یومِ پاکستان

یومِ پاکستان مبارک ہو۔ پہلے خیال تھا کہ اس موقع پر ’’اقبا ل کی منزل‘‘ پیش کر دی جائے گی لیکن اس کی اشاعت میں ایک دو مہینے کی تاخیر ہو رہی ہے (اِس وقت کتاب پروف ریڈنگ کے مراحل سے گزر رہی ہے)۔ اس لیے آج کی قسط کے بعد اِس کتاب کی تعارفی سیریز کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر رہا ہوں اور جب کتاب کی اشاعت زیادہ قریب آئے گی تو دوبارہ یہ سلسلہ شروع کروں گا۔ انشأاللہ ہفتہ وار پوسٹس کا سلسلہ اس دوران جاری رہے گا اور پاکستان کے حوالے سے کچھ اور موضوعات پر معلومات پیش کرتا رہوں گا۔ آج کی قسط اس حوالے سے ہے کہ قراردادِ پاکستان کے حوالے سے ہمیں عام طور پر جو کچھ بھی معلوم ہے، اُس میں سے ہمارے دانشوروں نے وہ ساری باتیں بڑی احتیاط کے ساتھ نکال دی ہیں جن  سے قوم کو کوئی فائدہ پہنچ سکے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے، میرے خیال میں یہ سوال انہی سے پوچھنا چاہیے۔

آئیے سب سے پہلے اُس تاریخی اجلاس کی تفصیلات دیکھتے ہیں جو میرے خیال میں آج کے دن کی مناسبت سے آپ کی خاص دلچسپی کا باعث ہوں گی۔ اس  کے بعد ہم اُن اہم باتوں کی طرف چلیں گے جو ہمیں معلوم ہونی چاہئیں لیکن عام طور پر معلوم نہیں ہوتی ہیں۔

قراردادِ  پاکستان


22 مارچ 1940 کو ڈھائی بجے بعد دوپہر  لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس کا آغاز ہوا۔ خصوصی پنڈال میں ساٹھ ہزار لوگوں کی گنجایش تھی۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی پنڈال بھر چکا تھا۔ اس کے بعدلوگ آتے رہے اور باہر لگے لاؤڈ اسپیکروں سے کاروائی  سنتے رہے۔ مسلم نیشنل گارڈ سبز وردیوں میں ملبوس تھے۔

قائداعظم  محمد علی جناح دو بجکر پچیس منٹ پر آئے۔ استقبالیہ کمیٹی کے چئیرمین نواب سر شاہنواز ممدوٹ نے استقبال کیا۔ بینڈ نے موسیقی کے ساتھ  پلیٹ فارم تک پہنچایا۔  وہاں بہت بڑے بینر پر لکھا ہوا اقبال کا شعر دُور سے پڑھا جا سکتا تھا:

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے  ہیں
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے

حاضرین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ تلاوت کے بعد نظموں اور نغموں کا سلسلہ شروع ہوا۔ انور قریشی نے  میاں بشیر احمد کی نظم ترنم کے ساتھ پہلی دفعہ سنائی جسے پھر کبھی نہیں بھلایا گیا:

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
صدشکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں
اور میرِ کارواں ہے محمد علی جناح
تصویرِ عزم، جانِ وفا، روحِ حریت
ہے کون؟ بے گماں ہے محمد علی جناح
رکھتا ہے دل میں تاب و تواں نو کروڑ کی
کہنے کو ناتواں ہے محمد علی جناح
رگ رگ میں اس کی ولولہ ہے حبِ قوم کا
پِیری میں بھی جواں ہے محمد علی جناح
لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ جس کا تِیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح
مِلّت ہوئی ہے زندہ پھر اس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جناح
غیروں کے دل بھی سینے کے اندر دہل گئے
مظلوم کی فغاں ہے محمد علی جناح
اے قوم! اپنے قائدِ اعظم کی قدر کر
اسلام کا نشاں ہے محمد علی جناح
عمرِ دراز پائے مسلماں کی ہے دُعا
ملت کا ترجماں ہے محمد علی جناح



سر شاہنواز ممدوٹ نے اُردو میں خطبۂ استقبالیہ پیش کیا ۔

قائداعظم نے انگریزی میں فی البدیہہ خطبۂ صدارت پیش کیا۔ مجمع جس میں مشکل سے چند لوگ انگریزی سمجھتے ہوں گے، تقریباً پونے دو گھنٹے تک مبہوت ہو کر اُن کی تقریر سنتا رہا ( جیسا کہ ایک اور قسط میں عرض کیا تھا کہ یہی منظر اپریل 1928 میں بھی دیکھا گیا تھا جب انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے انگریزی میں ری کنسٹرکشن کا پہلا لیکچر پیش کیا اور جو لوگ انگریزی نہیں جانتے تھے، انہوں نے تین گھنٹے تک چُپ چاپ بیٹھے رہنے کی یہ وجہ بتائی کہ ’’ہمارے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ حضرت علامہ اقبال سامنے موجود ہیں اور عقائدِ دینِ اسلام کی حمایت میں اپنے علم و فضل کے پورے زور سے تقریر فرما رہے ہیں، اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہیے ‘‘)۔

قائداعظم نے اپنے خطبۂ صدارت میں کہا:

’’جنگ [دوسری جنگِ عظیم]  کا اعلان ہونے تک وائسرائے  نے کبھی میرے بارے میں نہیں بلکہ صرف اور صرف گاندھی ہی کے بارے میں سوچا تھا۔ میں کافی عرصے سے اسمبلی میں ایک اہم جماعت [آزاد اُمیدواروں کی جماعت] کی   قیادت کرتا رہا ہوں… پھر بھی  وائسرائے   نے کبھی میرے بارے میں نہیں سوچا۔ اس لیے جب [دوسری جنگِ عظیم شروع ہونے کے بعد] وائسرائے کی طرف سے گاندھی کے علاوہ مجھے بھی دعوت نامہ موصول ہوا تو میں نے اپنے دل میں بہت تعجب کیا کہ اچانک میری یہ ترقی کیسے ہو گئی اور پھر میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا جواب ہے، ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘، جس کا میں صدر ہوں… میرے کہنے کا مطلب یہ ہے  کہ میں  چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے منظم ہونے کی افادیت، اہمیت اور معنویت کو جانیں…انسان  آ سکتے ہیں اور اِنسان جا سکتے ہیں مگر لیگ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ‘‘

آخر میں پڑھے لکھے مسلمانوں کو علیحدہ سے مخاطب کر کے کہا،  ’’عوام پوری طرح بیدار ہیں۔ اُنہیں صرف آپ کی رہنمائی اور قیادت کی ضرورت ہے۔ اسلام کے خادم بن کر سامنے آئیے ، عوام کو اقتصادی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی طور پر منظم کیجیے اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایک ایسی طاقت ہوں گے جسے سب تسلیم کریں گے۔‘‘

ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے خصوصی نمایندے نے لکھا کہ خطبۂ صدارت کے دوران نہ صرف بار بار داد و تحسین دی گئی بلکہ سننے والوں میں سے بہت سے لوگوں کو اقبال کی یاد بھی آتی رہی جن کا مقبرہ اس پنڈال کے قریب ہی زیرِ تعمیر تھا۔

اس کے بعد کھلا اجلاس ختم ہوا۔ سبجکٹس کمیٹی کے پنڈال میں رات گئے تک میٹنگ ہوتی رہی اور اگلے 23 مارچ کو بھی صبح ساڑھے دس بجے سے دوپہر دو بجے تک جاری رہی۔ اس میٹنگ میں وہ قرارداد تیار کی گئی جسے اگلے دن پیش کرنا تھا۔ اس سلسلے میں کام ایک سال سے جاری تھا اور مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی مسلمانوں کی طرف سے پیش کی ہوئی مختلف اسکیموں پر غور کر کے رہنما اصول طے کر چکی تھی۔ اُنہی کی بنیاد پر قرارداد تیار کی گئی۔

23 مارچ کو تین بجے لیگ کا کھلا اجلاس پھر شروع ہوا۔لیاقت علی خاں نے لیگ کی سالانہ رپورٹ پڑھی۔ اس کے بعد بنگال  کے وزیراعظم فضل الحق نے وہ قرارداد پیش کی جسے بعد میں لیگ نے قراردادِ لاہور کا نام دیا اور ہندو پریس نے قراردادِ پاکستان کہا۔ اجلاس کے دوران یہ ’’آئینی قرارداد‘‘ کہلاتی رہی۔

اس کے بنیادی نکات دو تھے۔ پہلی بات یہ کہ ایسی ’’جغرافیائی طور پر متصل وحدتوں (یونٹس) ‘‘ کو جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں،’’آزاد ریاستوں‘‘ (‘Independent States’)کے طور پر جوڑ دیا جائے۔  اس قسم کے علاقوں میں ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی منطقے (zones) شامل ہیں (شمال مغربی زون سے مراد سندھ، بلوچستان، پنجاب اور اُس وقت کا سرحدی صوبہ، اور  شمال مشرقی زون سے مراد مشرقی بنگال اور آسام تھے)۔

دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اس طرح جو مسلم ریاست وجود میں آئے گی وہاں اقلیتوں کے ’’مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق‘‘ کے تحفظ کے لیے ’’اُن سے مشاورت کے ساتھ‘‘ اقدامات کیے جائیں گے۔ یہی تحفظ مسلمانوں کو ہندوستان  کے باقی علاقوں میں فراہم کیا جائے جہاں وہ اقلیت میں ہیں۔  چنانچہ بعد میں جب بھی قائداعظم سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیسا ہو گا تو ہمیشہ انہوں نے یہی کہا کہ اس کا فیصلہ پاکستان کے عوام خود کریں گے  لیکن صرف ایک بات پہلے سے طے ہو چکی ہے اور وہ یہی اقلیتوں کے حقوق والی شِق ہے۔

اِن دونو ں باتوں پر غور کیا جائے تو پہلا نکتہ صرف پاکستان کے علاقے کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ دوسرا نکتہ اس کے نظریے اور تصوّر کو پیش کرتا ہے۔ اس لحاظ سے نظریۂ پاکستان  کی جو بنیادی تعریف اس قرارداد سے برآمد ہوتی ہے وہ یہی ہے۔

23 مارچ کو قرارداد کی تائید میں چودھری خلیق الزماں (یوپی)، ظفر علی خاں (پنجاب)، سردار اورنگزیب خاں (سرحد) اور  سر عبداللہ ہارون (سندھ) نے تقریریں کیں۔

24 مارچ کو صبح سوا گیارہ بجے اجلاس پھر شروع ہوا۔ لیاقت علی خاں نے اعلان کیا کہ قائداعظم دیر سے آئیں گے۔ کرسیٔ صدارت نواب ممدوٹ کو پیش کی گئی۔ آئینی قرارداد (یعنی قراردادِ پاکستان) کی تائید میں خان بہادر نواب محمد اسماعیل خاں (بہار)، قاضی محمد عیسیٰ خاں (بلوچستان)، عبدالحامد خاں (مدراس)، آئی آئی چندریگر (بمبئی)، سید عبدالرؤف شاہ (سی پی) اور  ڈاکٹر محمد عالم نے تقاریر کیں۔

اس دوران قائداعظم پہنچ کر کرسیٔ صدارت سنبھال چکے تھے۔ فلسطین کے بارے میں ایک قرارداد منظور کر کے اجلاس رات تک ملتوی کیا گیا۔

رات نو بجے اجلاس پھر شروع ہوا۔ چند روز پہلے پولیس نے خاکساروں پر گولی چلائی تھی۔ قائداعظم نے خاکساروں سے ہمدردی کی قرارداد پیش کی۔

اس کے بعد ’’آئینی قرارداد‘‘  کی تائید میں سید ذاکر علی، بیگم محمد علی  اور مولانا عبدالحامد نے تقاریر کیں جس کے بعد قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

اس کے بعد مسلم  لیگ کے آئین میں ترمیم کی قرارداد منظور ہوئی اور عہدیدار منتخب کیے گئے۔

آخر میں قائداعظم نے نواب بہادریار جنگ کو تقریر کی دعوت دی۔ حسنِ بیان کی وجہ سے ان کی تقریریں ادبیات میں شمار کی جاتی تھیں۔ اسلام اور جمہوریت کے موضوع پر  فصیح اُردو میں خطاب نے حاضرین کو خاص طور پر متاثر کیا۔

قائداعظم نے اختتامی کلمات ادا کیے۔ اس طرح رات ساڑھے گیارہ بجے یہ اجلاس ختم ہوا۔

اُن کے سکریٹری مطلوب الحسن سید کا بیان ہے کہ اُنہوں نے کہا، ’’اقبال اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ معلوم کر کے خوش ہوتے کہ ہم نے بعینہ وہی کیا جو وہ ہم سے کروانا چاہتے تھے۔‘‘

25 مارچ کو لاہور میں ہی پنجاب یونیورسٹی کے ہال میں یومِ اقبال منایا گیا۔  قائداعظم نے صدارت کرتے ہوئے کہا، ’’اگر میں مسلم ریاست کے حصول تک زندہ رہ جاؤں اور اُس کے بعد مجھے اقبال کی تحریروں اور اُس ریاست کی حکومت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے کے لیے کہا جائے تو میں ان دونوں میں سے پہلی چیز کو منتخب کروں گا۔‘‘

اخبارات نے مسلم لیگ کی مجوزہ ریاست کو فوراً ہی ’’پاکستان‘‘ کا نام دے دیا۔ 18 فروری 1941 کو قائداعظم نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ 1943 میں دہلی میں مسلم لیگ کے تیسویں اجلاس کے خطبۂ صدارت میں کہا کہ اگرچہ ’’پاکستان‘‘ کا لفظ لیگ یا قائداعظم نے ایجاد نہیں کیا تھا، اور ہندو اور برطانوی پریس نے ہم پر تھوپا ہے لیکن ہم اسے قبول کرتے ہیں۔

لاعلمی کے سرچشمے


جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا، ہو سکتا ہے کہ بعض کتابو ں کے پڑھنے سے علم میں کچھ اضافہ ہوتا ہو لیکن ایسی کتابیں بھی بہت ہیں جنہیں پڑھنے سے علم میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ایک نادر نمونہ کے کے عزیز کی انگریزی تصنیف ’’تاریخ کا قتل‘‘ (The Murder of History) ہے۔

مجھے اعتراف ہے کہ جب یہ کتاب پہلی دفعہ شائع ہوئی تو میں نے بھی اس کی تعریف میں ایک طویل تبصرہ کسی انگریزی اخبار میں لکھا تھا۔ اگرچہ میں نے مصنف کی غیرمہذب، ناشائستہ اور بدتمیزی پر مبنی زبان  پر اعتراض بھی کیا تھا لیکن  اُس وقت میری معلومات اتنی زیادہ نہیں تھی  کہ میں اس کتاب کی زیادہ  تباہ کن غلطیوں کا اندازہ لگا سکتا۔ اُن میں سے ایک غلطی کی نشاندہی آج کی پوسٹ میں  اس لیے کر رہا ہوں کہ اُس کا تعلق خاص طور پر یومِ پاکستان سے ہے۔

اس کتاب میں محترم مصنف تحریر فرماتے ہیں، ’’حکومتِ پاکستان غلط تاریخ پر لوگوں سے یومِ پاکستان منواتی ہے‘‘ (صفحہ 142)۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ قراردادِ پاکستان 23 مارچ کو پیش کی گئی تھی لیکن 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی اس لیے یومِ پاکستان 24 مارچ کو منانا چاہیے۔

خورشید یوسفی نے قائداعظم کی تقاریر کا مجموعہ جو چار جلدوں میں  مرتب کیا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ 1941 سے 1946 تک خود مسلم لیگ کی ہدایت پر جنوبی ایشیا کے مسلمان 23 مارچ ہی کو یومِ پاکستان مناتے رہے اور ہر سال قائداعظم اس موقع پر قوم کے نام خصوصی پیغام بھی دیتے تھے۔  اس لیے آج ہم جو یومِ پاکستان مناتے ہیں وہ اُسی کا تسلسل ہے۔

البتہ کے کے عزیز قسم کے مصنفوں نے جو غلط فہمی پھیلائی ہے اُس کی وجہ سے آج بہت سے ایسے لوگ نظر آتے ہیں  کہ جب یومِ پاکستان پر باقی قوم خوش ہو رہی ہوتی ہے تو  یہ لوگ کہتے ہیں کہ قوم غلطی پر ہے۔

حصولِ پاکستان کے دو مراحل


قراردادِ پاکستان کے حوالے سے ہمیں کچھ اہم باتیں اوپر بیان کی جا چکی ہیں۔ اب صرف یہ کہنا ہے کہ قائداعظم کے لحاظ سے حصولِ پاکستان کے دو مراحل تھے۔ پہلا مرحلہ فکر و نظر کی وحدت (unity of thought and ideal) حاصل کرنا اور دوسرا مرحلہ وحدتِ عمل (unity of action) حاصل کرنا تھا۔

پہلا مرحلہ وحدتِ فکر و نظر کا حصول تھا یعنی قوم پاکستان کے  مطالبے پر متفق ہو جائے۔ مارچ 1940 میں قراردادِ پاکستان سے یہ مقصد حاصل ہو گیا۔ چنانچہ اگلے سال قائداعظم نے کہا:

’’یہ ایک شاندار بات ہے – جب کبھی تاریخ لکھی  جائے – کس طرح اِن تین برسوں میں نو کروڑ مسلمانوں کی بڑی تعداد  ایک پلیٹ فارم اور ایک پرچم تلے اکٹھی ہو گئی – ایک ایسی بات جو آپ نے مسلمانوں کی گزشتہ دو سو برس کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی تھی…  مسلمان اپنی مرضی کے  مالک بن چکے ہیں۔ وہ اپنے پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں، اور اپنے پرچم تلے، اور وہ پنی پالیسی پر کاربند رہیں گے  تاکہ اُس مقصد کو حاصل کر سکیں جو ہم  نے اپنے لیے متعین کیا ہے… یاد رہے! یہ سب سے بڑا منصوبہ ہے جو مغل سلطنت کے زوال کے بعد سے آپ نے اپنی  زندگی میں اپنایا ہے…ہم جو خطرناک مقابلہ کر رہے ہیں، وہ صرف مادی فائدوں کے لیے نہیں ہے بلکہ مسلم قوم کی روح کو بچانے کا سوال بھی ہے۔‘‘

اگلا مرحلہ وحدتِ عمل حاصل کرنا تھا  یعنی اپنے مشترکہ تصوّر کو حقیقت بنانے کے لیے عمل کی قوّت حاصل کرنا۔ اس کی شرط یہی  تھی کہ قوم قراردادِ پاکستان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ جو وحدتِ فکر  و نظر حاصل ہو چکی ہے، اُسے ہاتھ سے نہ جانے دیا بلکہ اُسی کی بنیاد پر وحدتِ عمل حاصل کی جائے:

ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوّتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد

چنانچہ 1942 میں برطانوی حکومت کے رُکن سر اسٹیفورڈ کرپس  نے متبادل تجویز پیش کی،پھر گاندھی نے بھی قائداعظم کے ساتھ طویل مذاکرات کیے اور 1945 میں شملہ میں وائسرائے کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ لیکن مسلمانوں کے اُس موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جو قراردادِ لاہور میں پیش کیا گیا تھا۔  اس لحاظ سے یہ واقعات جنہیں اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، تحریکِ پاکستان کے لحاظ سے کچھ زیادہ اہم نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے مؤقف پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ البتہ ہندو قیادت اور برطانوی حکومت کے نقطۂ نظر سے یہ واقعات کچھ اہم ہو سکتے ہیں کیونکہ اُن دونوں پارٹیوں  کا مؤقف ہر دفعہ تبدیل ہوتا گیا۔

ہمارے لحاظ سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وحدتِ عمل حاصل کرنے کا طریقہ قائداعظم نے ’’ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط‘‘ (Faith, Unity, Discipline) بتایا اور تینوں اصطلاحات کی ایک مخصوص تشریح کی (جسے   ہمارے مصنفین نے بڑی احتیاط  کے ساتھ اکثر  کتابوں سے باہر رکھا ہے)۔ قائداعظم  کی تشریحات یہ ہیں:

    • ایمان کی وضاحت انہوں نے اِس طرح کی کہ اس سے مراد خدا پر ایمان، اپنی قوم پر ایمان اور اپنی قوم کی تقدیر پر ایمان ہے۔
    • اتحاد سے مراد تھی کہ تمام مسلمان برابر ہیں کیونکہ ان کے درمیان اخوت کا رشتہ ہے۔ 1941 کی مردم شماری کے موقع پر قائداعظم نے مسلمانوں کو ہدایت جاری کی کہ ’’نسل، برادری  یا ذات‘‘ کے سوال کے جواب میں صرف مسلمان لکھا جائے۔ مذہب کے جواب میں صرف اسلام لکھا جائے۔  ’’شیعہ، سنی، وہابی کا خیال دل سے نکال دیں،‘‘انہوں نے کہا،’’ہم صرف اسلام کے  خادم ہیں۔‘‘
    • نظم و ضبط کا مطلب   یہ تھاکہ  مسلم  لیگ کی دل و جان سے اطاعت کی جائے اور اُس کے احکامات کی تعمیل کے لیے ’’کام، کام اور صرف کام‘‘کیا جائے۔

نظم و ضبط کے اِس پہلو یعنی مسلم لیگ سے وفاداری پر قائداعظم نے اس حد تک زور دیا کہ  ہمیشہ مسلم لیگ کے مقابلے میں اپنے آپ کو بھی بے حقیقت قرار دیا (بالکل اُسی طرح جیسے اقبال نے کہا تھا، ’’وجود افراد کا مجازی ہے ہستیٔ قوم ہے حقیقی‘‘)۔ اس کی بیشمار مثالوں میں  سے مسلم  لیگ کے مارچ 1940 کے تاریخی اجلاسِ لاہور کے خطبۂ صدارت کا اقتباس پہلے پیش کیا جا چکا ہے۔

پنجاب کے خضر حیات خاں ٹوانہ، سندھ کے جی ایم سید، بنگال کے فضل الحق  اور بعض دوسرے سیاستداں لیگ کی نافرمانی کرنے پر جماعت سے  نکال دیے گئے۔ قائداعظم نے کہا، ’’اب یہ لیگ کی آواز ہے – عوام کی آواز – اب یہ ملّت کی طاقت ہے جس کے سامنے آپ کو ضرور جھکنا ہے خواہ آپ دنیائے اسلام کا سب سے اونچا درخت ہوں۔‘‘

دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی تشریح  کے لحاظ سے ’’اتحاد‘‘ میں محبت کا وہی تصوّر موجود تھا جو سر سید کے زمانے سے مسلمانوں کے خیالوں پہ چھایا ہوا تھا۔ ’’ایمان‘‘ کا مفہوم وہی تھا جسے اقبال نے یقیں محکم کہا تھا اور ’’نظم و ضبط‘‘ وہ چیز تھی جسے اقبال نے عمل پیہم کہا تھا:

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ  مَردوں کی شمشیریں

اِس وحدتِ عمل  کو حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ  نے 1945 میں  عام انتخاب کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ مرکزی اسمبلی کا انتخاب 1945 کے آخر میں اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب 1946 کے اوائل میں ہوئے۔  کانگرس نے اس موقع پر مفصل دستور جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کانگرس اپنی اُس قرارداد کی بنیاد پر  انتخاب لڑ رہی ہے جو کانگرس کمیٹی  نے 8 اگست 1942 کو منظور کی تھی۔

مسلم لیگ نے انتخابی منشور جاری نہیں کیا بلکہ صرف ایک لفظ پر مشتمل ایجنڈا پیش کیا اور وہ تھا، پاکستان۔ اس نے مرکزی اسمبلی کی  تیس مسلم نشستوں میں سے ہر نشست پر کامیابی حاصل کی۔ ڈالے گئے ووٹوں میں  سے 86.6 فیصد  حاصل کیے۔  مسلم لیگ کے جنرل سکریٹری لیاقت علی خاں نے کہا، ’’دنیا کی تاریخ میں کسی اور جمہوری جماعت نے ایسی کامیابی حاصل نہیں کی جیسی مسلم لیگ نے حالیہ انتخابات میں حاصل کی ہے۔‘‘

صوبائی انتخابات میں بمبئی، مدراس اور اڑیسہ کی مسلم نشستوں میں سے سو فیصد لیگ نے حاصل کیں۔ باقی صوبوں کی مسلم نشستوں میں سے سرحد کے سوا ہر جگہ اَسّی اور بعض جگہ نوّے فیصد سے زیادہ حاصل کیں۔ البتہ سرحد میں پینتالیس فیصد مُسلم نشستیں ملیں (یہ خان عبدالغفار خاں  کے اثر کا نتیجہ تھے جو کانگرس  میں شامل تھے)۔

مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ڈالے گئے مسلم ووٹوں میں سے پچھتر فیصد لیگ نے  اور ساڑھے چار فیصد سے بھی کم کانگرس نے حاصل کیے۔

اقبال کی منزل



7 اور 8 اپریل کو دہلی کے اینگلو عربک کالج میں مسلم لیگ کے میاب امیدواروں کا کنونشن  قائداعظم کی صدارت میں  ہوا۔ چونکہ دوسرے دن کا اجلاس رات بارہ بجے کے بعد تک جاری رہا اس لیے 9 اپریل کی تاریخ بھی شامل کی جاتی ہے۔

یہاں قراردادِ پاکستان پر نظرِ ثانی کر کے کچھ ترمیم کی گئی اور مسلمانوں کے مطالبے  کی مکمل وضاحت کر کے ایک جامع دستاویز تیار کی گئی جو مسلم لیگ لیجسلیٹرز کنونشن کی قرارداد کہلاتی ہے۔ اِس قرارداد  کو متفقہ طور پر منظور کرنے کے بعد انتخاب میں کامیاب ہونے والے تقریباً ساڑھے چار سو مسلم لیگی نمایندوں  نے  ایک حلف اٹھایا۔ ان میں قائداعظم بھی شامل تھے اور اُنہوں نے بھی دوسروں کے ساتھ مل کر یہ حلف اٹھایا۔ اجلاس میں اسے لیاقت علی خاں نے پڑھ کر سنایا۔ حلف یہ تھا:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

’’کہہ دیجیے کہ میری عبادت اور قربانی، اور میرا جینا اور مرنا اللہ کے  لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘ (قرآن)

میں اپنے اِس پختہ عقیدے کا باقاعدہ اعلان کرتا /کرتی ہوں کہ ہندوستان کے اِس برصغیر میں آباد ملتِ اسلامیہ کا تحفظ اور سلامتی، اور نجات اور تقدیر صرف پاکستان کے حصول پر موقوف ہے، جو دستوری مسئلے کا واحد منصفانہ، عزت دارانہ  اورعادلانہ حل ہے، اور جو اِس عظیم برصغیر کی مختلف قوموں اور ملّتوں کے لیے امن، آزادی اور خوشحالی لائے گا؛

میں پوری   ذمہ داری کے ساتھ اقرار کرتا/کرتی ہوں کہ پاکستان کے عزیز قومی نصبُ العین کےحصول کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ  کی طرف سے شروع کی جانے والی کسی بھی تحریک پر عمل درآمد کے لیے اس کی طرف سے جاری ہونے والے تمام احکامات اور ہدایات کی دلی رضامندی اور استقامت کے ساتھ اطاعت کروں گا/گی، اور چونکہ مجھے اپنے مقصد کے حق و انصاف پر مبنی ہونے کا یقین ہے، میں ہر اُس خطرے، امتحان یا قربانی سے گزرنے کا حلف اٹھاتا/اٹھاتی ہوں جس کا مجھ سے تقاضا کیا جائے۔

’’اے ہمارے رب ! ہمیں صبر عطا فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور کفار کی قوم کے خلاف ہماری  مدد فرما!‘‘ (قرآن)۔ آمین!

حلف کے نیچے چھَپا تھا، ’’آج ہر مسلمان یہ حلف اٹھائے۔‘‘

اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ اب پاکستان مسلمانوں کی اکثریت کی رائے نہیں بلکہ مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے، اور:

’’وہ چند مسلمان جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں… ان کے وجود سے فرق نہیں پڑتا، لیکن کم سے کم اب  وہ خاموش رہیں… میں اِس پلیٹ فارم سے بلاخوفِ تردید کہتا ہوں کہ مسلم ہندوستان ایک ہے اور پاکستان ہمارا مطالبہ ہے۔  اب ہم  یہ حلف اُٹھا چکے ہیں … پانچ سال میں ہماری قوم  کو نئی زندگی مل جانا کامیابی کا ایک معجزہ ہے۔ میں سوچنے لگتا ہوں جیسے یہ ایک خواب ہے۔ کتنی تیزی سے قوم وہی کردار [جو انگریزوں کی غلامی اور ہندوؤں کے اقتصادی تسلط کی وجہ سے کھو گیا تھا]، اپنی اصل شریف صورت میں دوبارہ حاصل کر رہی ہے! ہمارے مرد، ہماری عورتیں، ہمارے بچے – وہ اب مختلف طرح سوچتے، بولتے اور عمل کرتے ہیں۔‘‘

یہ علامہ اقبال کی اُس خواہش کی تکمیل تھی جو اُنہوں نے 20 مارچ 1937 کو جناح کے نام خط میں ظاہر کی تھی۔ اُنہوں نے لکھا تھا، ’’آپ کو چاہیے کہ فوراً دہلی میں ایک آل انڈیا مسلم کنونشن بلائیں جس میں آپ نئی صوبائی اسمبلیوں کے ممبروں اور دوسرے ممتاز مسلم رہنماؤں کو بلائیں۔ اِس کنونشن میں آپ پوری وضاحت اور قوّت کے ساتھ ہندوستان میں ایک جداگانہ سیاسی وحدت کے طور پر مسلمانوں کے نصبُ العین کا اعلان کر دیں۔‘‘

چنانچہ ہم اِس کنونشن کو ’’اقبال کی منزل ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ میری کتاب کے عنوان  کا مطلب یہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کتاب علامہ اقبال کی وفات پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں تک آتی ہے۔


 

“یومِ پاکستان” پر ایک تبصرہ

  1. اک عجب چلن دیکھنے کو مل رہا ہے سوشل میڈیا پہ۔تاریخ سے بے خبر لوگ تاریخ کے بخئےادھیڑنے میں مصروف ہیں۔ کہاں تو ہم رو رہے ہیں کہ بانیانِ پاکستان کا تریخی کردار محدود کرنے کے لئے اور قیامِ پاکستان کے اصل مقاصد سے گمراہ رکھنے کے لئے ہماری تاریخ کو ہم سے چرا لیا گیا ہے اور کہاں حقائق سے بے خبر افراد یا شائد کسی مذموم مہم پر مامور کئے گئے کردار تاریخ کے تضادات کی آڑ میں ہمارے رہنماؤں اور قیامِ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
    جو سوالات اٹھا کے قیامِ پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ان میں سے کچھ اس نوعیت کے ہیں ۔۔

    قراردادِ لاہور کو قراردادِ پاکستان کا عنوان کیوں عطا کیا گیا، جب قرارداد 24 مارچ کو منظور ہوئی تو 23 مارچ کیوں منایا جاتا ہے، قرارداد پیش کرنے والے فضل الحق کو پارٹی سے کیوں نکالا گیا، قرارداد میں مسلم اکثریت والے علاقوں کو علیحدہ ریاستیں بنانے کی بات کی گئی تھی پھر اس میں ردوبدل کیوں کیا گیا، 23 مارچ کو یومِ جمہوریہ سے یومِ پاکستان میں کیسے تبدیل کردیا گیا، بلوچستان نے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنی چاہی تو اس پرفوج کشی کرکے زبردستی پاکستان میں شامل کیا گیا، پاکستان کو ایک فیڈریشن اور سندھ کو خود مختارریاست کے طور پر برقرار رکھنے کے لئے جی ایم سید نے آواز اٹھائی تو ان کی آوازکو دبا دیا گیا۔

    غرض سیاق و سباق سے الگ کرکے یا آدھے سچ کے ساتھ آدھا جھوٹ شامل کرکے اس طرح کے بےشمار سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں اور بانیانِ پاکستان و قیامِ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ خرم علی شفیق صاحب اس سلسہءِ مضامین میں کچھ سوالات کا جواب پہلے ہی پیش کرچکے ہیں اور امید ہے کہ باقی تمام سوالات کا جواب ہمیں ان کی آنے والی کتاب "اقبال کی منزل” میں مل جائے گا۔ اگر خرم شفیق صاحب یہاں کسی واقعہ کی وضاحت پیش کریں تو خوشی ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔