کربلا اقبال کی نظر میں


علامہ اقبال کے مطابق توحید کے عملی پہلو تین ہیں: اخوت، مساوات اور آزادی۔ اُن کے نزدیک پیغمبرِ اسلامؐ کی بعثت کا مقصد بھی یہی تھا کہ کُل انسانی سطح پر اِن تینوں اصولوں کی بنیاد رکھی جائے۔ “رموزِ بیخودی” میں انہوں نے کربلا کے واقعے کو تیسرے اصول کی وضاحت کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ مثنوی 1918 میں شائع ہوئی۔


اس سے دس سال پہلے وہ اپنے ایک تحقیقی مقالے میں واضح کر چکے تھے کہ مسلم ممالک میں عام طور پر جس قسم کی بادشاہت رائج رہی، وہ اصولی طور پر موروثی کی بجائے “منتخب بادشاہت” ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر اسلامی علمِ سیاست کی اولین کتاب میں، جو خلفائے بنو عباس کے زمانے میں لکھی گئی، یہ درج ہے کہ خلیفہ صرف بیعت کے ذریعے منتخب ہو سکتا ہے۔ ایک خلیفہ اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنا جانشین نامزد کر دے لیکن خلیفہ کی موت کے بعد اُس جانشین کو بھی بیعت لینی ہو گی۔ اگر خلیفہ نے اپنی زندگی میں اُسے لوگوں سے بیعت دلوا دی ہو تو وہ بیعت بھی خلیفہ کی موت کے ساتھ ختم ہو جائے گی اور دوبارہ بیعت لی جائے گی۔


کسی نہ کسی صورت میں یہ طریقہ دوسری مسلمان بادشاہتوں میں بھی برقرار رہا۔ سب سے مشہور مثال مغلوں کی ہے، جہاں ہر شہنشاہ کی وفات پر فوج کے اعلیٰ سالار اور اُمرأ یہ فیصلہ کرتے تھے کہ بادشاہ کا کون سا بیٹا جانشینی کے لائق ہے۔ مغلوں سے پہلے بعض خاندانوں میں، خاص طور پر خاندانِ غلاماں میں، کئی دفعہ بادشاہ کی اولاد کی بجائے کوئی اور قابل شخص بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔

یہ طریقہ اُس رواج سے بہت واضح طور پر مختلف ہے جو، مثال کے طور پر مغرب میں صدیوں سے رائج ہے کہ ایک بادشاہ یا ملکہ کے مرنے کے بعد اُس کا تاج و تخت بالکل نجی جائیداد کی طرح اُس کی سب سے بڑی اولاد کو منتقل ہو جاتا ہے۔ بظاہر یہی وجہ ہے کہ اقبال نے مسلم تاریخ کی بادشاہتوں کے لیے “منتخب بادشاہت” کی اصطلاح استعمال کی ہے کیونکہ وہاں موروثی رواج ایک قانون کا درجہ نہیں رکھتا تھا۔

یہ بات اس لیے حیرت انگیز ہے کہ جن قوموں نے اسلام قبول کیا اُن میں سے دونوں بڑی قوموں یعنی ایرانیوں اور منگولوں کا مزاج انتخاب کے اصول سے میل نہیں کھاتا تھا۔ جہاں تک خود عربوں کا تعلق ہے، اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اُن کی بہترین توانائیاں بھی فتوحات میں صرف ہوئیں اور زیادہ فتوحات کرنے والی اقوام عام طور پر جمہوری روش سے دُور ہٹتی جاتی ہیں۔ اقبال کے مطابق انہی دو اسباب یعنی عربوں کی فتوحات اور غیرعرب مسلمانوں کے فطری میلان کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں جمہوریت مشکل سے تیس برس چلی اور اُس کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک مطلق العنان بادشاہت قائم رہی۔

اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مطلق العنان بادشاہت، جسے روکنے والا مسلم معاشرے میں ایک ہزار سال تک کوئی نہ تھا، کس وجہ سے یہاں قانونی طور پر موروثی بادشاہت میں تبدیل نہ ہو سکی اور کیا وجہ تھی کہ اس میں انتخابی اصول کسی نہ کسی طور پر برقرار رہ گیا؟

اقبال کے نزدیک یہ امام حسینؓ کی قربانی کا نتیجہ تھا۔ اُنہوں نے یہ بات “رموزِ بیخودی کے اُس باب میں وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے جس کا عنوان ہے، “در معنیٔ حریتِ اسلامیہ و سرِّ حادثۂ کربلا”۔ اس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسلامی آزادی اور حادثۂ کربلا کے راز کی وضاحت میں

جس کسی نے ھوَالموجود سے پیمانِ وفا باندھا اُس کی گردن ہر معبود سے آزاد ہو گئی۔
مومن عشق سے ہے اور عشق مومن سے ہے۔ عشق کے لیے ہر ناممکن، ممکن ہو جاتا ہے۔
عقل سفاک ہے مگر عشق زیادہ سفاک ہے۔ زیادہ پاک، زیادہ چالاک اور زیادہ بیباک ہے۔
عقل اسباب و علل کے چکر میں پڑی رہتی ہے جبکہ عشق میدانِ عمل کا کھلاڑی ہے۔
عشق قوّتِ بازو سے شکار کرتا ہے جبکہ عقل مکّار ہے اور جال بچھاتی ہے۔
عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکہ عشق کے لیے عزم و یقیں لازم و ملزوم ہیں۔
عقل کی تعمیر میں ویرانی مضمر ہے اور عشق کی ویرانی میں بھی تعمیر چھپی ہوئی ہے۔
عقل ہوا کی طرح دنیا میں ارزاں ہے جبکہ عشق کمیاب اور بیش قیمت ہے۔ 
عقل ‘کیوں’ اور ‘کتنا’ کی بنیاد پر محکم ہوتی ہے جبکہ عشق اس لباس سے بے پروا ہے۔
عقل کہتی ہے کہ اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھو۔ عشق کہتا ہے کہ خود کو امتحان میں ڈالو۔
عقل فائدے نقصان کا حساب کتاب کر کے دوسروں سے آشنائی پیدا کرتی ہے اور عشق اللہ کے فضل پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنا حساب کتاب خود کرتا ہے۔
عقل کہتی ہے کہ خوش رہو اور آباد رہو۔ عشق کہتا ہے، کہ اللہ کی غلامی اختیار کرو اور آزاد ہو جاؤ۔
عشق کے لیے آزادی میں روح کا سکون ہے، اُس کے ناقہ کی ساربان آزادی ہے۔ 
کیا تم نے سنا ہے کہ جنگ میں عشق نے عقل کا مقابلہ کیسے کیا؟
وہ عااشقوں کے امام اور سیدہ فاطمہ کے بیٹے جو حضور صلی اللہ علیہ کے باغ کے آزاد سرو تھے۔
اللہ، اللہ، والد کا مقام بسم اللہ کی “ب” جیسا تھا اور اور بیٹا “ذبحِ عظیم” کا اصل مفہوم بن گیا!
خیرُ الملل کے اس شہزادے کے لیے آخری نبی کا کاندھا گویا ایک خوبصورت سواری تھی۔ 
اُن کے خون سے عشقِ غیور سرخرو ہوا۔ یہ مصرع اُنہی کے مضمون سے شوخی سے ہمکنار ہوا۔ 
یہ بلند مرتبہ شخصیت ملّت میں یوں ہے جیسے قرآن میں “قل ھواللہ” ہے۔
موسیٰ اور فرعون، شبیر اور یزید۔ زندگی سے یہ دو قوتیں جنم لیتی ہیں۔
شبیری کی قوت سے حق زندہ ہے۔ باطل کا انجام بالآخر حسرت زدہ موت ہے۔
جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اُس نے آزادی کے حلق میں زہر اُنڈیل دیا۔
تب یہ جلوہ، جوخیرُالامم کے تمام جلووں میں سرِ فہرست ہے، یوں اُٹھا جیسے قبلے کی جانب سے بارش کا بادل!
کربلا کی زمین پر برسا، اُس ویرانے میں لالے کے پھول اُگائے اور آگے بڑھ گیا۔
قیامت تک کے لیے استبداد کی جڑ کاٹ دی۔ اُس کے لہو نے ایک نیا چمن پیدا کر دیا۔
وہ حق کی خاطر خاک و خون میں لوٹ گئے اور یوں وہ “لاالٰہ” کی بنیاد بن گئے۔
اگر اُن کا مقصود سلطنت حاصل کرنا ہوتا تو اتنے تھوڑے سے سامانِ سفر کے ساتھ سفر اختیار نہ کرتے۔
دشمن صحرا کی ریت کی طرح لاتعداد تھے اور اُن کے دوست یزداں کے عدد کے لفظ کے برابر تھے، صرف بہتر۔ 
وہ ابراہیم اور اسماعیل کا راز ثابت ہوئے یعنی وہ اجمال تھے اور آپ تفصیل۔
اُن کا عزم پہاڑوں کی طرح محکم، پائیدار، آمادۂ عمل اور کامیاب تھا۔
اُن کی تلوار محض دین کی عزت کے لیے تھی اور اُن کا مقصد محض آئینِ شریعت کی حفاظت تھا۔  مسلمان اللہ کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا۔ وہ فرعون کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتا۔
اُن کے لہو نے یہ راز کھول دیا اور سوئی ہوئی ملّت کو بیدار کر دیا۔
جب انہوں نے “لا” کی تلوار میان سے نکالی تو باطل کے ارباب کی رگوں سے لہو نکال لیا،
اور ریت پر “اِلّا” تحریر کر دیا۔ ہماری نجات کا عنوان لکھ دیا۔
ہم نے قرآن کی رمز حسینٔ سے سیکھی ہے۔ ہم نے اُن کی آگ سے شعلے حاصل کیے ہیں۔
شام کی شوکت اور بغداد کی شان رخصت ہو گئی۔ غرناطہ کی سطوت بھی یاد سے محو ہو گئی۔
لیکن ہمارے تار ابھی تک حسینٔ کی مضراب سے بج رہے ہیں۔ اُن کی تکبیر سے ایمان آج بھی تازہ ہیں۔
اے صبا، اے دُور پڑے ہوؤں کی قاصد، ہمارے آنسو اُن کی پاک مٹی تک پہنچا دے!