مرغدین، جہاں غربت اور خوف نہیں


پچھلی قسط پڑھ کر ایک قاری نے لکھا، ’’کاش ہمارے حکمراں بھی ہمارے پاکستان کو ویسا پاکستان بنائیں جیسا علامہ اقبال اور قائداعظم نے خواب دیکھا تھا۔‘‘ آمین، لیکن بھائی، اس خواب کو پورا کرنے میں آپ کا کردار بھی کسی بڑے سے بڑے حکمراں سے کم اہم نہیں ہے کیونکہ ’’ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا!‘‘



اُمید ہے کہ آج کی قسط سے یہ بات اور زیادہ واضح ہو جائے گی۔ یہ قسط اقبال کی مثالی دنیا مرغدین کے بارے میں ہے۔ سب سے پہلے انہی کی کتاب ’’جاویدنامہ‘‘ کے ایک باب کا خلاصہ پیش کر رہا ہوں۔


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنت میں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام برخیا تھا۔ ایک دن فرزمرز (جو شاید برخیا کی زبان میں ابلیس کا نام تھا)، اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا،’’تم نہیں جانتے کہ ایک ایسی دنیا بھی ہے جس کے بارے میں خدا کو معلوم نہیں اس لیے وہ وہاں کے معاملات میں دخل نہیں دیتا۔ وہاں بڑی آزادی ہے۔ نہ وہاں کسی آسمانی کتاب کی پیروی کرنی پڑتی ہے، نہ کسی رسول کی اطاعت اور نہ ہی جبرئیل کی!‘‘ برخیا نے جواب دیا، ’’او دھوکے باز، میرے سامنے سے دُور ہو جا اور یہ فریب اپنی اُسی دنیا میں جا کر چلا!‘‘

چونکہ برخیا فرزمرز کی چال میں نہیں آیا اس لیے خدا نے انعام کے طور پر اُس کی اولاد کو  ایک دوسری دنیا بخش دی۔

اس دنیا  کا نام مرغدین ہے۔ وہاں رہنے والے اسے ’’ملکِ خداداد‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ مریخ پر ہے جہاں ہر نیا دن کوئی نئی خوشی لے کر آتا  ہے اور لوگ وقت کے ساتھ بوڑھے نہیں ہوتے۔

مرغدین میں بلند عمارتیں ہیں۔ وہاں کے لوگ خوش شکل، نرم طبیعت اور میٹھی زبان والے ہیں۔ اُن  کا تخیل کسی سے کچھ سیکھے بغیر ہی سورج کی روشنی سے سونا چاندی  برآمد کر لیتا ہے۔ علم و ہنر کا مقصد صرف خدمت کرنا ہے۔ وہاں کام کو دولت سے نہیں تولا جاتا۔ کرنسی کا رواج نہیں ہے۔ طبیعتوں پر مشینوں کی حکومت نہیں ہے۔ کسان محنتی ہیں اور پوری فصل کے خود ہی مالک ہیں کیونکہ جاگیردار کا کوئی تصوّر نہیں ہے۔ جرم کا کوئی وجود نہیں اس لیے پولیس بھی نہیں ہے۔ کوئی جھوٹ نہیں لکھتا۔ نہ کوئی بیروزگار ہے اور نہ ہی بازار میں بھکاریوں کی دلخراش صدائیں سنائی دیتی ہیں۔

جب علامہ اقبال آسمانوں کے سفر پر نکلے تو اُن کے مرشد مولانا روم انہیں مریخ پر بھی لائے (مولانا روم کا انتقال اقبال سے کئی سو سال پہلے ہوا تھا لیکن دونوں کے درمیان ایک روحانی تعلق تھا)۔ مولانا روم نے انہیں بتایا کہ مریخ پر روح اور جسم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ ہماری زمین پر جسم دکھائی دیتے ہیں اور روحیں اُن میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ لیکن مریخ پر روحیں دکھائی دیتی ہیں اور جسم اُن میں چھپے  ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں جب کسی کے مرنے کا وقت قریب آتا ہے تو وہ بڑے اطمینان کے ساتھ کچھ روز پہلے اس کا اعلان کر دیتا ہے۔ اگلے جہان کے تصوّر سے اُس میں ایک نیا ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مقررہ وقت پر وہ اپنے جسم کو روح میں سمیٹ لیتا ہے اور رخصت ہو جاتا ہے۔

مرغدین کے ایک سائینسدان نے بتایا،’’ہمارے یہاں نہ کوئی حاکم ہے اور نہ ہی محکوم! ‘‘ علامہ اقبال نے یہ سن کر کہا کہ امیر اور غریب، حاکم اور محکوم کا فرق تو خدا کی بنائی ہوئی تقدیر ہے، اسے بھلا تدبیر سے کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے! اُس نے جواب دیا:

’’اگر تم تقدیر کے ہاتھوں تکلیف اٹھا رہے ہو تو خدا سے ایک نئی تقدیر مانگ لینا بالکل جائز ہے۔ اس کے پاس تمہارے لئے تقدیروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ تقدیر کے مطلب سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہی اہلِ زمین اپنی خودی کھو چکے ہیں۔ تقدیر کا راز یہ ہے: اپنے آپ کو بدل دو اور تمہاری تقدیر تمہارے ساتھ ہی بدل جائے گی۔ اگر تم خاک ہو تو ہوا تمہیں بکھیر دے گی لیکن اگر تم چٹان بن جاؤ تو شیشہ بھی توڑ سکتے ہو۔  اگر تم شبنم کا قطرہ ہو تو تمہاری تقدیر نیچے گر جانا ہے، لیکن اگر تم سمندر ہو تو ہمیشہ رہنا تمہاری تقدیر ہے۔ تمہارے نزدیک ایمان کا مطلب دوسروں سے مطابقت اختیار کرنا ہے اور چونکہ تم خود اپنے آپ سے موافقت نہیں رکھتے اس لئے تمہارے افکارو خیالات تمہارے لئے قید خانہ بن گئے ہیں۔ اگر یہی ایمان ہے تو حیف ہے ایسے ایمان پر جو  تمہیں افیم کی طرح نشے میں مبتلا کردے!

’’جس طرح روح خدا کی طرف سے ہے، اُسی طرح یہ مادّی دنیا بھی اُسی کی ہے۔ اپنی ملکیت کو امانت سمجھو جو خدا کی طرف سے تمہارے سپرد کی گئی ہے۔ تب دیکھو گے کہ غربت اور ناانصافی ختم ہو جائیں گے۔ ہیرا تب تک ہیرا ہے جب تک تمہاری نظر میں قابلِ قدر ہے، ورنہ وہ محض پتھر کا ایک ٹکڑا ہے۔ تم دنیا کو جس انداز میں دیکھو گے دنیا ویسی ہو جائے گی۔ آسمان اور زمین بھی خود کو اس کے مطابق تبدیل کرلیں گے۔‘‘

علامہ اقبال نے دیکھا کہ مرغدین ایک مثالی دنیا ہونے کے باوجود ایک داخلی خطرے سے دوچار ہے۔ فرزمرز زمین سے ایک لڑکی کو سبق پڑھا کر یہاں لے آیا ہے۔ وہ شہر سے باہر کھڑی وعظ کر رہی ہے اور بہت سے لوگ اُس کے گرد جمع ہیں۔ اُس کے وعظ کا خلاصہ یہ ہے کہ محبت سے منہ موڑ لو۔ مولانا روم نے  اُسے نئے زمانے کا مذہب اور لادین تہذیب کا حاصل قرار دیتے ہوئے اقبال سے کہا، ’’تہذیب عشق سے پیدا ہوتی ہے۔ عشق کا ظاہر آگ اور باطن خدا کا نُور ہے۔ علم اور فن اُسی کی باطنی حرارت اور اُسی کے باہُنر جنون سے پیدا ہوتے ہیں۔ عشق کے آداب کے بغیر دین پختہ نہیں ہوتا۔ عشق والوں کی صحبت سے دین سیکھو!‘‘

جاویدنامہ


یہ کہانی علامہ اقبال نے اپنی فارسی مثنوی ’’جاویدنامہ‘‘ میں بیان کی ہے۔ میں نے یہاں کسی خاص اضافے کے بغیر اِس کا خلاصہ پیش کیا ہے۔

’’جاویدنامہ‘‘ کو عام طور پر علامہ اقبال کی سب سے عظیم شعری تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ یہ کتاب اُنہوں نے 1929 میں لکھنا شروع کی اور 1932 میں شائع ہو گئی۔ یعنی اس کا زیادہ تر حصہ اُسی زمانے میں لکھا گیا جب وہ خطبۂ الٰہ آباد پیش کر رہے تھے۔

لیکن میری تحقیق یہ ہے کہ حقیقت میں اس کتاب کی تیاری بہت پہلے سے شروع ہو گئی تھی۔ یکم جولائی 1917 کو جب علامہ اقبال اپنی ایک اور مثنوی ’’اسرار و رموز‘‘ کا دوسرا حصہ ختم کر رہے تھے، انہوں نے ایک  خط میں لکھا:

’’اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح اُمڈے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصہ کا مضمون ہو گا ’حیاتِ مستقبلۂ اسلامیہ‘ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعتِ اسلامیہ جس کی تاسیس دعوتِ ابراہیمی سے شروع ہوئی، کیا کیا واقعات و حوادث آیندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔ میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف و واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصہ کے بعد مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ مگر مضمون بڑا نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں۔ بہرحال میں نے یہ قصد کر لیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ لکھ ڈالوں گا اور اس کی اشاعت میری زندگی کے بعد ہو جائے گی یا جب اس کا وقت آئے گا اشاعت ہو جائے گی۔‘‘

اِس خط میں اقبال نے جو مستقبل کی تاریخ لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اُس کا ذکر وہ بعد میں بھی کرتے رہے۔ لیکن عام طور پر یہی سمجھا گیا کہ وہ یہ کتاب لکھے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے۔ آج سے پندرہ سولہ برس پہلےجب میں اقبال کی ’’باتصویر سوانح‘‘ (انگریزی) پر کام کر رہا تھا، مجھے اُن کی بیاضوں میں ’’مثنوی حصہ سوئم‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے ہوئے کچھ اشعار ملے جو ظاہر ہے کہ اسی کتاب کے تھے۔ اُس وقت میں کچھ اور سمجھا (اور باتصویر سوانح میں لکھ بھی دیا)۔ مزید تحقیق کے بعد یہ بات میرے سامنے آئی کہ اصل میں یہی کتاب مکمل ہو کر ’’جاویدنامہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی:

تھا ضبط بہت مشکل اِس سیلِ معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر

میں نے یہ بات پہلی دفعہ اپنی انگریزی کتاب ’’اقبال اور ہمارا عہد‘‘ میں لکھی۔ اب ’’اقبال کی منزل‘‘ میں مکمل ثبوت پیش کر رہا ہوں۔

مرغدین کہاں ہے؟


اب اِس بات کی طرف آتے ہیں کہ اِس میں مستقبل کے واقعات کس انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ مرغدین والی کہانی میں نے اِس کی سب سے واضح مثال کے طور پر پیش کی ہے۔ آئیے، اِسے سمجھنے کی کوشش کریں۔

علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں کہا ہے:

’’یورپ نے روح اور مادے کی علیحدگی کو غور و فکر کے بغیر قبول کر لیا۔ آج اُس کے بہترین مفکر اِس ابتدائی غلطی کو محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے سیاست دان بالواسطہ دنیا کو مجبور کر رہے ہیں کہ اسی اصول کو بے چون و چرا ایک عقیدے کے طور پر قبول کر لے۔‘‘

گویا مغربی سیاستدان دنیا سے وہی عقیدہ قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے جو کہانی میں فرزمرز، برخیا سے منوانے کی کوشش کرتا ہے اور برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے وہی پیشکش رکھی جا رہی تھی جو کہانی میں برخیا کے سامنے رکھی جاتی ہے:

ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک
جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک

ہم جانتے ہیں کہ برخیا کی طرح برصغیر کے مسلمانوں نے بھی (جن میں موجودہ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں کے اجداد شامل تھے) اس پیشکش کر مسترد کر دیا جب 1945-1946 کے انتخاب میں انہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے، جس کی تجویز علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں پیش کی تھی۔

اس لیے کم سے کم اقبال کے نقطۂ نگاہ سے مسلمانوں نے وہی کیا جو کہانی میں برخیا نے کیا تھا۔ اپریل 1946 کی قرارداد (جسے قائداعظم نے مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ قرار دیا) بالکل ویسی ہے جیسی مرغدین کی کہانی میں برخیا کا جواب ہے۔

گویا “جاویدنامہ” میں جو برخیا کی کہانی بیان ہوئی، وہ حقیقت میں ایک ایسا واقعہ تھا جو علامہ اقبال کی وفات کے چند برس بعد 1946 میں پیش آنا تھا (اور یہی وجہ ہے کہ “اقبال کی منزل” اقبال کی وفات کی بجائے 1946 پر ختم ہوتی ہے)۔

قائداعظم محمد علی جناح، برخیا ثابت ہوئے۔ واصف علی واصف نے “دل، دریا، سمندر” میں خوب لکھا ہے کہ:

“جس طرح ہمارے  ہاں طریقت کے سلاسل ہیں، چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی وغیرہ اور ہر سلسلہ کا کوئی بانی ہے، اُسی طرح قائداعظم سے ایک نئی طریقت کا آغاز ہوتا ہے اور وہ طریقت ہے ’پاکستانی‘۔ اِس میں تمام سلاسل اور تمام فرقے شامل ہیں۔”

لیکن خود قائداعظم ایک تاریخی عمل کا حصہ تھے اِس  لیے برخیا ایک اجتماعی وجود بھی ہے۔ سر سید احمد خاں سے لے کر سردار عبدالرب نشتر تک بہت سے رہنما اور خاص طور پر وہ سارے عوام جنہوں نے قیامِ پاکستان کی حمایت کی، برخیا ہیں اور جناح اُن سب کی علامت ہیں۔

برخیا  کی جس بات سے خوش ہو کر خدا نے اُس کی اولاد کو مرغدین عطا کیا تھا، ہمارے اجداد نے بھی بالکل وہی کیا اور خدا نے ہمیں پاکستان دیا۔ اس لیے منطقی طور پر پاکستان مرغدین ثابت ہوتا ہے (’’جاویدنامہ‘‘ میں مرغدین کے لیے ’’ملکِ خداداد‘‘ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں اور ہم بھی پاکستان کو ’’مملکتِ خداداد‘‘ کہتے ہیں)۔

اِس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کہانی میں مرغدین کے جو حالات لکھے گئے ہیں کہ وہاں غربت اور خوف کا نشان بھی نہیں ہے، وہ ہمارے مستقبل کے حالات ہیں جو ابھی پیش آنے ہیں۔ اسی طرح وہاں کے رہنے والوں کی جو خصوصیات بیان ہوئی ہیں، یہ مستقبل کے پاکستانیوں کی خصوصیات ہیں (اور میرے خیال میں پورے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی خصوصیات جو مستقبل میں اُن میں پیدا ہوں گی، لیکن بات کو آسان رکھنے کے لیے فی الحال ہم صرف پاکستان کے حوالے تک محدود رہ سکتے ہیں)۔ مختصر یہ کہ مرغدین کی کہانی کا برخیا والا حصہ 1946 میں پورا ہو چکا، اب اُس کے باقی حصے آہستہ آہستہ پورے ہونے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اپنا کردار بھی ادا کرنا ہو گا بالکل اُسی طرح جیسے ہمارے بزرگوں نے اپنا کردار ادا کیا تبھی برخیا کی کہانی حقیقت بنی۔

یہ درست ہے کہ مرغدین کے رہنے والوں کی بعض خصوصیات ہمیں بظاہر مافوق الفطرت معلوم ہوتی ہیں، مثلاً وہ بوڑھے نہیں ہوتے، اُن کی رُوحیں دکھائی دیتی ہیں اور جب کسی کے مرنے کا وقت آتا ہے تو وہ بڑے اطمینان کے ساتھ کچھ روز پہلے اعلان کر دیتا ہے۔ لیکن یہ سب استعارے ہیں جن کی وضاحت علامہ اقبال پہلے ہی پیش کر چکے تھے۔ تفصیل میری آیندہ تصنیف’’اقبال کا راستہ‘‘ میں ملے گی جو کچھ مہینے بعد شائع ہو رہی ہے، کیونکہ وہ 1907 سے 1926 کے زمانے کے بارے میں ہے جب اقبال اپنے نظامِ فکر کے بنیادی اصول پیش کر رہے تھے۔

بہرحال یہ تمام صفات جس ایک بات پر عمل کرنے سے خودبخود پیدا ہوتی ہیں، وہ صرف یہی ہے کہ ہم اپنے تمام فیصلے اتفاقِ رائے کے ساتھ کرنے پر آمادہ ہوں۔ “اقبال کی منزل” چونکہ علامہ اقبال کی زندگی کے اُس دور کی سوانح ہے جب اُن کی شخصیت کا عملی پہلو زیادہ سامنے آ رہا تھا اس لیے اس کتاب کی تعارفی اقساط میں (اور بڑی حد تک کتاب میں بھی)، سب سے زیادہ وضاحت صرف اسی عملی پہلو کی ہو رہی ہے۔

چنانچہ پچھلی اقساط کی روشنی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اتفاقِ رائے کی خواہش ہی وہ بنیادی قدرِ مشترک ہے جس کی وجہ سے قائداعظم کے 14 نکات، ابن صفی کے ناول، وحید مراد کی فلم اور ٹرک ڈرائیور کی ویڈیو میں سے ایک ہی آواز برآمد ہوئی حالانکہ ان کے درمیان کئی کئی برس کا فاصلہ بھی تھا اور موقع محل بھی مختلف تھے۔

پاکستان میں جتنے بھی لوگوں نے اتفاقِ رائے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، خواہ ان کی کوشش اپنے جاسوسی ناول یا نغماتی فلم کو تمام طبقوں سے قبول کروانے کے لیے ہو، خواہ کسی قومی سانحے پر رنج و غم کا اظہار ہو، خواہ کوئی اور مقصد ہو، بہرحال ایسے تمام لوگوں کی زبان سے ہمیشہ ایک جیسی باتیں اور مسائل کے ایک جیسے حل برآمد ہوئے ہیں۔

یہ چیز گویا اُس عمل کا حصہ ہے جس کے ذریعے پاکستان بتدریج اُس منزل کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں اِس کے باطن میں چھپا ہوا مرغدین اس کی سڑکوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں بھی دکھائی دینے لگے۔ لیکن ایسے تمام لوگ جنہوں نے اتفاقِ رائے کے اصول پر سختی سے عمل کیا، حقیقت میں مرغدین کے باشندے ہی ہیں۔ لیکن یہ باتیں اس لیے ہماری سمجھ سے باہر ہو جاتی ہیں کہ ہماری تعلیم نے ہمیں اتفاقِ رائے کی خواہش کرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا ہے۔



ایک گزشتہ پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک محترم دوست نے لکھا تھا:

“ہم نے مختلف ادوار میں اور مختلف فورمز پہ اقبال، ابنِ صفی اور وحید کے حوالے سے آپ کی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دراصل انکا پیغام ایک ہی تھا گو کہ دائرہ کار اور پیغام رسانی کے ذرائع الگ الگ تھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ اس نئے سلسلے کو آگے بڑھاتے وقت سب سے پہلے کچھ ان اتفاقات اور حقائق کا ایک تفصیلی جائزہ پیش کردیں جنکی بنیاد پر آپ اس تکون میں ایک قدرِ مشترک تلاش کر پائے ہیں۔”

اُمید ہے کہ اِس سوال کا جواب آج کی قسط میں سامنے آ گیا ہو گا۔ بات شخصیات کی نہیں بلکہ اصول کی ہے۔ جو بھی اتفاقِ رائے کے اصول کو روشنی بنا کر چلے، اُس کا پیغام ایک ہی ہو گا۔ میں نے تو “جناح کی آواز” میں ایک پاکستانی ٹرک ڈرائیور کو بھی یہی کہہ کر پیش کیا ہے۔

نیا انسان


آپ نے دیکھا ہے کہ مرغدین میں غربت اور خوف کا نشان تک نہیں ہے۔

اگر ہم ایسا  معاشرہ چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی قیمت تو ہمارے شہدأ اپنے لہو سے ادا کر ہی گئے ہیں۔ اس لیے یہ معاشرہ ہماری تقدیر بن چکا ہے بشرطیکہ ہم خود ہی اس کے راستے میں بار بار حائل نہ ہوتے رہیں۔

پاکستان مرغدین ہے اس لیے ہمیں پاکستان کو  بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اپنے آپ میں مرغدین والوں کی خصوصیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم میں وہ خصوصیات ہوں گی تو معاشرے میں خودبخود وہی صورت حال نظر آئے گی جو مرغدین میں بتائی گئی ہے۔ جیسا کہ مریخی سائینسدان نے کہا، ’’تم دنیا کو جس انداز میں دیکھو گے دنیا ویسی ہوجائے گی۔ آسمان اور زمین بھی خود کو اس کے مطابق تبدیل کرلیں گے۔‘‘

جیسا کہ عرض کیا، ان تمام خصوصیات کی بنیاد یہی ہے کہ ہم اتفاقِ رائے تلاش کرنے کی خواہش اور اُسے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ اس لیے ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم اتفاقِ رائے سے فیصلے کرنا سیکھ لیں تو پاکستان بنا بنایا مرغدین ہے۔

پاکستان بنانے والے مرغدین بنا گئے ہیں، اب ہمیں صرف یہ سیکھنا ہے کہ مرغدین میں رہتے کیسے ہیں۔

جیسا کہ میں کسی آیندہ موقع پر تفصیل سے بیان کر سکوں گا، علامہ اقبال کے یہاں  مرغدین اور برخیا کا تصوّر شروع ہی سے موجود تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اسے ترقی دیتے گئے یہاں تک کہ 1923 میں اعلان کیا، ’’اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اُس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے۔‘‘

پاکستان وہی نئی دنیا ہے اور ہم وہ نئے انسان ہیں۔

یہ دونوں باتیں ہمارے ایک قومی نغمے میں بھی بہت کُھل کر کہی گئی ہیں۔ جس طرح مرغدین کے سائینسدان نے فخر کے ساتھ بتایا تھا کہ خدا نے ہمارے جدِ امجد کو یہ دنیا انعام میں دی تھی، اُسی طرح اس نغمے میں خدا سے کہا گیا ہے، ’’اِتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا!‘‘ اور:

اِک دن ساری دنیا کہہ دے، تُو نے اِس دھرتی کے رَستے
اِک نیا انسان دیا، تُو نے پاکستان دیا!



آخری بات


اُمید ہے کہ اب یہ بات واضح ہو گئی ہوکہ “جاویدنامہ” کس طرح مستقبل کی تاریخ ہے۔

لیکن مرغدین کی کہانی اس کا صرف ایک باب ہے۔ اس میں اور بھی بہت کچھ ہے، جس کے معانی ہم پر اُس وقت واضح ہوں گے جب ہم اپنی تاریخ سے واقف ہوں گے۔ اگر ہم اپنی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات سے بھی بالکل بیخبر ہوں تو مستقبل کی کتاب کیا، ماضی کی کتاب کیا اور حال کے اخبار کیا، ہماری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آ سکتا۔

“جاویدنامہ” میں مستقبل کی جو تاریخ بیان ہوئی ہے، اُس کے اب تک ہماری نظروں سے چھپے رہنے کی ایک وجہ یہی ہے اور شاید علامہ کا مطلب بھی یہی تھا کہ “جب اس کا وقت آئے گا تب اس کی اشاعت ہو جائے گی”۔ یعنی وہ “جاویدنامہ” تو شائع کر گئے لیکن اس میں جو مستقبل کی تاریخ چُھپی ہوئی ہے، وہ تب ہی برآمد ہو گی جب قوم کے پڑھے لکھے لوگوں میں خود کو اپنی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو گی جو فی الحال موجود نہیں ہے۔

ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ جیسا کہ ہم نے اِس  کہانی میں دیکھا، مرغدین ایک مثالی دنیا ہونے کے باوجود داخلی خطرے کا شکار ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی تصوّرِ حیات جو محبت کی بنیاد پر قائم نہ ہو، مرغدین کے لیے خطرناک ہے۔ اب یہ دیکھنا ہمارا کام ہے کہ کیا مذہب، سیاست، تعلیم و تدریس اور دوسرے شعبوں میں ہمارے رویے مولانا روم کی اُس نصیحت کے مطابق ہیں جو اُنہوں نے مرغدین کی کہانی کے آخر میں کی ہے کہ ’’تہذیب عشق سے پیدا ہوتی ہے۔ عشق کا ظاہر آگ اور باطن خدا کا نُور ہے۔ علم اور فن اُسی کی باطنی حرارت اور اُسی کے باہُنر جنون سے پیدا ہوتے ہیں۔ عشق کے آداب کے بغیر دین پختہ نہیں ہوتا۔ عشق والوں کی صحبت سے دین سیکھو!‘‘

آئیے، ایک فلم دیکھتے ہیں جو میں نے 2006 میں لکھی تھی۔ اسے اقبال اکادمی پاکستان نے پروڈیوس کیا اور فیصل رحمٰن نے ڈائرکٹ کیا۔ اس فلم میں علامہ اقبال کی زندگی کی جھلکیاں بھی ہیں اور ہمارے زمانے کے کچھ مسائل بھی لیکن اس کا مرکزی خیال پاکستان اور مرغدین کا تعلق ہے۔



جاری ہے


قسط 4، “اقلیتوں کا معاہدہ” میں ہم دیکھیں گے کہ علامہ اقبال نے ایک باعمل سیاستدان کے طور پر کیا کارنامہ انجام دیا۔ گول میز کانفرنسوں کے بارے میں ہم میں سے ہر شخص نے پڑھ رکھا ہے لیکن یہ بات شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ علامہ کے اقبال کے نزدیک ان کانفرنسوں سے حاصل ہونے والی سب سے اہم چیز کیا تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس سفر کی بعض دوسری دلچسپ تفصیلات مثلاً اُن کی عظیم الشان نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا پس منظر بھی اِس قسط میں شامل ہو گا – عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفےٰؐ! جمعہ 15 فروری کو ملاحظہ کیجیے۔