چند روز پہلے لاہور کے شاہی قلعے میں سکھ دَور کی حویلی کے باہر رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ یہ مجسمہ برطانیہ میں قائم سِکھ ورثے کو فروغ دینے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ایس کے فاؤنڈیشن نے لاہور کے فقیرخانہ میوزیم سے تیار کروایا۔
بہت سے لوگ اِس پر اعتراض کر رہے ہیں۔ اکثر کا کہنا ہے کہ یہ مجسمہ ایک ایسے شخص کا ہے جس کی حکومت میں مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے گئے، مغل عمارتوں سے قیمتی پتھر نکال کر اُنہیں کھنڈر بنا دیا گیا اور مساجد ویران کر دی گئیں۔
عام طور پر میری کوشش ہوتی ہے کہ صرف حقائق تک محدود رہوں اور اپنی رائے پیش نہ کروں لیکن آج کی پوسٹ مختلف ہے کیونکہ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اعتراض اتنا معمولی نہیں ہے کہ اسے توجہ دئیے بغیر نظرانداز کر دیا جائے۔ صرف ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے، جو اِس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ رنجیت سنگھ کے زمانے اور ہمارے زمانے کے درمیان انگریزوں کا زمانہ بھی گزرا ہے، اور انگریزی دَورِ حکومت کے متعلق جو باتیں ہمیں ضرور معلوم ہونی چاہئیں، وہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمارے ذخیرۂ علم سے خارج کر دی گئی ہیں۔
میری کتاب "آزادی” اور اِس حوالے سے میری بلاگ پوسٹس کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ تاریخ دوبارہ ہماری دسترس میں آ جائے اور آج کل مَیں اِس کتاب کی تیاری اور طباعت کے سلسلے میں اتنا زیادہ مصروف ہوں کہ آج کی پوسٹ اتنی زیادہ معلوماتی نہیں ہو سکے گی جتنا میں چاہتا ہوں۔ اِس کے لیے پیشگی معذرت قبول فرمائیے۔
پرانی بات
سِکھ مذہب کی بنیاد بابا گرونانک نے رکھی جو 1469 میں پیدا ہوئے اور 1539 میں فوت ہوئے۔ اُن کے بارے میں علامہ اقبال کی نظم "بانگِ درا” میں موجود ہے، جس کا آخری شعر ہے:
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہِند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے!
چنانچہ علامہ اقبال کے نزدیک گرو نانک ایک مردِ کامل تھے جنہوں نے توحید کا درس دیا۔
گرو نانک کے بعد سکھوں کی تنظیم دس گروؤں نے کی، جن میں سے پانچویں گرو ارجن سنگھ تھے۔ انہیں شہنشاہ جہانگیر کے حکم پر قتل کر دیا گیا۔ نویں گرو تیج بہادر کو بھی شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر سزائے موت ہوئی۔ مغل مورخین کے نزدیک ان دونوں واقعات کی وجوہات سیاسی تھیں لیکن بہرحال اس کے بعد بھی مغلوں کی طرف سے سکھوں پر مختلف قسم کی سختیاں ہوتی رہیں۔ مغلوں کے بعد پنجاب پر افغانوں کی حکومت قائم ہوئی تو اُنہوں نے بھی یہی روش برقرار رکھی۔ سِکھ مصنفین نے اپنی کتابوں میں ان مظالم کی بڑی دردناک تفصیلات بیان کی ہیں۔
علامہ اقبال کے قریبی دوست منشی محمد الدین فوق نے رنجیت سنگھ کی سوانح عمری میں لکھا ہے، ’’بعض مسلمان بادشاہوں کی ناتجربہ کاریوں یا اُن کے غازیانہ جوش نے … سکّھوں کو جو بالکل فقیرانہ منش رکھتے تھے، تنگ کرنا شروع کیا” اس لیے دسویں گُرو گوبند سنگھ نے ’’اس کے فقیرانہ ٹھاٹھ کو جنگی فرقہ بنا کر اس کی کایا ہی پلٹ دی۔‘‘
گرو گوبند سنگھ تصویروں میں سپاہیانہ لباس میں سفید باز کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں۔ سِکھوں میں مشہور ہے کہ ایک دفعہ اُن کے معجزے سے چِڑیوں نے ایک باز کو ہلاک کر دیا ، جس پر اُنہوں نے کہا:
چِڑیوں سے میں باز تڑاؤں
تبئے گوبند سِنگھ نام کہاؤں
جیسا کہ میں ایک اور پوسٹ میں ذکر کر چکا ہوں، علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر بظاہر اِسی سے ماخوذ لگتا ہے:
اُٹھا ساقیا پردہ اِس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے!
1764 میں سِکھوں کے کئی گروہوں نے پنجاب پر قبضہ کر کے اسے آپس میں تقسیم کر لیا۔ یہ حکومت "سِکھا شاہی” کہلائی۔ سرداروں کی باہمی رقابتوں اور بدانتظامی کی وجہ سے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا سماں پیدا ہو گیا۔ یہ بھی ظاہر تھا کہ چونکہ مسلمان حکمرانوں کے زمانے میں سِکھوں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں ہوا تھا اس لیے اُن کے زمانے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ کوئی مروّت نہیں برتی گئی۔
1799 میں ایک باہمت نوجوان رنجیت سنگھ نےافغانستان کے حکمراں شاہ زمان کی اجازت سے لاہور پر حملہ کر کے اپنی حکومت قائم کی اور شاہ زمان کی طرف سے راجہ کا خطاب پایا۔ 1819 میں اُس نے کشمیر فتح کیا اور ستلج سے پشاور تک اُس کی حکومت قائم ہو گئی۔
فوق نے رنجیت سنگھ کی جو سوانح لکھی ہے، اُس کے مطابق رنجیت سنگھ کے دربار میں مسلمانوں کے لیے بھی جگہ تھی، مثلاً فقیر عزیزالدین اُس کے خاص معتمد تھے (لاہور میں فقیرخانہ میوزیم انہی کے جانشینوں نے قائم کیا ہے)۔ اِس بیانیے کے مطابق رنجیت سنگھ ذاتی طور پر مسلمانوں کا دشمن نہیں تھا لیکن سِکھ سرداروں کا سلوک عام طور پر مسلمانوں کے ساتھ بہت برا تھا۔ اذانوں اور نمازوں پر بھی پابندیاں تھیں۔ مغل عمارتوں میں سے قیمتی پتھر نوچ نوچ کر نکال لیے گئے، مساجد اصطبل بنا دی گئیں یا کسی اور مصرف میں لائی گئیں اور شاہی قلعے کے سامنے واقع بادشاہی مسجد کھنڈر بنا دی گئی (اس کی موجودہ خوبصورتی سِکھ دَور کے خاتمے کے بعد ہونے والی بحالی اور مرمت کا کرشمہ ہے)۔
چنانچہ اُسی زمانے میں دہلی سے سید احمد بریلوی بھی بہت سے مجاہدوں کو لے کر سکھوں کے خلاف جہاد کرنے آئے اور بالاکوٹ کے معرکے میں شہید ہوئے۔
27 جون 1839 کو رنجیت سنگھ فوت ہو گیا۔ پچھلے دنوں اِسی حوالے سے اُس کی ایک سو اسّی ویں برسی منائی گئی ہے۔ لیکن ایک سو اسّی برس پہلے کے حالات بڑے مختلف تھے اور ستّی کی رسم عام تھی۔ رنجیت سنگھ کی چِتا پر اُس کی لاش کے ساتھ اُس کی اٹھارہ بیویوں میں سے ایک بیوی، حرم کی تین عورتیں اور کچھ کنیزیں بھی زندہ جلائی گئیں۔
رنجیت سنگھ کے جانشین بمشکل دس برس سلطنت سنبھال سکے اور 1849 تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب پر قبضہ مکمل کر لیا۔ 1858 میں ہندوستان کے بقیہ حصوں کے ساتھ یہ بھی براہِ راست تاجِ برطانیہ کا حصہ بنا۔
انگریزوں کا زمانہ
یہاں میں نے بہت سے اہم واقعات کا ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ میں تاریخ نہیں لکھ رہا بلکہ یہ مختصر پس منظر صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ جلد از جلد اُس نکتے کی طرف آ سکوں جو میرا اصل مقصد ہے۔
وہ نکتہ یہ ہے کہ پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد مسلمانوں اور سِکھوں نے ایک طرح سے یہ تسلیم کر لیا کہ مسلمانوں کی حکومت بھی ختم ہو گئی جس سے سِکھوں کو شکایت تھی اور سکھوں کی حکومت بھی ختم ہو چکی ہے، جس سے مسلمانوں کو شکایت تھی۔ اب یہ سمجھنا چاہیے کہ حساب برابر ہو چکا ہے اور یہ ایک نئے دَور کا آغاز ہے۔
یہ بات جس شخص نے شاید سب سے زیادہ واضح الفاظ میں بیان کی، وہ قائداعظم محمد علی جناح ہیں۔ میں نے آزادی کی پہلی قسط میں اِس موضوع پر اُن کے جو الفاظ پیش کیے تھے، انہیں دوبارہ پیش کرتا ہوں:
"ماضی میں ہم نے اُن سے جنگ کی ہے اور انہوں نے ہم سے جنگ کی ہے؛ ہم نے انہیں شکست دی ہے اور انہوں نے ہمیں شکست دی ہے۔ وہ ایک عظیم اور بہادر قوم ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں مسلمانوں کے سچے جذبات کی ترجمانی کر رہا ہوں جب میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو کسی اور چیز سے اتنی خوشی نہیں ہو سکتی جتنی کہ پنجاب کی دونوں بہادر قوموں کے درمیان ایک آبرومندانہ تصفیے سے ہو سکتی ہے۔”
یہ اپنی قوم اور اپنی تاریخ کے متعلق وہی رویہ ہے جس کے لیے میں نے "آزادی” کی پہلی قسط میں لکھا ہے کہ یہ لوگ "نہ اپنی اپنی قوموں کے ماضی پر شرمندہ تھے اور نہ ہی اس کے حصار میں محدود رہنا چاہتے تھے بلکہ ماضی کو ساتھ لے کر کسی ذہنی خلجان میں مبتلا ہوئے بغیر آگے بڑھنا چاہتے تھے۔”
اس کی ایک مثال علامہ اقبال اور سردار اُمراؤ سنگھ مجیٹھیا کی دوستی ہے، جس کے بغیر اقبال کی کوئی سوانح مکمل نہیں ہو سکتی۔ اُمراؤ سنگھ کو فوٹوگرافی کا شوق تھا۔ وہ علامہ اقبال کی تصویریں اِس احساس کے ساتھ کھینچتے تھے کہ یہ ایک ایسی ہستی کی تصویریں ہیں جسے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔
اُن کی کھینچی ہوئی اقبال کی کئی تصویریں موجود ہیں جن میں سب سے مشہور وہی ہے جو آج اقبال کی سب سے بڑی پہچان ہے، یعنی یہ والی:
اس کے علاوہ میرے خیال میں علامہ اقبال کی یہ دوسری مشہورترین تصویر بھی تقریباً یقینی طور پر اُمراؤ سنگھ کی کھینچی ہوئی ہے:
کیا ہم اپنے قومی شعور سے یہ دو تصویریں خارج کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں کر سکتے تو پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک سِکھ کی طرف سے پیش کیے ہوئے تحفے ہیں، جو لاہور میں ہی رہتا تھا۔ ہم کیوں نہ اُسے پاکستانی قومیت کے معماروں میں شمار کریں جس نے ہماری قومیت کے لیے یہ دو اینٹیں فراہم کی ہیں جو سونے کی اینٹوں سے زیادہ قیمتی اور شاہی قلعے کے پتھروں سے زیادہ لازوال ہیں۔
دوسری طرف مسلمانوں نے بھی کچھ کم گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اُس زمانے کے بعض معتبر مسلمانوں نے رنجیت سنگھ کی سوانح عمریاں لکھیں۔
علامہ اقبال اور اُمراؤ سنگھ کے مشترکہ دوست نواب سر ذوالفقار علی خاں نے انگریزی میں رنجیت سنگھ کی سوانح لکھی، لیکن یہ مجھے ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔
علامہ اقبال کے ایک اور دوست منشی محمد الدین فوق کی لکھی ہوئی سوانح، جس کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے، انٹرنیٹ پر بھی مل جاتی ہے۔ اِس کے سرورق پر تحریر تھا کہ اِس میں "مملکتِ پنجاب کے مشہور اور جوانمرد فرمانروا شیرِ پنجاب” کے حالاتِ زندگی ہیں۔
علامہ اقبال کی گرو نانک کے بارے میں نظم کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ وہ رنجیت سنگھ کو بھی قابلِ احترام سمجھتے تھے۔
رنجیت سنگھ کی پوتی شہزادی بَمبا دلیپ سنگھ لاہور میں آ کر رہنے لگیں تو وہ اقبال کی خاص مداح بن گئیں اور اقبال بھی اسے ایک بڑی بات سمجھتے رہے کہ رنجیت سنگھ کی پوتی اُن سے ملنے آتی ہے۔
شہزادی بَمبا کی قبر لاہور کی جیل روڈ پر گورا قبرستان میں ہے (اُن کے والد نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا)۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فارسی اشعار اُنہوں نے اپنے کتبے کے لیے خود منتخب کیے تھے، جن کا مفہوم یہ ہے کہ موت بادشاہی اور فقیری کا فرق مٹا دیتی ہے۔
ایک دفعہ اقبال نے رنجیت سنگھ پر فارسی میں نظم لکھی تواُمراؤ سنگھ کو بھجوا کر پوچھا کہ کہیں اِس میں مہاراجہ کی توہین کا کوئی پہلو تو نہیں نکلتا۔ یہ نظم اقبال کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہے، جس سے لگتا ہے کہ شاید اُمراؤ سنگھ نے منع کیا ہو۔
اُمراؤ سنگھ کو شہزادی کی ایک آسٹرین سہیلی مس گوٹسمین میں دلچسپی ہو گئی تو اقبال نے دو رومانوی نظمیں لکھیں تاکہ سردار جی اُن کا ترجمہ کر کے مس گوٹسمین کو سُنائیں اور اپنے دل کی مُراد پائیں۔ وہ نظمیں ہیں، "پھول کا تحفہ عطا ہونے پر” اور "۔۔۔کی گود میں بلّی دیکھ کر” (دونوں نظمیں "بانگِ درا” میں شامل ہیں)۔ سردار جی کی واقعی مس گوٹسمین سے شادی ہو گئی جس کے بعد وہ پہلے ہنگری اور پھر فرانس چلے گئے لیکن ہندوستان بھی آتے جاتے رہتے تھے۔ ان میاں بیوی کی بیٹی مشہور مصوّرہ امرتا شیر گِل تھیں۔
قائداعظم کے جذبات بھی سِکھوں کے لیے کچھ ایسے ہی تھے۔ 28 فروری 1936 کو لاہور مِں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ بچپن ہی سے سِکھوں کے بہت قدردان رہے ہیں، اور سِکھ ریاستوں کے بعض معاملات میں اُنہوں نے اپنی خدمات فیس کے لیے نہیں بلکہ اُس احترام کی وجہ سے پیش کی ہیں جو اُن کے دل میں سِکھوں کے لیے ہے۔
یہ ہمارے دونوں بڑے قائدین کے جذبات تھے سِکھوں کے بارے میں، یعنی علامہ اقبال اور قائداعظم کے۔ لیکن اس کے بعد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُس زمانے میں سِکھوں کے بڑے رہنماؤں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے اِس قسم کی کسی خیرسگالی کا کوئی اظہار نہیں ملتا ہے۔
سردار اُمراؤ سنگھ جیسے مہربان، عام لوگوں میں سے تھے۔ ورنہ جہاں تک سِکھ قیادت کا تعلق ہے، اُس نے ہندو نسل پرستوں کے اِشاروں پر چلتے ہوئے پنجاب کے مسلمانوں کو جس طرح اُن کے جائز حقوق سے بھی محروم کرنے کی کوششوں میں حصہ لیا، وہ اِس خِطّے کی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔
اس کے علاوہ 1935 میں مسجد شہید گنج کا مسئلہ پیدا کیا گیا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ 1947 میں پنجاب کو ایسی بھیانک خانہ جنگی کی آگ میں جھونک ڈالا جس کے تذکرے سے بھی روح کانپ جاتی ہے۔
آج کی بات
1947 کے بعد جس طرح بھارتی قیادت نے سِکھوں کی طرف سے آنکھیں پھیریں، اور 1984 میں ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی اور اُن کا قتلِ عام کیا گیا، اُس کے بعد سے سکھوں کا رویہ پاکستان کی طرف خاصا دوستانہ ہو گیا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے کرتار پور سرحد کے معاملے میں جو پیشکش کی ہے، وہ پاکستان کی ایک اخلاقی فتح بھی ثابت ہوئی ہے۔
اب برطانیہ میں قائم ایس کے فاؤنڈیشن، جس نے رنجیت سنگھ کا مجسمہ پاکستان کو تحفے کے طور پر دیا ہے، اس مقصد کے لیے کوشاں ہے کہ دنیا میں سکھوں کی قومی شناخت اور ورثے کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے۔ اس فاؤنڈیشن نے فرانس اور اٹلی میں بھی مجسمے نصب کروائے ہیں کیونکہ ان ممالک کے ساتھ بھی رنجیت سنگھ کا تعلق تھا۔ کسی بھی قوم کو دنیا کے ایک سے زیادہ ممالک کے درمیان رابطے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش قابلِ تحسین ہے بلکہ علامہ اقبال کے لحاظ سے تو گرو نانک کے پیغام کی اصل روح بھی یہی تھی:
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
مجسمے کی تنصیب کے موقع پر حکومت کے نمایندے نے کہا کہ موجودہ حکومت کا مقصد پاکستان میں مذہبی ٹورازم اور بالخصوص سکھ ٹورازم کو فروغ دینا ہے۔ اِس مقصد سے بھی کسی پاکستانی کواصولی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
لیکن اگر یہ سمجھا گیا ہے کہ لاہور میں رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب اِس مقصد کے حصول میں معاون ہو گی، تو بظاہر دو بہت بڑی رکاوٹیں دکھائی دیتی ہیں، جنہیں دُور کرنا کسی حکومت کے بس میں نہیں بلکہ عوام کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
سب سے پہلی اور بڑی رُکاوٹ پاکستان میں ایک ایسے طبقے کا وجود ہے جو خود کو کسی وجہ سے "قوم پرست”، اور غالباً کسی وجہ کے بغیر، "لبرل” کہتا ہے۔
اِس طبقے کے بارے میں میرے ایک دوست سمیع اللہ خاں نے حال ہی میں لکھا ہے کہ:
"روایتی قوم پرست سندھی ہو، بلوچ ہو یا پھر پشتون، ان میں قدرِ مشترک چند باتیں ہیں یعنی پاکستان، قائد اعظم اور اقبال مخالف ہونا۔ اور اگر قوم پرست پڑھ لکھ کر دیسی لبرل ہوگیا ہو تو پھر وہ اسلام پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔ قوم پرستوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو پاکستانیوں کو تقسیم کیا جائے۔”
اِس جُھوٹی قوم پرستی کی بنیاد کس طرح کانگرس نے پاکستان میں رکھوائی اور مذہبی انتہاپسندی، سوشلزم اور نسل پرستی جیسے متضاد تصوّرات کو یکجا کیا، اُس پر کچھ روشنی "آزادی” کی نویں قسط میں ڈالی گئی ہے اور باقاعدہ حوالے کتاب "آزادی” میں دستیاب ہیں۔
موجودہ حالات میں یہ طبقہ رنجیت سنگھ کو پنجابی قومیت کی علامت بنا کر پیش کر رہا ہے (حالانکہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں پنجابی قومیت کا کوئی تصوّر موجود نہ تھا اور پنجاب محض ایک جغرافیائی حوالہ تھا، جس طرح علامہ اقبال کی نظم "گرونانک” میں استعمال ہوا ہے)۔
سخت افسوس کی بات ہے کہ ایس کے فاؤنڈیشن کے کرتا دھرتا بوبی سنگھ بنسل نے بھی اس موقع پر کہہ دیا کہ انہیں اُمید ہے کہ یہ مجسمہ "پنجاب” کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں مفید ہو گا (نہ کہ پاکستان کے تمام لوگوں میں)۔
موجودہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی، فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر دو برس پہلے رنجیت سنگھ کو "پورس کے بعد واحد پنجابی بادشاہ” کہا تھا۔ اِس دفعہ "پنجابی بالادستی کی علامت” بھی قرار دیا:
دوسری رُکاوٹ یہ ہے کہ پڑھے لکھے پاکستانی میں ابھی تک یہ شعور بیدار نہیں ہوا کہ اجتماعی نوعیت کے کسی بھی اقدام کے لیے عوام سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔
مجسمے نصب کرنے کی روایت جن ترقی یافتہ ممالک سے آئی ہے، وہاں تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی پبلک مقام پر کسی ایسی شخصیت کا مجسمہ نصب کیا جائے جو کم سے کم اُس شہر کے لوگوں کی اکثریت کے لیے ناپسندیدہ ہو۔
اِس لحاظ سے رنجیت سنگھ کا مجسمہ لاہور کے شاہی قلعے میں نصب کروانے کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ پہلے رائے عامہ ہموار کی جاتی، خواہ علمی دلائل پیش کر کے خواہ عوام کی منت سماجت سے، اور صرف نام نہاد دانشوروں کی نہیں بلکہ شاہی قلعے کے باہر بھیک مانگنے والے بھکاری تک کی رائے کو اہمیت دی جاتی کیونکہ جب تک شاہی قلعے پر پاکستانی پرچم لہراتا ہے، اُس وقت تک اس قومی عمارت کی ملکیت میں ایک ادنیٰ ترین شہری کا بھی اُتنا ہی حصہ ہے جتنا ملک کی کسی بڑی سے بڑی ہستی کا۔
کیا یہ کام مشکل تھا؟ میں نے اوپر جو معلومات پیش کی ہیں، اُن سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اس طرح کی رائے عامہ حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔
کیا کرنا چاہیے؟
سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر کے مسلمان ایک قوم ہیں، اور اُن کے قومی وجود میں تاریخی تسلسل ہے۔
اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں تو جو حوالے اوپر پیش کیے گئے ہیں، اور مزید بہت سی باتیں جن کی یہاں گنجایش نہیں تھی، وہ سب دَورِ حاضر میں مسلمانوں اور سِکھوں کے درمیان ایک ایسی دوستی کی نیاد رکھ سکتی ہیں جو دنیا میں ایک مثال بن جائے، بالکل اُسی طرح جیسے علامہ اقبال اور سردار اُمراؤ سنگھ کی دوستی تھی۔
دونوں قوموں کے اِس قسم کے بزرگوں نے ایک مثال قائم کر دی ہے لیکن اس مثال سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہی بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اگر علامہ اقبال رنجیت سنگھ کا احترام کرتے تھے، تو وہ اُمراؤ سنگھ سے بھی یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اورنگزیب عالمگیر کے خلاف کوئی نازیبا بات نہیں کہیں گے۔
اس لیے یہ قابلِ غور ہے کہ مجسمے کی نقاب کشائی کی تقریب میں بیرونِ ملک اور بھارت کی شخصیات بھی موجود تھیں، پھر وہاں موجود پاکستانیوں میں سے کسی کو یہ کہنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی کہ چونکہ لاہور کے شاہی قلعے میں رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب کی اجازت دے کر حکومتِ پاکستان نے رواداری سے کام لیا ہے، اس لیے اب بھارتی حکومت بھی رواداری سے کام لیتے ہوئے دہلی کے لال قلعے میں اورنگزیب کا مجسمہ نصب کرنے کی اجازت دے؟ اورنگزیب میں اگر مذہبی تعصب تھا بھی (جو قابلِ بحث ہے)، تو بہرحال رنجیت سنگھ سے زیادہ تو نہیں تھا!
ہمیں یہ اصول تسلیم کرنا چاہیے کہ اجتماعی زندگی کے تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے ہوں ورنہ اکثریت کی رائے کا احترام تو ضرور کیا جائے۔
نہ صرف آج کی ترقی یافتہ قوموں میں یہی اصول رائج ہے بلکہ پاکستان کا قیام اور برصغیر کی آزادی بھی اسی طرح ممکن ہوئی تھی۔ علامہ اقبال، قائداعظم اور مسلمانوں کے کسی نمایندہ رہنما نے کبھی اپنی مرضی عوام پر مسلط نہیں کی بلکہ ہمیشہ قومی رائے کی پیروی کی (دیکھیے، "جناح کی آواز")۔
علامہ اقبال رنجیت سنگھ کی عزت اس لیے نہیں کرتے تھے کہ لبرل کہلانے کا شوق تھا بلکہ اس لیے کرتے تھے کہ اُس وقت مسلمانوں کی عام روِش یہی ہو گئی تھی، جیسا کہ فوق کی لکھی ہوئی رنجیت سنگھ کی سوانح سے بھی ظاہر ہے۔
قائداعظم نے جس وقت سِکھوں کی تعریف میں وہ بیانات دئیے جن کے دو اقتباسات اوپر پیش کیے گئے ہیں، اُس وقت مسلمانوں اور سِکھوں کے درمیان مسجد شہید گنج کے مسئلے پر ایسا تنازعہ موجود تھا کہ دونوں قومیں ایک دوسرے کی خون کی پیاسی ہو رہی تھیں، اور قائداعظم اپنی تمامتر سِکھ نوازی کے باوجود اِس مسئلے کا تصفیہ مسلمانوں کی خواہشات کے مطابق کروانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔
جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اجتماعی زندگی کے تمام فیصلے کرنے کا اختیار صرف اور صرف عوام کو ہے، اُس وقت تک ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا جبکہ یہ اصول تسلیم کرنے سے ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔