اعلانِ جنگ دَورِ حاضر کے خلاف


قائداعظم اور اُن کے ساتھیوں نے جن دو عناصر کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا، کیا آج بھی وہ ہمارے معاشرے میں سرگرم ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ آج کی قسط کے آخر میں ہم اِس سوال کا جواب دیں لیکن پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ دونوں عناصر کون تھے۔ جواب اس قسط کے آخر میں سامنے آئے گا اور ممکن ہے کہ ہماری توقع سے بہت مختلف ہو۔

یہ “آزادی” سیریز کی چھٹی قسط ہے، اور 1927 سے 1936 کی کہانی بیان کرتی ہے۔ 


آج کی قسط سے پہلے بھی فیاض ہاشمی کا ایک نغمہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ مہدی حسن کی آواز میں فلم “دیور بھابھی” (1967) سے ہے۔ اسے سنتے ہوئے یہ نوٹ کیجیے کہ اِس میں کن لوگوں کے خلاف شکایت کی جا رہی ہے؟



1927 کے آغاز پر ہندوستان میں گفتگو کا ایک اہم موضوع یہ تھا کہ دو سال بعد برطانوی پارلیمنٹ ہندوستان کو نیا آئین دینے والی تھی۔ جلد ہی ایک کمیشن مقرر ہونے والا تھا تا کہ اِس سلسلے میں اپنی تجاویز مرتب کر کے پیش کرے۔

چنانچہ مارچ 1927 میں جناح کی دعوت پر دہلی میں مسلمانوں کے تقریباً چالیس نمایندے اکٹھے ہوئے اور کچھ تجاویز پیش کیں کہ اگر ہندو انہیں منظور کر لیں تو مسلمان جداگانہ انتخاب چھوڑ کر مخلوط انتخاب قبول کر لیں گے۔ ان تجاویز کا مرکزی خیال یہی تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں انہیں جمہوری طور پر حکومت بنانے کا موقع دیا جائے اور مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ انتظامات بھی کیے جائیں۔

ہندو مہاسبھا نے تجاویز فوراً مسترد کر دیں لیکن انڈین نیشنل کانگرس نے  دسمبر میں اپنے سالانہ اجلاس میں ان تجاویز میں مذہبی رواداری کے دو نکات کا اضافہ کر کے ایک ’’قراردادِ اتحاد‘‘ تیار کی جو متفقہ طور پر منظور ہوئی اور کانگرس کے بعض بڑے رہنماؤں نے اسے آزادی کی بنیاد قرار دیا۔ شری نواس آینگر نے کہا:

یہ ایک بہت ٹھوس بنیاد ہے جس پر آپ سوراج [خودمختاری] کی عالیشان عمارت تعمیر کر سکتے ہیں۔ اِس قرارداد کے بغیر سوراج کی بات بھی نہیں کی جا سکتی … آج برطانوی ہند کا وجود ختم ہو گیا۔ آج سے ہمیں صرف ہندوستانی دولتِ مشترکہ اور وفاقی ہندوستان کے بارے میں سوچنا ہے۔

اِس قرارداد کی روشنی میں 1928 میں ایک آل پارٹیز کانفرنس بنائی گئی جس کی ایک کمیٹی نے پنڈت موتی لال نہرو کی صدارت میں ہندوستان کے آئین کا خاکہ بنا کر پیش کر دیا۔

یہ آئینی خاکہ “نہرو رپورٹ” کہلایا۔ اس میں ہندوستان کے لیے ڈومینین اسٹیٹس کا مطالبہ کیا گیا مگر باقی مضمون دہلی مسلم تجاویز اور قراردادِ اتحاد کے بالکل برعکس تھا۔

جب مسلمان رہنماؤں نے وہ تجاویز یاد دلانے کی کوشش کی تو ہندو رہنماؤں کی طرف سے ایسے جوابات ملے جن کی توقع نہیں تھی۔

محمد علی جوہر سے، جو چند برس پہلے کانگرس کی صدارت بھی کر چکے تھے، صاف کہا گیا، ’’آپ غنڈے ہیں!‘‘ ایک ہندو رہنما نے جناح کے بارے میں کہا کہ انہیں بگڑا ہوا بچہ سمجھ کر بات مان لو۔ دوسرے نے جواب دیا کہ کوئی ضرورت نہیں، یہ ویسے ہی ہمارے ساتھ آ جائیں گے۔

اس کے ساتھ ہی کانگرس اور مہاسبھا نے حکومت کو دھمکی دے دی کہ اگر ایک سال میں نہرو رپورٹ منظور نہ کی گئی تو بغاوت کر دی جائے گی۔


اِس دوران یہ بھی ہو چکا تھا کہ آئینی اصلاحات تجویز کرنے والے کمیشن میں کوئی ہندوستانی شامل نہیں کیا گیا۔ جب وہ کمیشن سر جان سائمن کی قیادت میں 1927 اور 1928 میں ہندوستان آیا تو بہت سی سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ مسلم لیگ اس مسئلے پر دو حصوں میں بٹ گئی اور دسمبر 1927 سے مارچ 1930 تک جناح گروپ اور شفیع گروپ میں تقسیم رہی۔



اِن حالات میں مسلمانوں نے اپنی کانفرنس قائم کی جسے آل انڈیا مسلم کانفرنس اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس کہا گیا۔ یہ دسمبر 1928 سے 1934 تک رہی اور پھر مسلم لیگ میں ضم ہو گئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جو نمایندے مسلم نشستوں پر منتخب ہو کر صوباَئی اور مرکزی اسمبلیوں میں پہنچیں وہ ایک متفقہ مقصد کا تعین کریں۔ یہ ایک قسم کی مسلم پارلیمنٹ تھی۔

اس کے بانی اور پہلے صدر ہز ہائی نس آغا خاں سوئم تھے۔ علامہ اقبال بھی دو سال اس کے صدر رہے۔ افتتاحی اجلاس کے خطبۂ صدارت میں آغا خاں نے کہا:

دورِ جدید کی تاریخ کا اہم سبق، میرے نزدیک، یہ ہے کہ صرف وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں اور صرف وہی پالیسیاں قوموں کی عظمت کا باعث بنتی ہیں جو چند رہنماؤں یا مفکروں کے افکار و تصورات پر مبنی نہ ہوں، خواہ وہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں، بلکہ جو سب کے اتفاقِ رائے اور عوام  کی آرأ پر مبنی ہوں … وقت آ گیا ہے کہ ہمارے رہنما زمین سے کان لگا کر عوام کے خیالات اور خواہشات کا صحیح اندازہ کرنے لگیں۔

خطبے کے آخر میں آغا خاں نے کہا، ’’ہندوستان کے مسلمان ایک کمیونٹی نہیں ہیں بلکہ ایک محدود، خصوصی، انداز میں ایک قوم ہیں جس میں بہت سی کمیونٹیز شامل ہیں اور جس کی کُل آبادی جنگِ عظیم سے پہلے کی جرمن سلطنت سے بھی زیادہ ہے۔‘‘

یکم جنوری 1929 کو مسلم  کانفرنس نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی جس کی روح کانگرس کی قراردادِ اتحاد سے ہم آہنگ تھی لیکن ہندو قیادت کی موجودہ روش کے پیشِ نظر بعض تحفظات کا اضافہ کیا گیا تھا۔ علامہ اقبال نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا:

آج اس کانفرنس میں متفقہ طور پر جو ریزولیوشن پیش ہوا ہے، وہ نہایت صحیح ہے اور اس کی صحت کے لیے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے اور وہ یہ کہ ہمارے آقائے نامدار حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کا اجتماع کبھی گمراہی پر نہ ہوگا۔

جناح اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ مسلم لیگ کے جناح گروپ کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو صرف مسلم لیگ کے سائے میں جمع ہونا چاہیے۔ وہ خود بھی یہی سمجھتے تھے۔ لیکن جب یہ قرارداد باقی مسلمانوں نے متفقہ طور پر منظور کر لی تو جناح گروپ نے کہا کہ جناح بھی مسلمانوں کے متفقہ مطالبات کا مسودہ تیار کریں۔ مارچ 1929 میں انہوں نے یہ مسودہ چَودہ نکات کی صورت میں مسلم لیگ کی کونسل کو پیش کیا اور کہا:

میں ایک چیز واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ تاثر موجود ہے کہ میں نے لیگ کی کونسل  کے سامنے جو قرارداد پیش کی ہے [یعنی 14 نکات] وہ میرے ذاتی خیالات پر مشتمل ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ میں نے محض وہ کام پورا کیا ہے جو مجھے کونسل کی طرف سے 3 مارچ کو سونپا گیا تھا کہ جہاں تک ہو سکے مختلف گروہوں اور مکاتیبِ فکر سے مشاورت کروں اور اُن کے سامنے ایک ڈرافٹ پیش کروں جسے عوام کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہو۔ لہٰذا میں نے ان ہدایات کے تحت، اور اپنی بہترین صلاحیت اور سوجھ بوجھ کے مطابق، مختلف لوگوں سے خیالات لیے ہیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ایک ایسا ڈرافٹ پیش کروں جس میں اکثریت کی آرأ شامل ہوں۔ لیکن بہرحال یہ محض ایک ڈرافٹ ہے اور حتمی فیصلہ سبجکٹس کمیٹی پر منحصر ہے۔

جناح کے چَودہ نکات اور مسلم کانفرنس کی قرارداد کو ایک ہی سمجھا گیا۔ چنانچہ اُس زمانے کے سیاسی لٹریچر میں جناح کے چَودہ نکات، مسلم کانفرنس کے چَودہ نکات اور مسلمانوں کے چَودہ نکات کے الفاظ بھی ملتے ہیں  بلکہ جواہر لال نہرو نے تو اقبال کے چَودہ نکات بھی کہا۔ اس کے بعد صرف تھوڑے سے مسلمان کانگرس کے ساتھ رہ گئے، جو ’’نیشنلسٹ مسلمان‘‘ کہلانے لگے۔


31 اکتوبر 1929 کو وائسرائے لارڈ اِروِن نے پہلی دفعہ واضح کیا کہ ڈومینین کا درجہ حاصل کرنا واقعی ہندوستان کی منزل ہے:

اُن شبہات کے پیشِ نظر جو برطانیہ عظمیٰ میں بھی اور ہندوستان میں بھی 1919 کے قانون کے بارے میں حکومتِ برطانیہ کے مدعا کی تشریح کے حوالے سے ظاہر کیے گئے ہیں، مجھے ملک معظم کی حکومت کی طرف سے بالکل واضح طور پر بتانے کا اختیار دیا گیا ہے کہ اُن کے دانست میں 1917 کے اعلان میں یہ مضمر ہے کہ ہندوستانی کی آئینی ترقی کا قدرتی نتیجہ جو وہاں سوچا گیا ہے وہ ڈومینین کا درجہ حاصل کرنا ہے۔

اسی اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ آنے والے آئین پر مشاورت کے لیے لندن میں ہندوستانی رہنماؤں کی گول میز کانفرنس بلائی جائے گی جس میں دیسی ریاستوں کے نمایندے بھی مدعو کیے جائیں گے۔


کانگرس اور مہاسبھا نے حکومت کو جو الٹی میٹم دیا تھا وہ اس کے دو مہینے بعد ختم ہو گیا۔ چنانچہ موتی لال نہرو کے صاحبزادے جواہر لال کی صدارت میں لاہور میں کانگرس کا ایک عظیم الشان اجلاس ہوا۔ یکم جنوری 1930 کو قرارداد منظور کی گئی کہ نہرو رپورٹ مسترد کی جاتی ہے۔ اب ہندوستان ڈومینین اسٹیٹس قبول  کرنے پر بھی تیار نہیں اور نہ ہی دولتِ مشترکہ میں شامل ہو گا بلکہ برطانیہ سے  مکمل علیحدگی چاہتا ہے۔ 

ہر سال 26 جنوری کو یومِ آزادی منایا جانے لگا جب عہد کیا جاتا تھا کہ ہندوستان ڈومینین اسٹیٹس قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی دولتِ مشترکہ میں شامل ہو گا۔ اسے ’’پورن سوراج‘‘ یعنی کامل آزادی کہتے تھے۔



اس غرض سے گاندھی نے 1930 اور 1932 میں عدم تعاون کی تحریکیں چلائیں۔ مسلمانوں نے ان میں کوئی حصہ نہ لیا (سوائے  نیشنسلٹ طبقے کے)، اور مسلم رہنماؤں نے صاف کہہ دیا کہ ان تحریکوں کا مقصد آزادی حاصل کرنا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ محمد علی جوہر نے کہا:

آج سارا سوال یہ ہے … کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہم اکثریت کی حکومت کا اصول اپنانے والے ہیں، اور ہندو کہلانے والوں کی تقدیر پر جس طبقے نے اتنے ہزار سالوں سے قبضہ کر رکھا ہے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ایسی اکثریت ہو جسے وہ بالکل اُسی طرح قابو میں نہ رکھ سکے جیسےاُس نے ہندوؤں کو ہزاروں سا ل سے رکھا ہوا ہے … [البتہ ماضی اور حال] میں ایک اہم فرق ہے۔ وہ چھوٹا سا عیار طبقہ جو ہندوؤں کی تقدیروں پر اور … اُن کے ذریعے پوری ہندوستانی قوم پر تصرف برقرار رکھنا چاہتا ہے، [آج وہ برہمن نہیں بلکہ اب] وہ بنیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ ایجی ٹیشن   کے لیے زیادہ تر مالی وسائل بمبئی اور گجرات کے بنیئے … فراہم کر رہے ہیں۔

یہ تحریکیں آپ اپنی موت مر گئیں۔ البتہ بین الاقوامی میڈیا میں انہیں ابھارا گیا اور گاندھی کا سمندری نمک نکال کر برطانوی قانون کی خلاف ورزی کرنا ایک ڈرامائی واقعہ بن گیا۔



جون 1930 میں سائمن کمیشن نے اپنی تجاویز پیش کر دیں۔ ان کے مطابق اگلے آئین میں ہندوستان کو ایک وفاق بننا تھا جس میں برطانوی ہند کے علاوہ دیسی ریاستیں بھی شامل ہوں (برطانوی ہند سے مراد وہ علاقے تھے جہاں براہِ راست انگریزوں کی حکومت تھی اور دیسی ریاستیں وہ تھیں جنہیں مختلف معاہدوں کے تحت مقامی حکمرانوں کے پاس رہنے دیا گیا تھا۔ ان کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی)۔


اس دوران مسلم لیگ کے دونوں حصے بھی ایک ہو چکے تھے۔ جناح نے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے اقبال کا نام تجویز کیا۔ یہ اجلاس دسمبر 1930 میں الٰہ آباد میں ہوا۔ خطبۂ صدارت کا مشہور ترین حصہ حسبِ ذیل ہے۔ اقبال نے مسلم کانفرنس کی قرارداد (دوسرے لفظوں میں جناح کے چودہ نکات) کی تائید کرتے ہوئے کہا:

“میں ذاتی طور پر اِن مطالبات سے بھی ایک قدم آگے جانا چاہتا ہوں جو اِس قرارداد میں پیش کئے گئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط مسلم ریاست، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے یا سلطنت برطانیہ کے باہر، ہندوستان کے شمالی مغربی مسلمانوں کی اٹل تقدیر ہے۔‘‘



اسی زمانے میں علامہ اقبال فارسی میں اپنی عظیم شعری تصنیف “جاویدنامہ” بھی لکھ رہے تھے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ قرآن شریف کے باطن میں  سے ایک نئی دنیا بتدریج ظاہر ہو رہی ہے جس کا بِیج آنحضورؐ کی نگاہ نے حضرت عمر فاروقؓ کے دل میں بویا تھا لیکن جس کے ظہور کا زمانہ اب آیا ہے۔ یہ ایک مثالی دنیا ہے جہاں غربت اور خوف کا کوئی تصوّر موجود نہیں ہے۔ “جاویدنامہ” میں اسے “مرغدین” کا نام دیا گیا۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ اسی دنیا کا تصوّر خطبۂ الٰہ آباد میں بھی پیش کیا گیا۔

“جاویدنامہ” کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ اقبال مولانا روم کی رہنمائی میں ہمیشہ کی زندگی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو راستے میں مرغدین کے ارتقائی مراحل کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ وہ قدیم ہندوستا ن کے فلسفی وشوامتر کی روح سے آشیرباد لیتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ گوتم بدھ اور زرتشت بھی قرآنی پیغمبروں کے ساتھ خدا کے سچے پیغمبروں میں شامل ہیں۔ جنت الفردوس میں قدیم زمانے کے ہندو شاعر بھرتری ہری اپنے اشلوک پڑھ رہے ہیں۔ آخر میں اقبال خدا کے حضور پہنچتے ہیں اور دنیا کی تقدیر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

آخر میں نئی نسل کو کچھ نصیحتیں کرتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ:

’’انسانیت، انسان کے احترام کا نام ہے اس لیے انسان کے مقام سے باخبر ہو جاؤ! انسان ایک دوسرے  کے ساتھ مل کر ہی دوستی  کی راہ پر چل سکتا ہے۔  محبت کرنے والا خدا  کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے کافر اور مومن دونوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے۔ اپنے دل کی وسعت میں کفر اور دیں کو سمیٹ لو کیونکہ اُس دل پر افسوس ہے جو دوسرے دل سے دُور ہو! ‘‘

آدمیّت احترامِ آدمی
باخبر شو از مقامِ آدمی!
آدمی از ربط و ضبطِ جان و تن
برطریقِ دوستی گامے بزن!
بندۂ عشق از خدا گیرد طریق
می شود بر کافر و مومن شفیق!
کفر و دیں را گیرد  در پہنائے دل
دل اگر بگریزد از دل، وائے دل!


1930، 1931 اور 1932 میں لندن میں ہندوستانی رہنماؤں کی گول میز  کانفرنسیں منعقد ہوئیں (جناح پہلی اور دوسری کانفرنس میں شریک ہوئے، اقبال دوسری اور تیسری میں، اور گاندھی صرف دوسری میں۔ آغا خاں سوئم تینوں کانفرنسوں میں مسلم وفد کے قائد تھے)۔




اس وقت تک اچھوت بھی اپنے لیے جداگانہ انتخاب کا حق مانگ چکے تھے کیونکہ انہیں ہندوؤں کے مندروں میں جانے کی اجازت نہیں تھی، ہندوؤں کے کنوؤں سے پانی نہیں نکال سکتے تھے بلکہ بعض علاقوں میں اونچی ذات کے کسی ہندو کو مخاطب کرنا بھی منع تھا (اقبال نے سائمن کمیشن کے سامنے طنزاً کہا تھا کہ ہندوؤں کے لیے بعض لوگ اچھوت ہیں  لیکن اُن کے ووٹ اچھوت نہیں)۔

دوسری گول میز کانفرنس میں گاندھی اور دوسرے ہندو رہنماؤں نے اچھوتوں کے مطالبے کی مخالفت کی۔ 



سِکھوں کو چھوڑ کر جو ہندو قیادت کے ساتھ مل گئے تھے، بقیہ اقلیتوں میں سے مسلمان، اچھوت، عیسائی، اینگلو انڈین اور یورپین ہندوستان کی آبادی کا چھیالیس فیصد تھے۔ ان کے نمایندوں نے آپس میں ایک معاہدہ کیا جسے اقلیتوں کا میثاق کہا گیا۔ اس میں گیارہ بنیادی نکات تھے اور ہر فرقے کے خصوصی مطالبات الگ الگ بھی درج تھے۔ بعض دفعات اس طرح تھیں:

  • کسی شخص سے اُس کی پیدائش، مذہب، ذات یا عقیدے کی وجہ سے سرکاری ملازمت، اعلیٰ عہدے، اعزاز، شہری حقوق، تجارت یا پیشے  کے معاملات میں تعصب نہیں برتا جائے گا۔
  • کسی ملّت کے خلاف امتیازی قوانین بنانے کی اجازت نہ ہو گی۔
  • مکمل مذہبی آزادی ہو گی۔ عقیدے، عبادات، تبلیغ، اجتماع اور تعلیم پر سوائے امنِ عامہ اور اخلاقی ضابطوں کے کوئی اور پابندی نہ ہو گی۔ مذہب بدلنے کی وجہ سے کسی کو شہری حقوق اور مراعات سے محروم نہ کیا جائے گا اور نہ ہی سزا ملے گی۔
  • اپنے خرچ پر خیراتی، مذہبی، سماجی اور تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے، اور وہاں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کا حق ہو گا۔
  • اقلیتوں کے مذہب، ثقافت اور شخصی قانون کی سلامتی؛ ان کی تعلیم، زبان، خیراتی اداروں کی ترویج؛ اور ریاست یا خوداختیاری اداروں سے امداد کے لیے آئینی تحفظات ہوں گے۔
  • جان بوجھ کر یا انجانے میں کسی  کو شہری حقوق سے محروم کرنا جرم ہو گا۔ سزا ملے گی۔
  • یہ رواج قائم کیا جائے گا کہ جہاں تک ہو سکے مرکزی اور صوبائی وزارتوں میں اقلیتوں کے افراد ضرور شامل کیے جائیں۔
  • چھوت چھات کی بنیاد پر کوئی پابندی لگانا جرم ہو گا۔
  • اچھوتوں کو فراخ دلی کے ساتھ  ملازمتوں، پولیس اور فوج میں بھرتی کیا جائے گا۔
  • اینگلو انڈین کمیونٹی کی خصوصی حیثیت کا لحاظ کرنے میں فراخ دلی سے کام لیا جائے گا، مثلاً ایک خاص معیارِ زندگی برقرار رکھنے کی ضرورت، مقدمے کی صورت میں یورپین جیوری طلب کرنے کا حق وغیرہ۔
  • یورپین کمیونٹی کو صنعت و تجارت میں مقامی شہریوں کے برابر حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے۔

باقی شقوں میں یہ شامل تھا کہ جداگانہ نیابت برقرار رکھی جائے۔ اقلیتیں دس برس بعد ترک کر سکتی ہیں۔ اچھوتوں کے لیے بیس برس تک جداگانہ نیابت یقینی بنائی جائے۔ قانون ساز اداروں میں نشستوں کی تعدادخاص تناسب میں ہو۔

اچھوتوں کی طرف سے ڈاکٹر امبیدکر، دیسی عیسائیوں کی طرف سے راؤ بہادر پنر سلوَم، اینگلو انڈینز کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور یورپینوں کی طرف سے سر ہیوبرٹ کار نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ مسلمانوں کی طرف سے مسلم وفد کے سربراہ آغا خاں سوئم نے دستخط کیے لیکن مسلمانوں کے باقی نمایندے بھی اس معاہدے پر متفق تھے (جن میں علامہ اقبال، محمد علی جناح اور مولانا شفیع داؤدی بھی شامل تھے)۔

جب یہ معاہدہ گول میز کانفرنس میں برطانوی وزیراعظم کو پیش کیا گیا تو اینگلو انڈینز  کے نمایندے سر ہنری گڈنی نے کہا:

’’ہم چھوٹی اقلیتوں کو اپنی مشکل گھڑی میں مسلم ملّت کی طرف سے وفا اور محبت کا واضح ثبوت ملا ہے، اور میں اس موقع پر دوسری اقلیتوں کی طرف سے بھی اس بات پر دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مسلمانوں نے اس مشکل کاروائی کے دوران ہمارا ساتھ دیا اور رسمِ وفا نبھائی۔‘‘

اچھوت اس معاہدے سے فائدہ نہ اٹھا سکے کیونکہ گاندھی نے دھمکی دے دی کہ اچھوت جداگانہ انتخاب سے دستبردار نہ ہوئے تو گاندھی بھوکے رہ کر جان دے دیں گے۔ اچھوتوں کی طرف سے ڈاکٹر امبیدکر نے اُن کی بات مان لی۔


1935 میں ہندوستان میں نیا آئین نافذ ہوا۔ لیکن اس کا صرف وہ حصہ نافذ کیا جا سکا جس کا تعلق صوبائی حکومتوں کے قیام سے تھا۔ مرکزی حکومت سے متعلق حصے کو پہلے مسلم لیگ نے اور پھر کانگرس نے بھی مسترد کر دیا۔


نئے آئین کے تحت ہونے والے انتخاب میں کانگرس اور مسلم لیگ نے پہلی دفعہ جماعتی حیثیت میں حصہ لیا۔ اس عرصے میں جواہرلال نہرو نے سوشلزم کا پرچار شروع کر دیا تھا۔ اقبال کا کہنا تھا کہ جس طرح قدیم زمانے میں برہمنوں نے بدھ مت کوجذب کر کے اُس کی روح ختم کر دی، اُسی طرح کا معاملہ اب سوشلزم کے ساتھ کرنے والے ہیں (آزادی کے بعد یہ پیشن گوئی حرف بحرف پوری ہوئی)۔



چونکہ آل انڈیا مسلم لیگ نے پہلے کبھی ایک جماعت کے طور پر انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا، اس لیے اب تک کوئی انتخابی منشور بھی جاری نہیں کیا تھا۔

پہلی دفعہ اس کا انتخابی منشور جون 1936 میں محمد علی جناح کی طرف سے جاری کیا گیا اور مسلمانوں کا “منشورِ عام” کہلایا۔

یہ ان کا آخری انتخابی منشور بھی ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد آزادی حاصل ہونے تک صرف ایک اور انتخاب ہوا اور اُس میں مسلم لیگ نے کوئی نیا انتخابی منشور جاری نہیں کیا (تفصیل اگلی قسط میں دیکھیے گا)۔

“منشورِ عام”، مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کی باہمی مشاورت کے بعد  تیار ہوا تھا۔ اس بورڈ میں علامہ اقبال، مولانا شوکت علی، لیاقت علی خاں اور دوسرے مسلمان رہنما بھی شریک تھے۔ بعض شواہد سے لگتا ہے کہ “منشورِ عام” کا مسودہ علامہ اقبال نے لکھا تھا۔ ویسے بھی ایک طرح سے یہ اُن دو کتابوں کا خلاصہ ہے جو علامہ نے اسی زمانے میں لکھی تھیں۔ پہلی کتاب “ضربِ کلیم” ہے، جس کا ذیلی عنوان ہے “اعلانِ جنگ دَورِ حاضر کے خلاف”۔ دوسری کتاب فارسی میں “پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق” ہے، یعنی “اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے، اقوامِ مشرق؟”۔

“منشورِ عام” میں کہا گیا کہ 1919 کے آئین اور مغربی جمہوریت کے نفاذ سے معاشرے پر دو گروہ مسلط ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ کا اعلانِ جنگ انہی دونوں کے خلاف ہے:

رجعت پسند اور ترقی کے دشمن

 پہلے گروہ کے لیے منشور میں ’’رجعت پسند اور ترقی کے دشمن‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے۔ ’’رجعت پسند‘‘، انگریزی کے لفظ reactionary کا ترجمہ تھا۔ اس سے مراد بھی ترقی کے دشمن ہی تھے۔

“عوام کا استحصال اُن کے لہو میں رچ بس گیا ہے۔ وہ اسلام کا پیغام بھول گئے ہیں۔‘‘

جناح

یہ اونچے طبقے کے وہ لوگ تھے جنہوں نے تمام اختیارات جھپٹ لیے تھے مگر جنہیں قوم کی حالت سدھارنے اور عوام کو حقیقی آزادی دلوانے سے کوئی غرض نہیں تھی۔ کچھ سال بعد جناح نے اپنی ایک مشہور تقریر میں انہی کے حوالے سے کہا، ’’میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ایک تنبیہ کرنا چاہوں گا جو ہمیں نقصان پہنچا کر ایک ایسے نظام کی بدولت پنپتے رہے ہیں جو اِتنا  بے رحم ہے، جوخبیث ہے، اور جو اُنہیں اتنا خودغرض بناتا ہے کہ اُنہیں کچھ سمجھانا مشکل ہے۔ عوام کا استحصال اُن کے لہو میں رچ بس گیا ہے۔ وہ اسلام کا پیغام بھول گئے ہیں۔‘‘

ملازمتیں تلاش کرنے والے

دوسرا گروہ اُن تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل تھا جو ملازمتوں کے حصول کے لیے پہلے گروہ کے ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ منشور میں ان کے متعلق کہا گیا کہ ان کا ’’مقصدِ وحید ہر مقام پر اور ہر ممکن طریق سے ملازمتیں اور وزارتیں حاصل کرنا‘‘ ہے۔

اس کی بدترین مثال بیوروکریسی یعنی افسرشاہی تھی۔ لیکن جناح نے اِس رویئے کے لیے ’’کیرئیرازم‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا یعنی صرف اپنی ملازمت اور ترقی سے غرض رکھنا، قوم کے مفاد کا خیال نہ کرنا اور نہ ہی قوم کی خاطر کوئی قربانی دینے پر تیار ہونا۔

“منشورِ عام” میں مسلم لیگ کے ایک سابق صدر وزیر حسن کے خطبۂ صدارت سے یہ اقتباس بھی شامل کیا گیا:

“آج نئے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ سوال صرف یہ نہیں کہ درمیانہ طبقے کے مسلمانوں کو مغربی طریق پر تعلیم دے کر اس کے لیے نوکریاں تلاش کی جائیں۔ یا انہیں اعتدال پسندی کی اُس روش پر لایا جائے جو ملکہ وکٹوریہ کے عہد کے سیاسئین کا خاصہ تھی۔ بلکہ موجودہ حالات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم سات کروڑ مسلمانوں کے معاشری مسائل کا بنظرِ عمیق مطالعہ کریں، انہیں افلاس، ذلت اور جہالت کی اُس دلدل سے نکالیں جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں۔ اور اُن کی زندگی کو تہذیب سے روشناس کر کے ’’آزاد ملک کے آزاد شہری‘‘ بنا دیں۔ ہم پڑھے لکھے انسانوں، جاگیرداروں، اور سرمایہ داروں کا فرض ہے کہ متحد ہو کر ایک نئی معاشرت کی بنیاد رکھیں اور اس معاشرت کو فروغ دینے اور اس کوشش کو بارآور کرنے کے لیے ہم سب کو قربانیاں دینی پڑیں گی۔ معاشرت کا جو محل ان بنیادوں پر اُستوار ہو گا وہ ایک سلطنت کی بہ نسبت زیادہ شاندار ہو گا اور اس میں انسانوں کے لیے زیادہ انصاف اور آرام ہو گا۔”


عاشق حسین بٹالوی اُس زمانے میں مسلم لیگ کے ایک نوجوان کارکن تھے۔ اُنہوں نے بعد میں لکھا:

’’اِسی مینی فسٹو میں مسلم لیگ نے اپنی آیندہ پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ یہی مینی فسٹو آیندہ لیگ کی سرگرمیوں کا سنگِ بنیاد بننے والا تھا اور اِسی مینی فسٹو سے اپنے اور بیگانے مسلم لیگ کے سیاسی موقف سے آگاہ ہونے کا حق رکھتے تھے۔‘‘


معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک
بیچارہ کسی تاج کا تابِندہ نگیں ہے
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
جاں بھی گِرَوِ غیر، بدن بھی گِرَوِ غیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تُو
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے!


جناح پہلے بھی غربت دُور کرنے کو اہم ترجیح قرار دیتے رہے تھے لیکن اس کے بعد تو اپنے ہر عام خطاب میں کہا کہ سب سے پہلے غربت دُور کرنے  کے لیے عملی اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


اُمید ہے کہ آج کی قسط سے واضح ہو گیا ہو گا کہ جب مسلمان رہنماؤں نے مسلم لیگ میں نئی رُوح پھونک کرسیاست کے میدان میں جنگ کا اعلان کیا تو وہ اعلانِ جنگ کن لوگوں کے خلاف تھا:

یہ لوگ پتھر کے دل ہیں جن کے، نمایشی رنگ میں ہیں ڈوبے!

یہ کاغذی پھول جیسے چہرے، مذاق اڑاتے ہیں آدمی کا
اِنہیں کوئی کاش یہ بتا دے، مقام اونچا ہے سادگی کا!

اِنہیں بھلا زخم کی خبر کیا کہ تِیر چلتے ہوئے نہ دیکھا
اُداس آنکھوں میں آرزوؤں کا خون جلتے ہوئے نہ دیکھا
اندھیرا چھایا ہے اِن کے آگے حَسین غفلت کی روشنی کا!

یہ صحنِ گلشن میں جب گئے ہیں، بہار ہی لُوٹ لے گئے ہیں
جہاں گئے ہیں یہ دو دلوں کا قرار ہی لُوٹ لے گئے ہیں
کہ دل دُکھانا ہے اِن کا شیوہ، اِنہیں ہے احساس کب کسی کا!

میں جُھوٹ کی جگمگاتی محفل میں آج سچ بولنے لگا ہوں
میں ہو کے مجبور اپنے گیتوں میں زہر پھر گھولنے لگا ہوں
یہ زہر شاید اُڑا دے نشہ، غرور میں ڈوبی زندگی کا!



قائداعظم اور اُن کے ساتھیوں نے جن دو عناصر کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا، کیا آج بھی وہ ہمارے معاشرے میں سرگرم ہیں؟