اقلیتوں کا معاہدہ


اس دفعہ دو دن کی تاخیر ہو گئی ہے اس لیے یہ قسط کسی تمہید کے بغیر ہی پیش کر رہا ہوں، سوائے اِس کے کہ شاید یہ تمام پڑھنے والوں کے لیے بڑی حیرت انگیز ثابت ہو۔


ہم سب نے گول میز کانفرنسوں کا ذکر پڑھا ہے لیکن “اقبال کی منزل” میں اس حوالے سے بہت سے ایسی چیزیں سامنے آ رہی ہیں جو شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوں گی۔ آج کی پوسٹ میں ان میں سے صرف ایک پہلو کا ذکر کروں گا اور وہ یہ کہ علامہ اقبال کے نزدیک تینوں گول میز کانفرنسوں میں سے ہر ایک کا سب سے اہم نتیجہ کیا تھا۔ میرے خیال میں ان کی سیاسی زندگی پر لکھنے والوں نے اس حوالے سے ان کے بعض اہم اور واضح بیانات نظرانداز کر دئیے ہیں۔

اقبال ایک رہنما


اصل موضوع سے پہلے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اُس زمانے میں ایک رہنما کے طور پر علامہ اقبال کی کیا اہمیت تھی۔ جیسا کہ ایک اور قسط میں ذکر ہو چکا ہے، 1927 سے 1930 تک وہ صوبائی اسمبلی کے رُکن تھے اور بعد میں بھی عملی سیاست سے ان کا تعلق رہا۔

جولائی 1927 میں لاہور کے مسلمان توہینِ رسالت کے خلاف سول نافرمانی کی مہم چلانا چاہتے تھے (یہ مہم اُسی کتاب کے خلاف تھی جس کے پبلشر کو قتل کرنے کے الزام میں تقریباً دو سال بعد غازی علم الدین شہید کو پھانسی ہوئی)۔ 10 جولائی کو مسلمانو ں کا ایک جلسہ بادشاہی مسجد میں ہوا۔ تقریر کرنے والوں میں سے چوہدری افضل حق نہ صرف صوبائی اسمبلی کے رُکن تھے بلکہ اُن رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے بعد میں مجلسِ احرار قائم کی، جسے عام طور پر شدّت پسند تنظیم سمجھا گیا (تحریکِ پاکستان کے زمانے میں اس تنظیم کے بعض رہنما قائداعظم کے خلاف بدزبانی کے لیے مشہور ہوئے)۔ 10 جولائی 1927 کے اُس تاریخی جلسے میں افضل حق نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے علامہ اقبال کے متعلق یہ الفاظ کہے:

’’میں یہ کہوں کہ سر محمد اقبال مجھ سے کم مسلمان ہیں … تو اس کے معنی یہ ہوں گے ہمارا مطالبہ مذہبی اور اسلامی نہیں بلکہ کوئی اور ہے … اگر کوئی سیاسی معاملہ ہوتا تو ہم ان سے کوئی مشورہ ہرگز نہ لیتے۔ 1921 کی سول نافرمانی کے دوران ہم کبھی ان کے مکان پر نہیں گئے۔ سر اقبال کی شخصیت نہ صرف ہندوستان میں مسلمہ ہے بلکہ کرہ ٔارض کے تمام حصے ان کی اصابت ِرائے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم سر اقبال کا مشورہ قبول نہ کرتے تو اس کا مطلب خلافت کمیٹی کی عزت کو نہ صرف ہندوستان میں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے بلکہ ہندوستان سے باہر بھی!‘‘

یہ تقریر اُس زمانے کے اخبارات میں شائع ہوئی اور رفیق افضل کی مرتب کی ہوئی ’’گفتارِ اقبال‘‘ کے صفحہ 46 کے فٹ نوٹ میں دیکھی جا سکتی ہے (’’اقبال کی منزل‘‘ میں تفصیلات کے ساتھ شامل ہو گی)۔ واضح رہے کہ یہاں علامہ اقبال کی دینی حیثیت کا اعتراف کرنے والا کوئی ’’لبرل‘‘ نہیں بلکہ “شدّت پسند” ہے۔

اس کے چند مہینے بعد مولانا محمد علی جوہر کسی  مسئلے میں علامہ اقبال سے ناراض ہوئے اور تین مضامین اُن کے خلاف لکھ ڈالے (ناراضگی محض وقتی تھی)۔ ان مخالفانہ مضامین میں بھی یہ بات دہراتے رہے کہ اقبال سے ’’ہم نے اسلام سیکھا تھا (نہ کہ کسی مولوی سے)‘‘۔ ایک مضمون کا عنوان ہی ’’میرا اُستاد اقبال‘‘ تھا۔ نجانے کتنے اور مقامات پر بھی یہ بات لکھی کہ انہوں نے اسلام، اقبال سے سیکھا (حوالے اور تفصیلات ’’اقبال کی منزل‘‘ میں ملاحظہ فرمائیے)۔

8اپریل 1928 کو لاہور  میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں علامہ اقبال نے اپنی  زیرِ تصنیف کتاب ’’ری کنسٹرکشن‘‘ یعنی ’’تشکیلِ جدید‘‘ میں سے پہلا  لیکچر پڑھا۔ آج بھی یہ لیکچر مشکل سمجھا جاتا ہے اور اُس موقع پر بھی کسی نے کہا، ’’افسوس ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مسائل پر بحث کرنے والے تو الگ رہے، سمجھنے والے بھی کم ہیں۔‘‘ لیکن اُسی جلسے  میں موجود صحافی عبدالمجید سالک نے چند روز بعد یہ بھی لکھا:

’’مسلمانوں کو حضرت علامہ سے جو محبت ہے، اُس کا ایک ادنیٰ کرشمہ یہ تھا کہ رات کے گیارہ بجے تک وہ سارا مجمع چُپ چاپ علامہ کے ارشادات سنتا رہا … چند حضرات سے جو انگریزی نہ جانتے تھے، ہم نے دریافت کیا کہ آپ کو اِس اجلاس میں تین گھنٹے بیٹھے رہنے سے کیا حاصل ہوا۔ اُس کے جواب میں ان مخلص مسلمانوں نے کہا کہ ہمارے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ حضرت علامہ اقبال سامنے موجود ہیں اور عقائدِ دینِ اسلام کی حمایت میں اپنے علم و فضل کے پورے زور سے تقریر فرما رہے ہیں، اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہیے۔‘‘

یہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ اُس زمانے میں علامہ اقبال کی دینی حیثیت کے بارے میں ایک عام مسلمان کی رائے بھی افضل حق اور محمد علی جوہر سے مختلف نہ تھی۔

اب آخری رائے قائداعظم محمد علی جناح کی سُن لیجیے۔ مارچ 1941 میں لاہور میں یومِ اقبال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے علامہ اقبال کے بارے میں  کہا، ’’وہ عہدِ جدید میں اسلام کے سب سے بڑے شارح تھے‘‘ (یہ بیان ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے 4 مارچ 1941 کے شمارے میں شائع ہوا)۔ ’’ڈان‘‘ اخبار کے 11 دسمبر 1944 کے شمارے میں بھی ان کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے اقبال کے بارے میں کہا کہ ’’وہ اسلام کے شارح اور اسلام کی آواز تھے۔‘‘

ہم  نے افضل حق کی جولائی 1927 کی تقریر میں پڑھا، ’’اگر کوئی سیاسی معاملہ ہوتا تو ہم ان سے کوئی مشورہ ہرگز نہ لیتے۔‘‘ لیکن اُس زمانے میں علامہ اقبال کو عملی سیاست میں قدم رکھے صرف چند ماہ ہوئے تھے۔ جلد ہی ایک سیاسی رہنما کے طور پر بھی اُنہیں نمایاں حیثیت حاصل ہو گئی۔ ہمیں معلوم ہے کہ 1930 میں وہ مسلم لیگ کے صدر بنے۔ 1932 اور 1933 میں وہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدر بھی تھے۔ یہی زمانہ تھا جب جناح  ہندوستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے تھے۔ علامہ اقبال ان چند بڑے رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے ان کی غیرموجودگی کے عرصے میں ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کی۔

قائداعظم نے بھی اپنے کئی بیانات میں اس بات پر خاص زور دیا ہے کہ علامہ اقبال ایک باعمل سیاستدان تھے۔ مثلاً مارچ 1943 میں یومِ اقبال کے موقع پر کہا:

’’اقبال صرف ایک فلسفی ہی نہیں بلکہ ایک عملی سیاستدان بھی تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے ہندوستان کو قومیت کی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی مصحلت کا اندازہ لگایا۔ وہ مسلم ہندوستان میں جدید سیاسی ارتقأ کو فروغ دینے والے مؤثر ترین عوامل میں سے تھے۔ اقبال اس لیے ایک عام مفکر کی سطح سے بلند ہو جاتے ہیں کہ اُن کی تعلیمات کا نچوڑ فکر اور عمل کا ایک حسین امتزاج ہے۔ اُن کی ذات میں ایک شاعر کا آئیڈیلزم  چیزوں کے عملی پہلو پر نگاہ رکھنے والے شخص کی حقیقت پسندی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔‘‘

علامہ اقبال کی شخصیت کے اِس پہلو پر پہلے بھی لکھا گیا ہے لیکن ’’اقبال کی منزل‘‘ میں یہ پوری طرح کُھل کر سامنے آ رہا ہے۔

گول میز کانفرنسیں



لندن میں برطانوی حکومت نے ہندوستانی رہنماؤں کے ساتھ کُل تین گول میز کانفرنسیں کیں جو بالترتیب 1930، 1931 اور 1932 کے اواخر میں ہوئیں۔ کاروائی کی رپورٹس کئی جلدوں میں شائع ہوئیں (اب انٹرنیٹ آرکائیو پر بھی دستیاب ہیں)۔ اقبال کے مشاہدات اور تبصرے اُن کے اپنے بیانات میں ملتے ہیں۔

مسلم وفد کے سربراہ ہز ہائی نس آغا خان سوئم تھے۔ علامہ اقبال تینوں دفعہ بلائے گئے لیکن پہلی کانفرنس میں وہ اس لیے نہیں گئے کہ انہی دنوں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرنی تھی (جو بالآخر الٰہ آباد  میں ہوا)۔ دوسری اور تیسری کانفرنسوں  کے لیے انہوں نے دو دفعہ یورپ کا سفر کیا (اس سے پہلے ایک دفعہ طالب علمی کے زمانے میں یورپ گئے تھے)۔ راستے میں فرانس، اٹلی، اسپین، مصر اور فلسطین بھی گئے، جس کی تفصیل آپ کو ’’اقبال کی منزل‘‘ میں ملے گی (بعض نئے انکشافات کے ساتھ)۔

ایک رہنما کے طور پر علامہ اقبال کے نزدیک دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں سب سے اہم اصول  اتفاقِ رائے تھا۔ اس کی کچھ مثالیں پچھلی اقساط میں آپ کے سامنے آ چکی ہیں۔ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے بھی جب وہ بمبئی (موجودہ ممبئی) سے گزر رہے تھے اور روزنامہ خلافت کے نمایندے کے ذریعے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ جداگانہ انتخاب کا حق ہرگز مت چھوڑیں تو نمایندے نے پوچھ لیا کہ اگر ہندوستان کی تمام مسلم  جماعتوں نے اس کے برعکس فیصلہ کیا تب وہ کیا کریں گے۔ اُن کا جواب تھا، ’’تو میں بھی اکثریت کا فیصلہ مان لوں گا اور کوئی مخالفانہ قدم نہیں کروں گا۔‘‘ (انٹرویو کا ترجمہ بمبئی کرانیکل نے 21 اکتوبر 1932کے شمارے میں شائع کیا۔ مکمل حوالہ اور سیاق و سباق ’’اقبال کی منزل‘‘ میں دیکھا جا سکے گا)۔

قوم کے ساتھ متفق ہو جانے کے اِس جذبے کی جھلک اُس غزل میں محسوس کیجیے جو  سفر کے دوران لکھی گئی:

جس کا عمل ہے بے غرض اُس کی جزا کچھ اور ہے
حُور و خیام سے گذر، بادہ و جام سے گذر!



انگریز ہندو گٹھ جوڑ

ایک اور قسط میں ذکر ہو چکا ہے کہ خطبۂ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے کہا کہ پہلی گول میز کانفرنس میں انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کا جو تصوّر پیش کیا ہے وہ  اونچی ذات کے ہندوؤں کے  لیےایک  اشارہ  ہے کہ وہ ہندوستان میں انگریزی استعمار  کو سہارا دیں اور انگریزوں کی مدد سے خود یہاں کی اقلیتوں پر حاوی رہیں۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال کے نقطۂ نگاہ سے پہلی گول میز کانفرنس کا اہم ترین نتیجہ یہی تھا۔

اقلیتوں میں مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے علاوہ کروڑوں اچھوت بھی شامل تھے۔ سِکھوں کو علیحدہ ووٹ کا حق مل چکا تھا (جسے ہندو قیادت پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے استعمال کرتی تھی) لیکن اچھوت اپنے علیحدہ نمایندے منتخب نہیں کر سکتے تھے اور ووٹ کے معاملے میں انہیں ہندوؤں کے ساتھ شمار کیا جاتا تھا۔ حالانکہ انہیں نہ ہندوؤں کے مندروں میں جانے کی اجازت تھی، نہ ہندوؤں کے کنووں سے پانی لے سکتے تھے اور نہ ہی اُن کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے۔ علامہ اقبال نے سائمن کمیشن کے سامنے طنزاً کہا تھا کہ ہندوؤں کے لیے یہ لوگ اچھوت ہیں لیکن ان کے ووٹ اچھوت نہیں ہیں۔

اقلیتوں کا معاہدہ



دوسری گول میز کانفرنس میں اچھوتوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں علیحدہ ووٹ کا حق دیا جائے تاکہ وہ بھی اپنے نمایندے منتخب کر سکیں۔ اونچی ذات کی ہندو جماعتوں کے نمایندے بھی کانفرنس میں آئے اور کانگرس کی طرف سے گاندھی بھیجے گئے۔ ان سب نے اچھوتوں کی مخالفت کی اور گاندھی نے مسلم نمایندوں پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ اچھوتوں کی حمایت نہ کریں لیکن مسلمان اس دباؤ میں نہیں آئے۔

علامہ اقبال نے ان واقعات پر کافی روشنی ڈالی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گاندھی کوشش کر رہے تھے کہ ہندوؤں اور اقلیتوں کے درمیان تصفیہ نہ ہونے پائے اور یہ مسئلہ اسی طرح اُلجھا رہ جائے۔

سِکھوں کو چھوڑ کر جو ہندو قیادت کے ساتھ مل گئے تھے، بقیہ اقلیتوں میں سے مسلمان، اچھوت، عیسائی، اینگلو انڈین اور یورپین ہندوستان کی آبادی کا چھیالیس فیصد تھے۔ ان کے نمایندوں نے گاندھی کی سنگدلی سے تنگ آ کر  آپس میں مذاکرات شروع کیے۔

12 نومبر کو مسلمانوں نے اِن سب اقلیتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے ’’اقلیتوں کا میثاق‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں گیارہ بنیادی نکات تھے اور ہر فرقے کے خصوصی مطالبات الگ الگ بھی درج تھے۔ اچھوتوں کی طرف سے ڈاکٹر امبیدکر، دیسی عیسائیوں کی طرف سے راؤ بہادر پنر سلوَم، اینگلو انڈینز کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور یورپینوں کی طرف سے سر ہیوبرٹ کار نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔ مسلمانوں کی طرف سے مسلم وفد کے سربراہ آغا خاں سوئم نے دستخط کیے لیکن مسلمانوں کے باقی نمایندے بھی اس معاہدے پر متفق تھے جن میں علامہ اقبال، محمد علی جناح اور مولانا شفیع داؤدی بھی شامل تھے (علامہ اقبال اس معاہدے کو جو اہمیت دیتے تھے، اُس کی ایک آدھ مثال آگے پیش کی جا رہی ہے)۔

معاہدے کی بعض دفعات اس طرح تھیں:

  • کسی شخص سے اُس کی پیدائش، مذہب، ذات یا عقیدے کی وجہ سے سرکاری ملازمت، اعلیٰ عہدے، اعزاز، شہری حقوق، تجارت یا پیشے  کے معاملات میں تعصب نہیں برتا جائے گا۔
  • کسی ملّت کے خلاف امتیازی قوانین بنانے کی اجازت نہ ہو گی۔
  • مکمل مذہبی آزادی ہو گی۔ عقیدے، عبادات، تبلیغ، اجتماع اور تعلیم پر سوائے امنِ عامہ اور اخلاقی ضابطوں کے کوئی اور پابندی نہ ہو گی۔ مذہب بدلنے کی وجہ سے کسی کو   شہری حقوق اور مراعات سے محروم نہ کیا جائے گا اور نہ ہی سزا ملے گی۔
  • ہر ملّت کو اپنے خرچ پر خیراتی، مذہبی، سماجی اور تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے، اور وہاں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کا حق ہو گا۔
  • اقلیتوں کے مذہب، ثقافت اور شخصی قانون کی سلامتی؛ ان کی تعلیم، زبان، خیراتی اداروں کی ترویج؛ اور ریاست یا خوداختیاری اداروں سے امداد کے لیے آئینی تحفظات ہوں گے۔
  • جان بوجھ کر یا انجانے میں کسی کو شہری حقوق سے محروم کرنا جرم ہو گا اور سزا دی جائے گی۔
  • یہ رواج قائم کیا جائے گا کہ جہاں تک ہو سکے مرکزی اور صوبائی وزارتوں میں اقلیتوں کے افراد ضرور شامل کیے جائیں۔
  • چھوت چھات کی بنیاد پر کوئی پابندی لگانا جرم ہو گا۔
  • اچھوتوں کو فراخ دلی کے ساتھ ملازمتوں، پولیس اور فوج میں بھرتی کیا جائے گا۔
  • اینگلو انڈین کمیونٹی کی خصوصی حیثیت کا لحاظ کرنے میں فراخ دلی سے کام لیا جائے گا، مثلاً ایک خاص معیارِ زندگی برقرار رکھنے کی ضرورت، مقدمے کی صورت میں یورپین جیوری طلب کرنے کا حق وغیرہ۔
  • ملک میں رہنے والے یورپیوں کو صنعت و تجارت میں مقامی شہریوں کے برابر حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے۔

باقی شقوں میں یہ شامل تھا کہ جداگانہ انتخاب برقرار رکھا جائے۔ اقلیتیں دس برس بعد ترک کر سکتی ہیں۔ اچھوتوں کے لیے بیس برس تک جداگانہ انتخاب یقینی بنایا جائے۔ قانون ساز اداروں میں نشستوں کی تعدادخاص تناسب میں ہو۔

13 نومبر 1931 کو دوسری گول میز کانفرنس میں اقلیتوں کی کمیٹی کی آخری میٹنگ ہوئی جہاں معاہدہ رسمی طور پر برطانوی وزیراعظم کو پیش کیا گیا (غیررسمی طور پر پچھلی رات ہی پیش کر دیا گیا تھا اور صبح کے اخبارات میں بھی آ چکا تھا)۔ سر ہنری گڈنی نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ:

’’ہم چھوٹی اقلیتوں کو اپنی مشکل گھڑی میں مسلم ملّت کی طرف سے وفا اور محبت کا واضح ثبوت ملا ہے، اور میں اس موقع پر دوسری اقلیتوں کی طرف سے بھی اس بات پر دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مسلمانوں نے اس مشکل کاروائی کے دوران ہمارا ساتھ دیا اور رسمِ وفا نبھائی۔‘‘

یورپین اقلیت کی طرف سے سر ہیوبرٹ کار نے گاندھی پر طنز کرتے ہوئے کہا:

’’اقلیتوں کو متحد کرنے میں مسٹر گاندھی نے جو حصہ لیا ہے مجھے  اُس کے لیے  واقعی اُن کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ اُن کا اس بات سے انکار کہ ہم بھی جداگانہ انتخاب کے ذریعے ہندوستان اور صوبوں کی اسمبلیوں میں اپنے نمایندے بھیج سکیں، ہم اقلیتوں کو مجبور کر گیا کہ ہم اکٹھے ہو جائیں۔‘‘

جس مہینے یہ معاہدہ ہوا، اُسی  مہینے  علامہ اقبال نے وہ غزل لکھی جس میں یہ مشہور شعر ہے:

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!

مجھے یقین ہے کہ ’’اقبال کی منزل‘‘ سے یہ بات خودبخود واضح ہو جائے گی کہ علامہ اقبال کے نزدیک دین اور سیاست اُس معاہدے میں اکٹھے تھے جو مسلمانوں نے اقلیتوں کے ساتھ  کیا۔ جلالِ بادشاہی انگریز کے ہمراہ تھا۔ جمہوری تماشا گاندھی نے دکھایا۔ انگریز حکمراں اور گاندھی مل کر ہندوستان کی اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کر رہے تھے وہ نئے زمانے کی چنگیزی تھی۔

یہ نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کہ  پچھلی قسط میں ہم نے دیکھا تھا کہ اقبال کی مثالی دنیا “مرغدین” کے وجود میں آنے کی شرط ہی یہ ہے کہ دین و سیاست ایک ہو جائیں۔ اس لیے یہ سوال کسی کے ذہن میں آ سکتا ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں غیرمذہب کے شہریوں کی کیا حیثیت ہو گی۔ اُمید ہے کہ آج کی قسط سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے۔

جنوبی ایشیا کا اتحاد


تیسری گول میز کانفرنس سے واپس آتے ہی 26 فروری 1933 کو علامہ اقبال نے ایک بیان دیا جس کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے میں بعض الفاظ کو خط کشیدہ (انڈرلائن) کر رہا ہوں جن پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے:

’’جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، اُن کا فرض ہے کہ وہ آیندہ انتخابات کے لیے اپنے آپ کو منظم کریں اور بڑے دھیان سے ایسے تمام اقدامات سے گریز کریں جن کی وجہ سے اُن کے درمیان اندرونی اختلافات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ مجوزہ آئین واضح طور پر اقلیتوں کے تحفظ کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ اقلیتوں کو قومی زاویۂ نگاہ دینے کا واحد طریقہ ہے۔ اب یہ اقلیتوں پر ہے جو لندن میں اقلیتوں کے میثاق میں شریک تھیں کہ وہ اُن مواقع سے پورا فائدہ اٹھائیں جو اُنہیں فراہم کیے جا رہے ہیں۔

’’گول میز کانفرنسوں کے نتائج کے بارے میں اور جو بھی کہا جائے، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اِنہوں نے ایک جمہور کو جنم دیا ہے جو بیک وقت جدید بھی ہیں اور قدیم بھی۔ میں اِسے جدید تاریخ کے اہم ترین واقعات میں شمار کرتا ہوں۔ کوئی دُور بیں مورخ بھی اِن ’جدید قدیم‘ لوگوں کی پیدائش کی پوری اہمیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ان کے رہنما بیدار رہیں اور بیرونی قوتوں کو، خواہ سماجی ہوں یا سیاسی، اجازت نہ دیں کہ وہ عوام میں پیدا ہونے والی خودآگاہی  کو روکیں۔‘‘ (انگریزی متن لطیف احمد شیروانی کے مرتب کیے ہوئے اقبال کی انگریزی تحریروں کے مجموعے میں موجود ہے)۔

خط کشیدہ الفاظ سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال  کے ذہن میں جو منصوبے تھے، اُن کا اطلاق وہ پورے جنوبی ایشیا پر چاہتے تھے۔ لیکن یہ کام کانگرس کے پیش کیے ہوئے نظریۂ قومیت یا متحدہ ہندوستان کے تصوّر کے ذریعے نہیں بلکہ تمام اقلیتوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت، برصغیر کی ازسرِ نو تقسیم اور عوام کی خود آگاہی کے ذریعے ہو سکتا تھا۔

مسجدِ قرطبہ


آخری گول میز کانفرنس کے حوالے سے علامہ اقبال نے جو بیان دیا، اُس کی روشنی میں اُن کی اُس شاہکار نظم کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے جو اُنہوں نے یہ بیان دینے سے تقریباً ایک ماہ پہلے لکھی جب وہ واپسی کے سفر میں اسپین سے گزر رہے تھے۔ یہ نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ہے:

آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اُس کی سحر بے حجاب

اس نظم میں مسلمانوں کی عظمت کا  جو نقشہ کھینچا گیا ہے اُسے اقلیتوں کے معاہدے کی روشنی میں دیکھیے اور کانفرنس میں اقلیتوں کے ایک نمایندے کے اِس قول کی تشریح سمجھیے کہ چھوٹی اقلیتوں کو ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے وفا، محبت اور ہمدردی کا ثبوت ملا ہے:

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اُس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو
عشق خود اِک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سِوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام!
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفےٰؐ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام!
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک
عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاسُ الکرام
عشق فقیہِ  حرم، عشق امیرِ جنود
عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام!
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نُورِ حیات عشق سے نارِ حیات



غدّار کون؟


جب گول میز کانفرنسیں ختم ہو گئیں اور ہندوستانی نمایندے انگلستان سے رخصت ہو چکے تو 28 جنوری 1933 کو کیمبرج میں مقیم ایک ہندوستانی طالب علم نے برطانوی پارلیمنٹ کے بعض ممبروں کے نام  ایک خط لکھا اور ساتھ ایک پمفلٹ نتھی کر دیا جس کا عنوان تھا، ’’اب یا کبھی نہیں‘‘۔ اس میں لکھا تھا کہ گول میز کانفرنس کے مسلم نمایندوں نے (جن میں علامہ اقبال بھی شامل تھے) مسلمانوں سے غداری کی ہے۔

یہ طالب علم چوہدری رحمت علی تھے۔ پمفلٹ میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شمال مغربی ہندوستان کے چار صوبوں کو بقیہ ہندوستان سے علیحدہ خودمختار ریاست بنایا جائے۔ اس کا نام انہوں نے پاکستان تجویز کیا۔

’’خطبۂ الٰہ آباد‘‘ والی قسط میں تفصیل سے وضاحت کی جا چکی ہے کہ علامہ اقبال  اس مطالبے کو 1935 سے پہلے پیش کرنا مسلمانوں کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے اگرچہ 1935 کے بعد انہوں نے بھی ہندوستان سے علیحدہ ریاست بنانے پر زور دیا۔ چنانچہ 1933 میں  جب رحمت علی کا پمفلٹ شائع ہوا اور کچھ عرصے بعد کسی انگریز مصنف نے اس کا تعلق اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی تو اقبال نے اُس مصنف کو خط لکھ کر واضح کیا کہ نہ صرف پمفلٹ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ پمفلٹ کے مصنف ’’یہ سمجھتے ہیں کہ … ہم  نے مسلم قوم کو ہندوؤں کی یا نام نہاد ہندوستانی قومیت کی قربان گاہ  پر بھینٹ چڑھا دیا ہے۔‘‘ (دیکھیے کلیات مکاتیب اقبال جلد سوم، صفحہ 472

رحمت علی کے پمفلٹ کا فائدہ ہندو پریس نے اُٹھایا۔ 1933 ہی میں ’’پاکستان‘‘ اور ’’پاکستانی ذہنیت‘‘کے الفاظ کو منفی اصطلاحات بنا دیا۔ مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں ایک علیحدہ وطن کی قرارداد پیش کرتے ہوئے یہ نام نہیں لیا لیکن ہندو پریس نے مسلم لیگ کے مطالبے کو ’’پاکستان‘‘ کے نام سے مشہور کر دیا کیونکہ یہ لفظ پہلے ہی بدنام ہو چکا تھا۔

1943 میں مسلم لیگ کے اجلاس کے خطبۂ صدارت میں قائداعظم نے وضاحت کی کہ  مسلم لیگ جس ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اُس کا رحمت علی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ریاست کو پاکستان کا نام قائداعظم یا مسلم لیگ نے نہیں  بلکہ ہندو پریس نے دیا ہے لیکن چونکہ اب یہ مجوزہ ریاست اسی نام سے مشہور ہو چکی ہے اس لیے مسلم لیگ نے یہ نام قبول کر لیا ہے۔

رحمت علی بدستور کیمبرج سے مسلم رہنماؤں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہے۔ جب قائداعظم نے پاکستان کا مطالبہ منظور کروا لیا تو رحمت علی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ہر ممکن طریقے سے اس ریاست کے قیام کو روکنے کی کوشش کریں۔ جناح کے لیے ’’غدارِ اعظم‘‘ (Quisling-e-Azam) کے الفاظ استعمال کیے اور اُنہیں میر جعفر سے بڑا غدار قرار دیا (دیکھیے رحمت علی کی انگریزی کتاب، ’’پاکستان، پاک قوم کا پدرِ وطن‘‘، خاص طور پر صفحہ 354)۔

رحمت علی کے سوانح نگار کے کے عزیز نے لکھا ہے کہ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد رحمت علی لاہور تشریف لائے اور اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کو ختم کرنے آئے ہیں تاکہ اس کی جگہ اپنی اسکیم والی ریاست قائم کر سکیں۔ ساتھ ہی  پاکستانی شہریت حاصل کرنے کی درخواست بھی دے دی! ظاہر ہے کہ یہ درخواست مسترد کر دی گئی جس کے بعد وہ کیمبرج  واپس چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے۔

قائداعظم کا ڈرائیور



پہلی گول میز کانفرنس کے بعد علامہ اقبال نے کہا کہ انگریزوں اور ہندوؤں کے درمیان سمجھوتہ ہو گیا ہے کہ دونوں مل کر ہندوستان کی اقلیتوں پر حکومت کریں۔ دوسری گول میز کانفرنس  میں دنیا نے دیکھ لیا کہ برطانوی حکمراں، گاندھی اور اُونچی ذات کے ہندو  (اور بدقسمتی سے سِکھ بھی) ایک طرف کھڑے تھے۔ دوسری طرف ہندوستان کے چھیالیس فیصد عوام  کے نمایندے ’’اقلیتوں کے میثاق‘‘ کے ذریعے متحد ہو کر سامنے آئے۔

مجھے اُمید ہے کہ آج کی قسط سے واضح ہو گیا ہو گا کہ علامہ اقبال کے نقطۂ نظر سے گول میز کانفرنس کے اختتام پر یہی صورت حال دنیا کے سامنے موجود تھی۔

یہ الگ بات ہے کہ اُن کی اِس رائے سے نہ گاندھی متفق ہو سکتے تھے، نہ وہ سرمایہ دار جن کی جنگ گاندھی لڑ رہے تھے اور نہ ہی وہ تعلیم یافتہ مگر فریب خوردہ مسلمان جن کی ذہنیت چوہدری رحمت علی جیسی تھی۔

اُن سب کو اپنی اپنی آرأ مبارک ہوں، ہمارا مقصد صرف علامہ اقبال کے نقطۂ نگاہ کو ٹھیک سے سمجھنا ہے۔  اس لحاظ سے ہمیں بعد کی تاریخ کا مطالعہ اِس سوال کی روشنی میں کرنا چاہیے کہ کس حد تک جنوبی ایشیا میں وہ صورت حال برقرار رہی جو گول میز کانفرنس کے اختتام پر وجود میں آئی تھی (علاوہ اس بات کے کہ اب سِکھوں نے ہندو قیادت کا ساتھ چھوڑ دیا ہو)؟

یہ درست ہے کہ ہندوستان کی آزادی، پاکستان کا قیام اور بنگلہ دیش کی علیحدگی بڑے اہم سنگِ میل ہیں۔ لیکن یہ سنگِ میل جس راستے پر ہیں، کیا اُس راستے سے گزرنے والے قافلے کی ہئیتِ ترکیبی آج بھی وہی ہے جو گول میز کانفرنس کے اختتام کے وقت تھی؟ کیا آج بھی جنوبی ایشیا کے مسلمان، دوسری اقلیتیں اور غریب عوام وہی ’’جدید قدیم‘‘ لوگ ہیں جن کی تشکیل اُس وقت ہوئی تھی اور کیا آج بھی ان سب کے مفادات ایک ہیں؟

آج یہ عوام تین خودمختار ریاستوں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے مالک ہیں لیکن کیا تینوں ریاستوں کے اندرونی سکون اور بیرونی امن کے پیچھے آج بھی وہی رہزن لگے ہوئے ہیں جن کے چہروں سے علامہ اقبال اور مسلم رہنماؤں نے گول میز کانفرنس میں نقاب اتارے تھے؟

میرے نزدیک اِن تمام سوالوں کا جواب ہے، ’’جی ہاں‘‘۔ یہ جواب محض کسی ’’نظریے‘‘ کی خاطر نہیں بلکہ ایک طویل تحقیق کی وجہ سے ہے:

یہ نکتہ سرگزشتِ ملّتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تُو ہے

اس تحقیق کے نتائج اس سال کچھ کتابوں کی صورت میں پیش کر رہا ہوں جن میں سے ایک ’’اقبال کی منزل‘‘ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ہمیں یہ ایک نئی بات لگے (مجھے لگتی ہے) لیکن ہم سے پہلے کچھ لوگ گزرے ہیں جو ہماری اِس گمشدہ تاریخ کی روح کو  غیرمحسوس طریقے سے ہم تک منتقل کرتے رہے۔ میں نے یہ قسط لکھتے ہوئے ایس ایم یوسف کی فلم ’’زندگی ایک سفر ہے‘‘ کا ایک نغمہ کئی بار سنا اور یوں محسوس کرتا رہا جیسے پوری قسط کا خلاصہ علامتی انداز میں سامنے آ رہا ہو۔

اِس نغمے کی خاص بات یہ ہے کہ حاضرین میں فلم اسٹار آزاد بھی بیٹھے ہیں جو حقیقی زندگی میں قائداعظم کے ڈرائیور رہ چکے تھے(اس منظر میں انہوں نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا ہے)۔ ہم اپنی جس کھوئی ہوئی تاریخ کی تلاش میں ہیں اُس کی راہوں سے یہ قائداعظم کی گاڑی چلاتے ہوئے گزرے تھے۔

اس لیے یہ ویڈیو دیکھتے ہوئے میری طرح خواہ مخواہ تصوّر کر لیجیے کہ اس میں جو تقریب دکھائی جا رہی ہے، وہ گول میز کانفرنس ہے۔ وحید مراد یہاں آغا خاں، علامہ اقبال یا محمد علی جناح کا کردار ادا کر رہے ہیں اور کانفرنس میں ’’اقلیتوں کا معاہدہ‘‘ پڑھ کر سُنا رہے ہیں:

یہاں ہر ایک شخص کا بلند تر مقام ہو
مِٹیں دِلوں سے نفرتیں، سبھی کا احترام ہو
اِس احترام کے لیے ہماری جنگ ایک ہے!



اگلی قسط جمعہ 22 فروری کو ملاحظہ کیجیے۔ اِس کا عنوان ہے، “سیمرغ”۔ باقی باتیں فی الحال قسط کے “سسپنس” میں شامل کر لیجیے۔ صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ یہ ایک بہت ہی مشہور کتاب کے بارے میں ہے، اور علامہ اقبال کی زندگی کے اِس دَور سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔