۔

اتحاد سے مراد تھی کہ تمام مسلمان برابر ہیں۔ 1941 کی مردم شماری کے موقع پر قائداعظم نے مسلمانوں کو ہدایت جاری کی کہ ’’نسل، برادری  یا ذات‘‘ کے سوال کے جواب میں صرف مسلمان لکھا جائے۔ مذہب کے جواب میں صرف اسلام لکھا جائے۔مادری زبان صرف اُردو لکھی جائے لیکن صرف وہ لوگ جو بالکل ہی اُردو نہیں سمجھ سکتے، وہ کوئی بھی ایسی زبان لکھ دیں جس سے وہ واقف ہوں۔ ’’شیعہ، سنی، وہابی کا خیال دل سے نکال دیں،‘‘ انہوں نے کہا،’’ہم صرف اسلام کے  خادم ہیں۔‘‘

مسلم لیگ ضلع امرتسر کے جوائنٹ سکریٹری لطیف احمد چشتی کی یہ تصویر یہاں اِس بات کے ثبوت میں پیش کی جا رہی ہے کہ قائداعظم کی بات پر عمل کیا گیا۔ چشتی اُن ہزاروں گمنام کارکنوں میں سے تھے جنہوں نے 1941 میں پنجاب کے دیہاتوں میں جا جا کر لوگوں سے کہا کہ وہ اپنی مادری زبان “اُردو” لکھوائیں جیسا کہ قائداعظم نے ہدایت دی ہے۔ بعد میں یہ بات انہوں نے اپنے پوتوں کو بتائی جو اِس بات کی گواہی دینے کے لیے ابھی موجود ہیں (ان میں اقبال اکادمی پاکستان کے شعبۂ کمپیوٹر کے سربراہ نعمان چشتی شامل ہیں)۔

نظم و ضبط کا مطلب تھا کہ مسلم  لیگ کی دل و جان سے اطاعت کی جائے، اور اُس کے احکامات کی تعمیل کے لیے ’’کام، کام اور صرف کام‘‘کیا جائے۔ مسلم لیگ سے وفاداری پر قائداعظم نے اس حد تک زور دیا کہ ہمیشہ مسلم لیگ کے مقابلے میں اپنے آپ کو بھی بے حقیقت قرار دیا (اقبال نے کہا تھا، ’’وجود افراد کا مجازی ہے ہستیٔ قوم ہے حقیقی‘‘)۔

چنانچہ پنجاب کے خضر حیات خاں ٹوانہ، سندھ کے جی ایم سید، بنگال کے فضل الحق اور بعض دوسرے سیاستداں لیگ کی نافرمانی کرنے پر جماعت سے نکال دیے گئے۔ قائداعظم نے کہا:

“بنگال نے ایک مثال قائم کی ہے جس سے دوسروں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اب یہ لیگ کی آواز ہے – عوام کی آواز – اب یہ ملّت کی طاقت ہے جس کے سامنے آپ کو ضرور جھکنا ہے خواہ آپ دنیائے اسلام کا سب سے اونچا درخت ہوں۔”

دیکھا جا سکتا ہے کہ قائداعظم کی تشریح کے لحاظ سے ’’اتحاد‘‘ میں محبت کا وہی تصوّر موجود تھا جو سر سید کے زمانے سے مسلمانوں کے خیالوں پہ چھایا ہوا تھا۔ ’’ایمان‘‘ کا مفہوم وہی تھا جسے اقبال نے یقیں محکم کہا اور ’’نظم و ضبط‘‘ وہ چیز تھی جسے اقبال نے عمل پیہم کہا تھا:

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں


اِس وحدتِ عمل کو حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ نے 1945 میں عام انتخاب کا مطالبہ کیا۔



مرکزی اسمبلی کا انتخاب 1945 کے آخر میں اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب 1946 کے اوائل میں ہوئے۔ 

کانگرس نے اس موقع پر مفصل دستور جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کانگرس اپنی اُس قرارداد کی بنیاد پر انتخاب لڑ رہی ہے جو کانگرس کمیٹی نے 8 اگست 1942 کو منظور کی تھی، اور جس میں یہ مطالبہ شامل تھا کہ ہندوستان تقسیم نہ کیا جائے اور انگریز فوراً ہندوستان چھوڑ دیں۔

مسلم لیگ نے انتخابی منشور جاری نہیں کیا بلکہ صرف ایک لفظ پر مشتمل ایجنڈا پیش کیا اور وہ تھا، پاکستان۔ اس نے مرکزی اسمبلی کی تیس مسلم نشستوں میں سے ہر نشست پر کامیابی حاصل کی۔ ڈالے گئے ووٹوں میں سے 86.6 فیصد حاصل کیے۔ مسلم لیگ کے جنرل سکریٹری لیاقت علی خاں نے کہا:

’’دنیا کی تاریخ میں کسی اور جمہوری جماعت نے ایسی کامیابی حاصل نہیں کی جیسی مسلم لیگ نے حالیہ انتخابات میں حاصل کی ہے۔‘‘

صوبائی انتخابات میں بمبئی، مدراس اور اڑیسہ کی مسلم نشستوں میں سے سو فیصد لیگ نے حاصل کیں۔ باقی صوبوں کی مسلم نشستوں میں سے سرحد کے سوا ہر جگہ اَسّی اور بعض جگہ نوّے فیصد سے زیادہ حاصل کیں۔ سرحد میں پینتالیس فیصد مُسلم نشستیں ملیں۔ تفصیل یوں تھی:

اسمبلی مسلم نشستیں کانگرس لیگ لیگ، فیصد
مرکزی 30 صِفر 30 100
آسام 34   31 91
بنگال 122   116 95.8
بہار 40   34 85
بمبئی 30   صفر 30 100
سی پی برار 14   13 93
مدراس 28   صِفر 28 100
سرحد 38 19 17 45
اڑیسہ 4   صِفر 4 100
پنجاب 88   79 89.28
سِندھ 34   28 82
یُوپی 66   54 82
کُل 524 23 453 86.45

مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ڈالے گئے مسلم ووٹوں میں سے پچھتر فیصد لیگ نے اور ساڑھے چار فیصد سے بھی کم کانگرس نے حاصل کیے۔


اس موقع پر وزیراعظم برطانیہ لارڈ ایٹلی نے کانگرس کی حمایت میں بیان دیا۔ 15 مارچ 1946 کو برطانوی پارلیمنٹ کے دارُالعوام (ہاؤس آف کامنز) میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف ہندوستان ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کا آیندہ آئین کیا ہو گا لیکن ’’ہم کسی اقلیت کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اکثریت کی ترقی کے خلاف ویٹو (veto) کی طاقت استعمال کرنے لگے۔‘‘


قائداعظم نے کہا کہ وزیراعظم نے صورت حال کو غلط رنگ میں پیش کیا ہے۔ کانگرس پورے چالیس برس تک غیرملکی مصنوعات  کی مخالفت میں سودیشی تحریک چلانے کے بعد اب اچانک برطانیہ کو ’’تجارتی مراعات‘‘ کی رشوت   بھی پیش کر رہی تھی۔ اس لیے اب برطانوی وزیراعظم کانگرس کی زبان بولنے پر تیار ہو گئے تھے۔

انتخاب میں مسلم لیگ کی فتح حقیقت میں ایک قوم کے ارتقأ کا قدرتی مرحلہ تھی، جس میں قوم نے وحدتِ افکار اور وحدتِ کردار حاصل کی۔ یہی دو چیزیں جو اقبال کے مطابق کسی قوم کو حکومت عطا کرتی ہیں۔


قائداعظم کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کی جنگ ہندوؤں کے خلاف نہیں تھی:

یہ راتیں، یہ موسم، یہ ہنسنا ہنسانا
مجھے بھول جانا، اِنہیں نہ بھلانا!

یہ بہکی نگاہیں، یہ بہکی ادائیں
یہ آنکھوں کے کاجل میں ڈوبی گھٹائیں
خزاں کے لبوں پر یہ چُپ کا فسانہ!

چمن میں جو مل کے بنی ہے کہانی،
ہماری محبت تمہاری جوانی،
یہ دو گرم سانسوں کا اِک ساتھ آنا،
یہ بدلی کا چلنا یہ بُوندوں کی رم جھم،
یہ مستی کا عالم یہ کھوئے سے ہم تم،
تمہارا مِرے ساتھ یہ گنگنانا!


آپ کے لحاظ سے آج کی قسط میں سب سے اہم بات کیا تھی، اور کیوں؟