اس دفعہ مصروفیت کی وجہ سے وہ قسط نہیں لکھ سکا ہوں جس کا وعدہ کیا تھا اس لیے ایک پرانی پوسٹ دوبارہ پیش کر رہا ہوں۔ یہ پہلی دفعہ 15 اگست 2016 کو پرانے بلاگ پر شائع کی تھی۔ پڑھ کر رائے ضرور دیجیے گا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ "اے مردِ مجاہد جاگ ذرا” پاکستانی فوج کا سرکاری بینڈ ہے لیکن شاید ہم نے کبھی غور نہ کیا ہو کہ اس ترانے کا علامہ اقبال کی فکر کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے۔ بلکہ اُن کے خواب کو حقیقت بنانے میں شاید یہ ترانہ ایک عملی اقدام کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک ایسا نغمہ تخلیق کرنا جو مسلسل کئی نسلوں کے ذہنوں کو متاثر کرتا رہے کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ نغمہ فلم "چنگیز خان” کا ہے جو ۱۹۵۸ء میں ریلیز ہوئی۔ میں نے یہ فلم نہیں دیکھی کیونکہ نایاب ہے۔ البتہ سنا ہے کہ نسیم حجازی کے ناول "آخری چٹان” سے ماخوذ تھی۔ ممکن ہے اس لیے بھی بنائی گئی ہو کہ صرف ایک برس پہلے بھارت میں بھی فلم "چنگیز خان” بن چکی تھی۔ "اے مردِ مجاہد” والے نغمے کے شاعر طفیل ہوشیارپوری تھے۔ موسیقار رشید عطرے تھے۔ گلوکار عنایت حسین بھٹی تھے۔ ہدایتکار رفیق سرحدی تھے۔ چند برس بعد ہی پاک فوج نے یہ ترانہ پریڈ کے لیے پسند کر لیا۔ غالباً گلوکار کو فوج میں اعزازی عہدہ بھی دیا گیا۔
قریباً ساٹھ برس ہونے کو آئے ہیں لیکن آج بھی یہ نغمہ سن کر لوگ صرف قومی فریضہ ہی پورا نہیں کرتے بلکہ محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ اس قسم کے شاہکار کیوں نہ اُن معجزاتِ فن کے زمرے میں رکھے جائیں جن کے بارے میں علامہ نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ انہیں تخلیق کرنے والے اپنے عشق کی وجہ سے زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اُن کا وجدان اُنہیں کسی اور دنیا سے جوڑ دیتا ہے۔
نغمے کی ابتدا ہوتے ہی پہلا معجزہ یہ سامنے آتا ہے کہ تیرھویں صدی کی وہ دنیا جس کی کہانی فلم میں پیش کی جا رہی ہے، شاعر کے زمانے کے پاکستان کی ایک علامت بن جاتی ہے۔ فلم کی ریلیز سے صرف چار برس پہلے ہمارے قومی ترانے میں حفیظ جالندھری "پرچمِ ستارہ و ہلال” کو "سایۂ خدائے ذوالجلال” کہہ چکے تھے۔ طفیل کے نغمے کے ابتدائی مصرعے بھی توحید کے پرچم کو "اللہ کی رحمت کا سایہ” قرار دے رہے ہیں لیکن یہ پرچم موجودہ پاکستان کا نہیں بلکہ تیرھویں صدی میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کرنے والےہمارے بزرگوں کا پرچم ہے۔ ماضی اور حال کے درمیان یہ تسلسل قائم کر کے طفیل نے حفیظ کی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ ہمارا قومی پرچم صرف "شانِ حال” نہیں بلکہ "ترجمانِ ماضی” بھی ہے۔
پھر طفیل نے یہ بات اتنے ڈرامائی انداز میں کہی ہے کہ فوراً ہی ہماری توجہ حاصل کر لیتے ہیں:
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
میرے خیال میں ٹیپ کے مصرعوں یعنی "اے مردِ مجاہد جاگ ذرا” کا ماخذ علامہ اقبال کی نظم "جوابِ شکوہ” ہے۔ یہ قدرتی بات تھی کہ تاتاریوں کی یلغار کی کہانی کے لیے نغمات لکھتے ہوئے طفیل کا ذہن اُس نظم کی طرف جاتا جس میں کہا گیا تھا، "ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے”۔ علامہ نے اُس سے اگلے ہی بند میں خدا کی زبانی جنگِ بلقان کے بارے میں، جو نظم کے زمانے میں جاری تھی، کہلوایا کہ وہ "غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا”۔ یہی وہ بات ہے جو طفیل نے آسان زبان میں یوں کہی ہے کہ "اے مردِ مجاہد جاگ ذرا”۔ جس طرح طفیل نے ڈرامائی انداز میں نغمے کا آغاز کیا ہے یعنی "توحید کا پرچم لہرایا”، بالکل اُسی طرح "جوابِ شکوہ” میں جنگِ بلقان والا بند بھی ڈرامائی انداز میں شروع ہوتا ہے، "ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا”۔ جنگِ بلقان کے بارے میں اہم بات "جوابِ شکوہ” میں یہ کہی گئی ہے کہ "امتحاں ہے ترے ایثار کا، خودداری کا”۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ طفیل نے ایثار اور خودداری کے امتحاں ہی کو نغمے کا مرکزی خیال بنایا ہے۔
پہلا بند ملاحظہ فرمائیے:
سر رکھ کے ہتھیلی پر آنا
ہے ظلم سے تجھ کو ٹکرانا
ایمان کا ہے رکھوالا تُو
اسلام کا ہے متوالا تُو
ایمان ہے تیرا سرمایہ
اِس بند میں ایثار اور قربانی کا تاثر یوں بھی بڑھ جاتا ہے کہ جس چیز سے ٹکرانے کی دعوت دی جا رہی ہے وہ "ظلم” ہے۔ اس طرح اسلام کسی دوسرے مذہب کے رقیب کے طور پر نہیں بلکہ ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والی ایک اخلاقی قوت کے طور پر متعارف ہوتا ہے۔
نغمے کے اگلے بند میں "جوابِ شکوہ” سے تعلق بالکل کھل کر سامنے آ جاتا ہے بلکہ اسی بند کے دو مصرعوں کی وجہ سے میں نے پہلی دفعہ اس نغمے اور "جوابِ شکوہ” کے باہمی تعلق کو محسوس کیا تھا۔ "جوابِ شکوہ” کے آخری بند میں جو بیحد مشہور ہے، خدا کی زبانی مسلمانوں سے کہا گیا ہے، "مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری” اور "تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری”۔ نغمے کے دوسرے بند میں طفیل کہتے ہیں، "تدبیر تری، تقدیر تری۔ اب دنیا ہے جاگیر تری”۔ یہ تعلق اتنا واضح ہے کہ اس کے بعد کسی شبہے کی گنجایش نہیں رہتی۔ "جوابِ شکوہ” کے اسی بند میں ہمیں اُس "تکبیر” کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو طفیل کے پورے نغمے میں گونج رہی ہے۔ اب "جوابِ شکوہ” کا مکمل بند ملاحظہ کیجیے:
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش، خلافت ہے جہانگیر تری
ماسوااللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اِس روشنی میں طفیل کے نغمے کے دوسرے بند پر غور کیجیے:
تُو ہاتھ میں اب تلوار اُٹھا
رکھ سر پہ کفن میدان میں آ
تدبیر تری، تقدیر تری
اب دنیا ہے جاگیر تری
تاریخ نے ہے یہ بتلایا
تیسرے بند میں "باطل” اور "کفر” کا تذکرہ ہے لیکن یہاں یہ چیزیں کسی دوسرے مذہب کے ساتھ نتھی نہیں کی گئیں بلکہ اُن خرابیوں کی طرف اشارہ ہے جنہیں مٹانا کسی بھی انسان کا فرض ہونا چاہیے۔ اگر مسلمان یہ فرض ادا کریں تو وہ صرف اسلام ہی کی نہیں بلکہ انسانیت کی بھی خدمت کریں گے:
باطل کی نظر للچائی ہے
انسان پہ تنگ خدائی ہے
سر کفر نے دیکھ اُبھارا ہے
اسلام کو پھر للکارا ہے
تقدیر نے یہ دن دکھلایا
علامہ کے نزدیک اسلامی تصوّرِ حیات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی اصل فطرت اُس کے ارادے میں مضمر ہے نہ کہ عقل یا شعور میں اور یہ فطرت بنیادی طور پر نیک ہے۔ انسان فطرتاً برا نہیں، گناہگار نہیں بلکہ اُس کی فطرت میں برائی کی آمیزش بھی نہیں ہے۔ ہر برائی بنیادی طور پر خوف سے جنم لیتی ہے۔ اس کاسرچشمہ انسان کے باطن میں نہیں بلکہ باہر کی دنیا میں ہے۔ خوف سے نجات حاصل کرنا ہی درحقیقت نجات ہے۔
قرآن شریف میں جہاد کا تصوّر بھی اِسی کے مطابق ہے۔ جس آیت کو پورے تصوّرِ جہاد کی جامع تلخیص سمجھا گیا ہے اُس کا مفہوم بمع حوالے کے آپ طفیل کے نغمے کے چوتھے بند میں ملاحظہ کریں گے۔درحقیقت علامہ کی دونوں نظمیں "شکوہ” اور "جوابِ شکوہ” بھی اسی آیت کی ایک مفصل شرح ہیں۔ "شکوہ” میں بڑی تفصیل کے ساتھ یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ کیا نئے زمانے میں اس آیت کا اطلاق نہیں ہوگا؟ "جوابِ شکوہ” میں اتنی ہی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ دورِ جدید میں اس آیت کے کون سے مضمرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ سورۂ توبہ کی ایک سو گیارہویں آیت ہے جس کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ "اللہ نے مومنوں سے جنت کے بدلے میں اُن کے جان اور مال خرید لیے ہیں۔ وہ اُس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، جان لیتے ہیں اور دے دیتے ہیں۔ یہ ایک وعدہ ہے جو اُس نے تورات، انجیل اور قرآن کے ذریعے اپنے اوپر عائد کیا ہے اور بھلا اللہ سے زیادہ کسے اپنے وعدے کا پاس ہو سکتا ہے؟ چنانچہ تم اُس سودے پر خوش رہو جو تم نے کیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔”
اِس آیت کی روشنی میں نغمے کا چوتھا بند ملاحظہ فرمائیے:
جاں جاتی ہے بیشک جائے
پرچم نہ ترا جھکنے پائے
غازی کو موت سے کیا ڈر ہے
جاں دینا جہادِ اکبر ہے
قرآن نے ہے یہ فرمایا
اگلے بند میں جو پانچواں اور آخری بند ہے، ہمیں "کی محمد سے وفا تُو نے” والے خیال کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی "جوابِ شکوہ” میں یہ بھی کہا گیا تھا، "وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے۔ نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے۔” اس کی بازگشت بھی یہاں واضح طور پر سنی جا سکتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ "نورِ توحید کے اتمام” سے یہاں "پیغامِ اخوت” مراد لی گئی ہے اور یہی مفہوم علامہ نے بھی پیش کیا تھا۔ بند ملاحظہ ہو:
محبوبِ خدا کے پروانے
دہرائیں اجداد کے افسانے
پیغامِ اخوّت دینا ہے
یہ کام تجھی سے لینا ہے
پھر کفر مقابل ہے آیا
اس طرح طفیل کے شاعرانہ معجزے کی بدولت چار دنیائیں ایک ہو گئی ہیں۔ پہلی دُنیا تیرھویں صدی کی ہے جو فلم کی کہانی میں پیش کی جا رہی ہے۔ دوسری دُنیا اقبال کے تخیل کی ہے جہاں سے شاعر نے اپنے استعارے لیے ہیں۔ تیسری دنیا ۱۹۵۰ء کی دہائی کا پاکستان ہے جہاں شاعر بھی رہتا تھا اور اُس کے فلم بین بھی، اور جہاں حفیظ جالندھری نے اپنا قومی ترانہ بھی پیش کیا۔ چوتھی دنیا نغمہ سننے والوں کے تخیل میں جنم لیتی ہے اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔
اس نغمے کی ہمیشہ کی زندگی کا راز شاید یہی ہے کہ یہ ہمیں اپنے باطن میں اُس نئی دنیا کی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔ علامہ نے "جاویدنامہ” میں سید جمال الدین افغانی سے کہلوایا تھا کہ قرآن شریف کے باطن میں ان گنت دنیائیں موجود ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئی ہیں۔ اُن میں سے کوئی ایک تمہارے زمانے کے لیے کافی ہے اور وہ بتدریج اپنے آپ کو ظاہر کر رہی ہے۔ اُسے دریافت کرو اور اُس کی تعمیر میں حصہ لو۔ طفیل کا نغمہ اس دریافت اور تخلیق کے عمل میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اس لیے یہ اُس وقت تک زندہ رہے گا جب تک ہم میں وہ اخلاقی قوت باقی ہے جو ہمیں اپنے تخیل میں یہ دنیا تعمیر کرنے کے لیے اُکساتی ہے۔
جمعہ یکم مارچ کو "اقبال کی منزل” کی تعارفی سیریز کی اگلی قسط "سیمرغ” ملاحظہ کیجیے گا۔