اصل داستاں


یہ “آزادی” کی آخری قسط ہے۔


تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ کتابی صورت میں “آزادی” کے صفحات چَھپ چُکے ہیں اور سرورق کی چَھپائی ہو رہی ہے۔ انشأاللّٰہ چند روز تک کتاب تیار ہو گی۔


آج مَیں صرف قسط نہیں لکھ رہا بلکہ کُھل کر آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ اِس دفعہ کی فیچر امیج میں ابن صفی اور وحید مراد کے چہرے شامل ہیں تاکہ آپ ذہنی طور پر تیار ہو سکیں کہ آج ذرا مختلف بات ہونے لگی ہے۔

مجھے یہ کہنا ہے کہ کتاب “آزادی” عام کتابوں سے مختلف ہے۔ کتابیں عام طور پر اُسی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں جن کی بنیاد اسکول کالج میں رکھی جا چکی ہوتی ہے۔ جبکہ “آزادی” مجھے یہ کہہ کر پیش کرنی پڑ رہی ہے کہ ہماری زندگی کی دو بنیادی سچائیاں ایسی ہیں کہ ہماری تمام تعلیم، تمام سوچ اور تمام سمجھ کی بنیاد ہی اُن دو باتوں پر ہونی چاہیے تھی۔ اور ہماری تعلیم نے ہمیں ان دونوں میں سے کسی ایک کی خبر بھی نہیں ہونے دی۔ یہ کتاب انہی دو بنیادی حقائق کو مکمل ثبوت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔

اس لیے یہ کتاب تقاضا کرتی ہے کہ ہم کھلے دل کے ساتھ اعتراف کریں کہ ہم اپنی تمام ڈگریوں کے باوجود حقیقی تعلیم سے محروم رہے ہیں، اس لیے اِس کتاب کے ذریعے ہمیں اپنے آپ کو نئے سرے سے تعلیم دینے کے عمل کا آغاز کرنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نہ میں نے یہ کتاب دکانوں پر رکھوائی ہے اور نہ مجھے اس بات میں دلچسپی ہے کہ یہ بہت زیادہ لوگوں تک پہنچے۔ میں تو صرف ایک چھوٹا سا حلقہ ان لوگوں کا بنانا چاہتا ہوں جو میری طرح اِن دو بنیادی حقائق کی روشنی میں نئے سرے سے اپنے آپ کو تعلیم دینا چاہتے ہوں۔ اگر آپ بھی ان میں شامل ہوں تو بہت خوشی کی بات ہے ورنہ کوئی شکایت بھی نہیں ہے۔

اِس سے پہلے کہ میں اُن دو باتوں کا ذکر کروں، آپ فیاض ہاشمی کے مشہور نغمے “یوں دی ہمیں آزادی” پر میری بنائی ہوئی یہ ویڈیو دیکھیں۔ اِس میں وہ دونوں باتیں بھی موجود ہیں اور ویڈیو میں اختتام کے قریب فیاض ہاشمی کی دو تصویریں بھی شامل ہیں۔ آپ نے یہ نغمہ خواہ کتنی ہی دفعہ سُن رکھا ہو، آج صرف اِس سوال کا جواب تلاش کیجیے کہ اِس نغمے کے مختلف مصرعوں کا “آزادی” سیریز کی پچھلی قسطوں کے ساتھ کیا تعلق ہے۔



نغمے کا آخری بند ویڈیو میں شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ وہ قائداعظم کی وفات اور سقوطِ حیدرآباد دکن کے بارے میں ہے جبکہ کتاب “آزادی” اُس سے پہلے ختم ہو رہی ہے۔ انشأ اللّٰہ وہ بند میری کسی آیندہ کتاب کی تمہید بنے گا۔

اب آئیے اُن دو باتوں کی طرف جو میری رائے میں ہمیں معلوم ہونی چاہیئے تھیں لیکن معلوم نہیں ہیں۔


پورے برصغیر کو آزادی صرف آل انڈیا مسلم لیگ نے دلوائی تھی۔ اِس میں جنوبی ایشیا کی کسی اور سیاسی جماعت کا قطعاً کوئی دخل نہیں تھا۔

دوسری قوموں کے رہنماؤں نے اِس عمل میں جو ٹھوس کردار ادا کیا وہ 1927 سے پہلے کی بات ہے، جیسے دادا بھائی نوروجی (جن کی تصویر یہاں دی جا رہی ہے)، سریندرناتھ بینرجی، چِت رنجن داس اور دُوسرے۔ لیکن ان بزرگوں کے ورثے کی سچی امین بھی آخر میں مسلم لیگ ہی ثابت ہوئی۔ چنانچہ یہ کہنے سے کہ برصغیر کو آزادی صرف مسلم لیگ نے دلوائی، دوسری قوموں کی تحقیر نہیں ہوتی بلکہ اُن کے بہت سے بزرگ بھی اُس سے زیادہ عزت کے مستحق ٹھہرتے ہیں جو فی الحال انہیں دی جا رہی ہے۔

لیکن میں نے جب بھی کسی پڑھے لکھے مسلمان سے یہ بات کہی، زیادہ تر یہی سُننے کو مِلا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے!

حالانکہ یہی لوگ بڑی آسانی سے تسلیم کر لیتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کو ہندوؤں نے آزاد کروایا اور مسلمانوں کا اس عمل میں کوئی حصہ نہیں تھا، وہ صرف اپنے لیے ایک ٹکڑا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہی لوگ یہ بھی تسلیم کرنے پر تیار ہیں کہ انگریز شاید خود ہی اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے ہندوستان چھوڑ کر چلے گئے ہوں۔ لیکن جونہی ان کے سامنے قائداعظم کا یہ دعویٰ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ کام نہ ہندوؤں نے کیا، نہ انگریزوں نے، بلکہ یہ کام آپ کی قوم نے کیا، ان کا ذہن پکارنے لگتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے!

گویا ان کے خیال میں ہندو بھی جنوبی ایشیا کو آزاد کروا سکتے تھے، انگریز خود بھی ہمیں آزادی دے سکتے تھے، بس اگر کوئی یہ کام کرنے کا اہل نہیں تھا تو وہ مسلمان قوم تھی!

اِس کے سِوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ تقریباً یقینی طور پر اُسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی نشاندہی پہلی قسط میں کی گئی تھی کہ تعلیم نے مسلمانوں میں یہ اثر پیدا کیا کہ وہ اپنی قوم کو حقیر سمجھنے لگے۔

میں پچھلے سال اپنی انگریزی تصنیف “جناح: مقدمۂ پاکستان” میں اِس بات کے تمام ثبوت پیش کر چکا ہوں کہ واقعی قائداعظم نے یہ دعویٰ کیا تھا اور تقریباً 1954 تک سب کو معلوم تھا۔

وہاں میں نے یہ سوال بالکل نہیں اُٹھایا کہ اُن کا یہ دعویٰ درست تھا یا نہیں تھا۔ بلکہ وہاں میں نے صرف یہ سوال اٹھایا کہ کیوں 1954 کے بعد سے کسی بھی کتاب میں اس دعوے کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا، خواہ کتاب پاکستان کی حمایت میں ہو یا مخالفت میں ہو؟

کتاب “آزادی” میں وہ تاریخی حقائق بھی پیش کر دئیے گئے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم کا یہ دعویٰ واقعی بالکل درست تھا۔ آج کی قسط میں مزید کچھ ایسے ثبوت آپ کے سامنے آئیں گے جن کے بعد اِس بات میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں رہ جائے گی۔

آپ خواہ قائداعظم کی اِس بات سے اتفاق کریں یا اختلاف کریں، لیکن کیا اُن کا یہ دعویٰ کرنا اپنی جگہ اتنی اہم بات نہیں ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا تو پھر ہمیں اُس تعلیم پر شبہ کرنا چاہیے جو ہم نے حاصل کر رکھی ہے۔ ورنہ ہم تعلیم کا تصوّر ہی مسخ کر دیں گے۔


پاکستان بنانے کا سب سے پہلا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جو غربت اور خوف سے مکمل طور پر آزاد ہو، اور ہمیں یہ مقصد حاصل کرنے کے بعد ہی کسی اور طرف توجہ دینی چاہیے۔

یہ بات قائداعظم کے اقوال سے بالکل واضح ہے۔ لیکن اس کی طرف ہم آخر میں واپس آئیں گے کیونکہ اگر یہ واضح ہو جائے کہ برصغیر کو آزادی کس نے دلوائی اور کس طرح دلوائی، تو پھر یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ جس طریقے سے وہ کام ہوا تھا اُسی طریقے سے یہ بھی ہو سکتا ہے۔

اِسی لیے آج کی قسط کا عنوان کلیم عثمانی کے مشہور نغمے سے لیا گیا ہے (جن کی تصویر اُن کے فیس بُک صفحے سے لے کر یہاں پیش کی جا رہی ہے)۔

اس نغمے میں پاکستان بنانے والے رہنماؤں کی طرف سے ہمیں مخاطب کر کے کہا گیا ہے:

میرِ کارواں ہم تھے، روحِ کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے، اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اِس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اِس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اِس کے


آئیے، سب سے پہلے اِس بات کے ناقابلِ تردید ثبوت دیکھ لیں کہ پورے برصغیر کو آزادی واقعی آل انڈیا مسلم لیگ نے دِلوائی تھی۔


ہم اِس بحث کا آغاز قائداعظم کی اُس بات سے کر سکتے ہیں، جو اُنہوں نے پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں 11 اگست 1947 کو کہی تھی:

’’تقسیم ہونا ضروری تھی … مجھے یقین ہے کہ مستقبل کی تاریخ اس کے حق میں اپنا فیصلہ دے گی … جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے، عملی تجربے سے یہ ثابت ہوتا جائے گا کہ یہ ہند کے آئینی مسائل کا واحد حل تھا۔‘‘

اِس عملی تجربے کے تین مراحل پہلے ہی گزر چکے تھے، یعنی 1887 سے 1946 تک، جن کی تفصیل “آزادی” میں بیان ہوئی ہے۔ اب ہمیں اُن مراحل سے غرض ہے جو آزدی کے بعد پیش آئے۔ یہ چار ہیں: 1947 سے 1966، 1967 سے 1986، 1987 سے 2006 اور 2007 سے آگے۔

اِن میں سے ہر مرحلے پر یہ بات ازسرِ نَو واضح ہو جاتی ہے کہ جنوبی ایشیا کو کس نے اور کیسے آزاد کروایا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔


1947 سے 1966



1947 میں جو بھارت دنیا کے نقشے پر اُبھرا اور موجود ہے، اُس کی بنیاد بھی وہی قرارداد ہے جو مسلم لیگی نمایندوں نے اپریل 1946 میں منظور کی تھی۔

جیسا کہ ایک گزشتہ قسط میں ہم نے دیکھا تھا، اِس ملک کا کوئی تصوّر کانگرس کمیٹی کی جون 1947 کی قرارداد میں نہیں ملتا کیونکہ وہاں تو کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی جو تصویر پہلے سے اُن کے دل و دماغ میں ہے (جس میں پورا برصغیر ایک ہی وفاق ہو)، وہ ’’دل و دماغ میں برقرار رہے گی۔‘‘ نہ ہی موجودہ بھارت کا کوئی تصوّر ہندو مہاسبھا کی قرارداد میں تھا کیونکہ وہاں بھی یہی بات زیادہ سخت الفاظ میں دہرائی گئی تھی۔


اِس سے بھی ظاہر ہے کہ برصغیر کو آزادی آل انڈیا مسلم لیگ نے دلوائی۔ ورنہ ہمیں دکھایا جائے کہ 1947 میں جو ممالک قائم ہوئے، اُن کا تصوّر کسی ہندُو سیاسی جماعت کی کون سی قرارداد میں پایا جاتا ہے؟


تلخ حقیقت یہ ہے کہ 1947 میں جس قیادت نے بھارت کی باگ ڈور سنبھالی اُس کے ذہن میں اپنے ملک کا جغرافیہ تک واضح نہ تھا اور سو سال پرانا نقشہ اُس کے “دل و دماغ میں برقرار” تھا۔ بھارتی قیادت کو اپنے ملک کے جغرافیے سے آگاہی جنوری 1966 میں ہوئی جب گزشتہ برس کی پاک بھارت جنگ کے بعد اس نے معاہدۂ تاشقند پر دستخط کیے۔

معاہدۂ تاشقند کے بعض دوسرے پہلو متنازعہ ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چونکہ اس معاہدے میں بھارت نے پاکستانی سرحد کو بین الاقوامی تسلیم کر کے پاکستان کی خودمختاری کا اقرار کیا، اس لیے بھارت کی طرف سے بھی کانگرس اور ہندو مہاسبھا کی جون 1947 کی قراردادوں کی عملاً تنسیخ ہو گئی۔ اِس طرح عملی تجربے نے ثابت کر دیا کہ برصغیر کی تقسیم ہی جنوبی ایشیا کے بین الاقوامی معاملات کا صحیح حل تھی۔


جو سمجھتے ہیں کہ برصغیر کو آزادی ہندو قیادت نے دلوائی تھی، وہ بتائیں کہ پھر کیوں اس قیادت نے صرف بیس برس بعد اپنے اصولی مؤقف کو چھوڑ کر پاکستان کی خودمختاری کو خطّے کے امن کے لیے ضروری قرار دے دیا جبکہ وہ پاکستان کے قیام کو مغربی سرمایہ داروں کی سازش بھی قرار دیتی رہی تھی؟

اور یہ مہرِ رضامندی بھی سرمایہ داری کے سب سے بڑے دشمن سوویت رُوس کی گود میں بیٹھ کر ثبت کی گئی!



1967 سے 1986


اس کے ساتھ ہی تقسیم کے مضمرات میں سے ایک نئی بات سامنے آئی کہ پاکستان کے دونوں حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تعلقات اخوت، برابری اور داخلی آزادی کی بنیاد پر اُستوار ہوں۔

1967 تک اکثر مکاتبِ فکر اِس بات پر متفق ہو چکے تھے۔ پاکستان کی قیادت اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر کے بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ لیکن بنگلہ دیش نے اُسی مقصد کو جو 1967 میں سامنے آیا تھا، کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل کر لیا جب جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے سربراہان سے 1985 میں جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک (SAARC) کے چارٹر پر دستخط کروائے اور 1986 میں اس پر عمل درآمد کی تیاری مکمل ہو گئی۔

سارک چارٹرپر دستخط اُسی شہر ڈھاکہ میں ہوئے جہاں اُناسی برس پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس چارٹر کے ابتدائی الفاظ ملاحظہ کیجیے:

“ہم بنگلہ دیش، بھوٹان، ہندوستان، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کی ریاستوں یا حکومتوں کے سربراہان؛ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور غیرجانبداری کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے، خاص طور پر خودمختارانہ مساوات، علاقائی سالمیت، قومی آزادی، طاقت کے عدم استعمال اور دوسری ریاستوں کے داخلی معاملات میں دخل نہ دینے اور تمام تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے خطے میں امن، استحکام، خیرسگالی اور ترقی کو فروغ دینے کی خواہش کے ساتھ…”

اس طرح سات ممالک نے اُن علاقوں کی خودمختاری کو خطے کے امن اور خوشحالی کے لیے ضروری تسلیم کیا جن کے بارے میں کانگرس نے کہا تھا کہ ’’اقتصادی حالات اور بین الاقوامی امور‘‘ کے لحاظ سے انہیں ایک ہی ریاست میں شامل ہونا چاہیے اور جن کے متعلق ہندو مہاسبھا نے کہا تھا کہ انہیں ’’واپس انڈین یونین میں شامل کر کے انہیں مکمل طور پر اس کا حصہ‘‘ بنائے بغیر ’’کبھی امن قائم نہ ہو گا‘‘۔


1986 میں سارک سکریٹریٹ کے قیام کے موقع پر لی گئی اِس تصویر کو دیکھیے اور غور کیجیے کہ اُس وقت کے جنوبی ایشیا کے سات ممالک کے سربراہان، جن میں جواہرلال نہرو کا نواسا راجیو گاندھی بھی شامل ہے، جنوبی ایشیا کو جس اُصول کے مطابق آگے لے جانے کا عہد کر رہے ہیں وہ اُصول کانگرس اور ہندُو مہاسبھا کی جون 1947 کی قراردادوں میں پایا جاتا ہے یا آل انڈیا مسلمم لیگ کی اپریل 1946 کی قرارداد میں؟

اگر جنوبی ایشیا کو آزادی ہندُو قیادت نے دلوائی ہوتی تو کیا یہ ساتوں سربراہان اُس ہندو قیادت کے اساسی اصول کے بجائے آل انڈیا مسلم لیگ کے اصول کو پورے جنوبی ایشیا پر نافذ کرنے پر متفق ہو جاتے؟


1987 سے 2006


1987 سے سارک سکریٹریٹ نے کام کا آغاز کر دیا۔ لیکن اس دوران میں ایک سپر پاور جنوبی ایشیا کی مغربی سرحد پر دستک دینے لگی تھی۔

روسی افواج 1979 میں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے افغان مجاہدین کی جس طرح حمایت کی، وہ آج ایک متنازعہ موضوع ہے لیکن علامہ اقبال کے “جاویدنامہ” (1932) سے یہ الفاظ تو خارج نہیں کیے جا سکتے کہ

’’پورا ایشیا ایک جسم ہے اور افغان قوم اس میں دل کی طرح ہے۔ وہاں فساد کا مطلب پورے ایشیا میں فساد ہے، اور وہاں کی خوشحالی پورے ایشیا کی خوشحالی ہے۔‘‘

آسیا یک پیکرِ آب و گِل است
ملّتِ افغانیہ در آں دل است!
از فسادِ اُو فسادِ آسیا
در کشادِ اُو کشادِ آسیا!




1987 کے آغاز تک روس فوجیں واپس بلانے پر تیار ہو چکا تھا۔ اگلے برس جنیوا معاہدے کے ذریعے اس پر عمل شروع ہوا۔

اس کے بعد بھی افغانستان کو مزید خونریز امتحانوں سے گزرنا پڑا۔

2006 میں لندن میں ہونے والے ’’میثاقِ افغانستان‘‘ میں دنیا کے کئی ملکوں نے افغانستان کے استحکام کی خاطر تعاون کرنے کا وعدہ کیا اور یہ مقصد بڑی حد تک پورا ہوا کہ افغانستان اپنے آپ کو خارجی اور داخلی طور پر مستحکم کرنے کے قابل ہو۔ اس سے ایک سال پہلے 2005 کی کانفرنس میں جنوبی ایشیا کے ساتوں ممالک کے سربراہ افغانستان کی یہ درخواست قبول کر چکے تھے کہ اُسے بھی جنوبی ایشیا کی برادری کا حصہ سمجھا جائے۔

اِس طرح برصغیر کی سرحدوں کے باہر کے عملی تجربے نے بھی برصغیر کی تقسیم کی تائید کر دی کیونکہ پانی پت کی تیسری جنگ کے زمانے سے، جس میں افغانیوں کے بابائے قوم احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو شکست دی تھی، ہندو نسل پرستوں کے دلوں میں افغانوں کی طرف سے اندیشے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس لیے مطالبۂ پاکستان پر بھی ان کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان وجود میں آیا تو وہاں کے مسلمان افغانیوں اور ایرانیوں کو ساتھ ملا کر ہندوستان پر حملہ کر دیں گے۔ افغانستان کے سارک میں شامل ہونے سے یہ اعتراضات بھی بے حقیقت ثابت ہو گئے۔


کیا اب بھی یہ بات مزید کسی ثبوت کی محتاج رہ جاتی ہے کہ برصغیر کو آزادی کس نے دلوائی تھی؟


2007 سے آگے


2007 سےموجودہ مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس برس افغانستان سارک کا ممبر بن کر جنوبی ایشیا کی برادری میں شامل ہو گیا۔ تب سے کچھ اور ممالک بھی سارک میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں، جیسے برما۔ بہت سے ممالک ناظرین (observers) کے طور پر شامل ہو چکے ہیں یا ہو نا چاہتے ہیں۔ ان میں چین، جاپان، یورپین یونین، ری پبلک آف کوریا، امریکہ اور ایران شامل ہیں۔

یہ سارے ممالک جنوبی ایشیا کے ساتھ اُن قراردادوں کی روشنی میں تعلقات استوار نہیں کر رہے جو کانگرس اور ہندو مہاسبھا نے جون 1947 میں منظور کی تھیں بلکہ یہ تعلقات اُس جنوبی ایشیا کے ساتھ استوار کیے جا رہے ہیں جس کا ارتقأ مسلسل مسلم لیگ کی اپریل 1946 کی قرارداد کی روح کے مطابق ہو رہا ہے۔


اِس طرح برصغیر کی تقسیم کے بارے میں قائداعظم کی اِس بات کے زیادہ وسیع معانی سامنے آتے ہیں کہ ’’جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے، عملی تجربے سے یہ ثابت ہوتا جائے گا کہ یہ ہند کے آئینی مسائل کا واحد حل تھا۔‘‘

“ہم تو صرف عُنواں تھے، اصل داستاں تم ہو”


اب ہمیں ایک قدم آگے بڑھ کر یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ جب یہ طے ہو چکا ہے کہ جنوبی ایشیا نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اصول پر ہی آگے بڑھنا ہے نہ کہ ہندُو قیادت کے اصول پر تو کیا اِس خطّے کی ترقی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم تمام پچھلی تاریخ کو بھی اُسی اصول کی روشنی میں دیکھیں؟


ہم دیکھ چکے ہیں کہ سر سید کی تمام کوششوں کا اصل محرک یتیموں کے آنسو پونچھنا تھا۔ اقبال کی مثالی ریاست کا تصوّر بھی غربت اور خوف سے مکمل آزادی ہے، اور قائداعظم نے بھی اپنے ہر عام خطاب میں یہی کہا کہ سب سے پہلے غربت دُور کرنے کے لیے عملی اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کی اپریل 1946 کی قرارداد میں بھی قیامِ پاکستان کے دو بنیادی مقاصد میں سے ایک یہی ہے۔



اس لحاظ سے یہ بات بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے کہ 2007 کی سارک کانفرنس میں تمام سربراہوں کے مشترکہ بیان میں اگرچہ خوشگوار باتوں کی ایک طویل فہرست تھی لیکن جس نکتے کو پورے خطے کا اجماع (regional consensus) قرار دیا گیا وہ یہی غربت میں کمی کرنا (poverty alleviation) تھا۔

حال ہی میں، فروری 2019 میں، جب جنوبی ایشیا ایک نیوکلئر جنگ کے دہانے پر کھڑا تھا، دنیا نے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی یہی آواز سنی کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا اور ’’وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں دنیا کی سب سے زیادہ غربت ہے‘‘ اور ’’کبھی بھی کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جدھر تھوڑے سے لوگ امیر ہوں اور باقی غریبوں کا سمندر ہو۔‘‘ اِس آواز پر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی بہت سے پرخلوص لوگوں کی طرف سے جو مثبت ردِ عمل سامنے آیا اُسے شاید ہی کوئی نظرانداز کر سکے۔



اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نہ صرف آج پورے جنوبی ایشیا کی تنظیم اُسی اصول کی روشنی میں ہو رہی ہے جو آل انڈیا مسلم لیگ نے پیش کیا تھا بلکہ جنوبی ایشیا کی تمام ریاستوں کا اُس مقصد پر اجماع بھی ہو چکا ہے جو قائداعظم کے مطابق ہمارا اولین مقصد ہونا چاہیے۔

اگر ہمارے خیال میں یہ ناممکن ہے کہ معاشرے سے ہر قسم کی ناانصافی، غربت اور خوف پوری طرح دُور ہو جائے، تو ہمارے ایسا سمجھنے کی وجہ بھی وہی تعلیم ہے جو ہم نے حاصل کر رکھی ہے، اور جس نے ہمیں آج تک یہ بھی معلوم نہیں ہونے دیا کہ برصغیر کو آزادی کس نے دلوائی اور کس طرح دلوائی۔

یہ معلوم ہونے کے بعد یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ جس طریقے سے وہ کام ہوا تھا اُسی طریقے سے یہ بھی ہو سکتا ہے۔

اس لیے جیسا کہ شروع میں تجویز کیا گیا تھا، اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو نئے سرے سے وہ تعلیم دینا شروع کریں جو ہمیں بیرونی طور پر جنوبی ایشیا کی رہنمائی اور داخلی طور پر غربت اور خوف سے مکمل آزادی حاصل کرنے کے قابل بنا سکے:

یہ نکتہ سرگزشتِ ملّتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تُو ہے

میرے خیال میں سب سے پہلا قدم یہی ہو سکتا ہے کہ آپ کتاب “آزادی” کو سنجیدگی کے ساتھ پڑھنے کے بعد فیصلہ کیجیے کہ کیا آپ اِس معاشرے کو غربت اور خوف سے مکمل آزادی دلوانے کے لیے اُسی قائداعظم کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں، جس نے صرف سات سال کے عرصے میں ہمیں بیرونی تسلط سے آزاد کروا دیا تھا؟


آپ صرف اپنے بارے میں فیصلہ کر لیجیے۔ یہ مت سوچیے کہ آیا دوسرے بھی یہی فیصلہ کریں گے یا نہیں۔ اُن کے فیصلے سے اب شاید کوئی فرق نہ پڑے کیونکہ اب تاریخ اپنا فیصلہ دے چکی ہے، اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ:

قسم ہے صبح کی روشنی کی
اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے،
نہ آپ کے پروردگار نے آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ بیزار ہوا ہے!
آنے والا وقت آپ کے لیے گزرے ہوئے سے بہتر ہو گا
اور بہت جلد آپ کا پروردگار آپ کو اِتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں۔
کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا؟ پھر ٹھکانہ دیا؛
اور آپ کو بھٹکتے پایا تو راستہ دکھایا،
اور آپ کو نادار پایا تو غنی کر دیا۔
اس لیے یتیم پر سختی مت کیجیئے،
اور سائل کو مت جھڑکیئے،
اور اپنے پروردگار کی نعمت کا خوب چرچا کرتے رہیئے۔


پروردگار کی طرف سے دورِ حاضر میں ہمیں ملنے والی سب سے بڑی نعمت کون سی ہے اور وہ کس کے ذریعے ہمیں ملی، ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں:

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران!
اے قائداعظم، تیرا احسان ہے، احسان!

ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی
مُلک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اُٹھا دینِ محمدؐ کا سپاہی
اور نعرۂ تکبیر سے دی تُو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لیے آیا سرِ میدان!

دیکھا تھا جو اقبال نے اِک خواب سہانا
اُس خواب کو اِک روز حقیقت ہے بنانا
یہ سوچا جو تُو نے تو ہنسا تجھ پہ زمانہ
ہر چال سے چاہا تجھے دشمن نے ہرانا
مارا وہ تُو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان!

لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا
نہ توپ نہ تلوار نہ بندوق نہ بھالا!
سچائی کے انمول اصولوں کو سنبھالا
جناح تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا
ایمان والے چل پڑے سُن کر ترا فرمان!

پنجاب سے، بنگال سے جوان چل پڑے
سندھی، بلوچی، سرحدی پٹھان چل پڑے
گھربار چھوڑ بے سرو سامان چل پڑے،
ساتھ اپنے مہاجر لیے قرآن چل پڑے
اور قائدِ ملّت بھی چلے ہونے کو قربان!

نقشہ بدل کے رکھ دیا اِس ملک کا تُو نے
سایہ تھا محمدؐ کا، علیؓ کا ترے سر پہ
دنیا سے کہا تُو نے کوئی ہم سے نہ اُلجھے
لکھا ہے اِس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے:
آزاد ہیں، آزاد رہیں گے یہ مسلمان!



کتاب “آزادی” 26 جولائی کو محدود تعداد میں شائع ہو رہی ہے۔ قیمت پانچ سو روپے ہے جس میں اندرونِ پاکستان محصول ڈاک شامل ہے۔ صفحات 176، اور کتاب مجلد ہے۔ یہ دکانوں پر نہیں رکھوائی جائے گی اور صرف براہِ راست فروخت کی جائے گی۔ اگر آپ خریدنا چاہیں تو ایمیل پر رابطہ کیجیے:
khurramsdesk@gmail.com